فیصلہ کرنے والے پاکستان میں ”چینی طرز“ کا نظام چاہتے ہیں!

کیا آپ کو علم ہے کہ گزشتہ ہفتے جمعرات کوقومی اسمبلی سے 29بل منظور کیے گئے اور جمعہ کو 24بل منظور کیے گئے۔ اور تادم تحریر بھی قومی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں توقع ہے کہ مزید بل پاس کیے جائےں گے۔ اور ان بلوں کی تفصیل عام عوام تک تو دور کی بات پارلیمان کے اراکین کو بھی اس سے دور رکھا جا رہا ہے۔ مرکزی حکومت اپنے آخری دنوں میں یہ فیصلے کس کی ایماءپر کر رہی ہے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر اس وقت لگ یہی رہا ہے کہ فیصلہ کرنے والی قوتوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ آئندہ ملک میں کونسا نظام رائج کیا جائے گا۔ کیا یہ چینی طرز کا نظام ہوگا؟ یا یہ بادشاہت کا نظام قائم ہوگا؟ جہاں ہر چیز کو کنٹرولڈ طریقے سے چلایا جائے گا۔یعنی سیاستدان بھی کنٹرولڈ، میڈیا بھی کنٹرولڈ، بزنس مین بھی کنٹرولڈ، عوام بھی کنٹرول ، سوشل میڈیا کنٹرولڈ، نیب بھی کنٹرولڈ، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن بھی کنٹرولڈ ، تمام دینی جماعتیں و ادارے بھی کنٹرولڈ ، معیشت بھی کنٹرولڈ، اور سب سے بڑھ کر ملک کے تمام منافع بخش ادارے بھی کنٹرولڈ ہاتھوں میں ہوں گے۔ پھر چاہے آپ کھربوں کی کرپشن کریں ، جب تک” وہ“ نہیں چاہیں گے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ لہٰذاتبھی نئے قوانین ”ڈمی اسمبلی“ سے بنوائے جا رہے ہیں، تبھی جسے چاہ رہے ہیں، پکڑ رہے ہیں، اور جسے چاہ رہے ہیں ضمانت مل رہی ہے۔اور پھر اس نظام کے رائج ہونے کے بعد آہستہ آہستہ یہ ہو گاکہ عوام اس چیز کے عادی ہو جائیں گے، اور پھر دھیرے دھیرے”راجہ ریاض“ ٹائپ اپوزیشن بھی ختم ہو جائے گی۔ پھر اس سسٹم کو رائج کرنے کے لیے میرے خیال میں عوام کو چند پیسے بھی دیے جائیں گے، یا اُنہیں بھرپور پیکجز بھی دیے جا سکتے ہیں، تاکہ کہیں سے مزاحمت کا سامنا نا کرنا پڑے ۔ خیر اب آتے ہیں کہ چینی نظام ہے کیا ؟ اسے سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ دنیا میں تقریباً 200 سے زائد ملک ہیں، ان ملکوں میں حکمرانی کے 5 قسم کے ماڈل رائج ہیں، جمہوریت، بادشاہت، آمریت، یک جماعتی نظام اور ہائبرڈ جمہوریت۔ جس جمہوریت پر ہم صبح شام تبرّا کرتے ہیں وہ امریکہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ، ناروے، ڈنمارک، سویڈن جیسے ترقی یافتہ ممالک میں قائم ہے۔ بادشاہت والا نظام خلیجی ممالک کے بھائی لوگوں نے اپنا رکھا ہے، اِس نظام میں کوئی زیادہ بکواس کرے تو اس کی تکہ بوٹی کی جا سکتی ہے۔ فوجی آمریت یوں تو آﺅٹ آف فیشن ہو چکی ہے مگر اب بھی میانمار، تھائی لینڈ، مصر اور کئی افریقی ممالک میں اِس کے گاہک موجود ہیں۔ یک جماعتی نظام ہمارے محبوب چین میں رائج ہے اور رہی ہائبرڈ جمہوریت تو اِس کی مثالیں ڈھونڈنا /دینا ذرا مشکل ہے، ہائبرڈ جمہوریت کا مطلب ہے آدھا تیتر آدھا بٹیر، یعنی ملک میں انتخابات ہوتے ہیں، پارلیمان قائم ہے مگر جمہوری اقدار نہیں ہیں، زبان درازی پر زبان کھینچ لی جاتی ہے، مخالفین پر مقدمے بنا کر جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے اور ٹی وی چینلز پر چھاپہ مار کر صحافیوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے، ایسے ملکوں کی مثالیں آپ خود ڈھونڈ لیں، اِن میں سے ایک تو ہمارا پسندیدہ نکل آئے گایعنی ہم خود۔ خیر اب ہم اس ہائبرڈ جمہوریت سے نکل کر ”چینی نظام“ میں جانے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں ، اس نظام کو سمجھنے کے لیے آپ کو سب سے پہلے چین کے نظام حکومت کے بارے میں علم ہونا چاہیے کہ چین کی آبادی تقریباً ایک ارب پینتیس کروڑ ہے۔ یوں اس دنیا میں بسنے والا ہر چھٹا شخص چینی ہے۔ ملکی اکائیوں میں 23 صوبے، پانچ خودمختار علاقے، چار میونسپلٹیز جن کے معاملات مرکزی حکومت براہ راست دیکھتی ہے،جبکہ دو عدد خصوصی انتظامی علاقے یعنی ہانگ کانگ اور مکاﺅ شامل ہیں۔ چین کی پارلیمنٹ جسے نیشنل پیپلز کانگرس کہا جاتا ہے کے ممبران کی تعداد تقریبا تین ہزار ہے۔ نیشنل پیپلز کانگرس دنیا کے سب سے بڑی پارلیمنٹ ہے جسکی 35 انتخابی اکائیاں ہیں۔ اسکے ارکان نا صرف چین کے ہر علاقے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ تمام طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات پارلیمنٹ کا حصہ ہیں جیسا کہ فلمی دنیا سے مشہور زمانہ اداکار جیکی چن، کھیل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے اور تعلیم و تدریس سے منسلک لوگ وغیرہ۔ چین کی آرمڈ فورسز کے ارکان بھی کانگرس کا حصہ ہیں یعنی فوج بھی سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ ہمارے ہاں یعنی مملکت خداداد میں اگرچہ فوج سیاسی عمل کا حصہ نہیں مگر ریٹائرڈ افراد کی شکل میں یہ ہر جگہ موجود ہیں۔ عمومی خیال یہ پایا جاتا ہے کہ چین میں صرف ایک سیاسی جماعت یعنی کیمونسٹ پارٹی کی حکومت ہے جو کہ اک طرح سے درست بھی ہے کیونکہ 1949ءمیں عوامی جمہوری چین کے قیام سے لےکر اب تک ملک کی باگ ڈور اسی جماعت کے ہاتھ میں ہی چلی آتی ہے۔ تاہم دیگرآٹھ چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں بھی چینی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں جن میں کومنتانگ پارٹی، چینی جمہوری لیگ، ایسوسی ایشن فار پرموٹنگ ڈیموکریسی، مزدور کسان ڈیموکریٹک پارٹی وغیرہ شامل ہیں۔ البتہ عوامی سطح پر انکی طاقت نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے وہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسی تمام جماعتیں کیمونسٹ پارٹی کی اتحادی ہیں۔ قصہ مختصر کہ ناچار ان جماعتوں کو حکومتی کمیٹیوں کے پیش کردہ بلوں پر مہر لگانا ہی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا چینی پارلیمنٹ کو ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ ہونے کا طعنہ دیتا رہتا ہے۔خیر چین میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کے ساڑھے 8کروڑ لوگ اِس کے رکن ہیں، یہ لوگ براہِ راست منتخب نہیں ہوتے، شہری اِس کی رکنیت کے لیے درخواست دیتے ہیں اور پھر پارٹی طے کرتی ہے کہ کوئی شخص رکن بنے کا اہل ہے یا نہیں، کون کمیونسٹ سوچ کا وفادار ہے کون نہیں، گویا ایک بہت بڑی آبادی سیاسی نظام سے پہلے مرحلے میں ہی باہر ہو جاتی ہے۔”پیپلز نیشنل کانگرس“یعنی وہاں کی قومی اسمبلی صدر،نائب صدر، وزیراعظم، چیرمین سینٹرل ملٹری کمیشن اور صدر سپریم پیپلز کورٹ کے علاوہ قائمہ کمیٹی کا انتخاب کرتی ہے۔ کانگرس کے پاس اختیار ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی عہدہ سے فارغ کر سکتی ہے۔ چین میں طاقت کا منبہ پیپلز کانگرس ہے پر صاحب ہاتھی کے پاﺅں میں سب کا پاﺅں ہوتا ہے۔ سو یوں کہیے کہ اصل طاقت جناب صدر کے پاس ہی ہوتی ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انکے اور ہمارے صدر میں خاصا فرق ہے۔وہاں کا صدر ویٹو پاور رکھتا ہے جبکہ ہمارا صد محض ایک ڈمی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ پھر اگر آپ چینی نظام حکومت کے نقائص دیکھیں تو وہاں معاشی آزادی ضرور ہے، آپ کاروبار کرکے ارب پتی بن سکتے ہیں مگر ایک خاص حد کے بعد آپ کی کمپنی میں کمیونسٹ پارٹی کا عہدے دار آ کر براجمان ہو جائے گا اور فیصلہ سازی کی ویٹو پاور اُس کے پاس ہوگی، ایسا نہیں ہوگا کہ وہ کمپنی کے کاروبار کو متاثر کرے گامگر کمپنی بہر حال اُس کی مرضی کے بغیر کوئی بڑا فیصلہ نہیں کر سکے گی۔ باقی رہی سیاسی آزادی تو اُس کا حال بیان کیا جا چکا، کمیونسٹ پارٹی سے باہر کچھ بھی نہیں، ایک ارب 35 کروڑ کی آبادی سے یہ کبھی نہیں پوچھا گیا کہ کیا آپ اِس نظام سے مطمئن ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ بہت خوش ہوں مگر اِس سوال کا جواب بہرحال کبھی نہیں آیا۔پھر وہاں سماجی اور ثقافتی آزادیوں کی تو یہ چینی معاشرے میں موجود ہے مگر اسے حکومت نے کافی حد تک ریگولیٹ کر لیا ہے۔ یو ٹیوب، نیٹ فلکس، کورا، بی بی سی، رائیٹرز، ایچ بی او، ریڈ اٹ، انسٹا گرام، ٹمبلر، وکی پیڈیا، گوگل، ٹویٹر، وکی لیکس، اکنامسٹ، ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ سب پر پابندی ہے مگر اِس کے عوض حکومت نے عوام کو متبادل ایپس بنا دی ہیں، میڈیا البتہ مکمل کنٹرولڈ ہے سو ایسے میں کسی منفی خبر کا باہر آنا ممکن نہیں۔ لہٰذااگر آج کے دور میں یہ ماڈل پاکستان پر لاگو ہو گیا تو میرے خیال میں اس کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں، اِس میں کوئی شک نہیں کہ چین نے ناقابلِ یقین ترقی کی ہے، چین کا معاشی ماڈل ہنر مند افرادی قوت کی بہترین مثال ہے ،ہمیں بھی اِس حد تک چین کی پیروی کرنی چاہیے، لیکن اگر کوئی کہے کہ اِس کے عوض باقی آزادیوں سے دستبردار ہو جاﺅ تو یہ ظلم ہوگا اور پھر مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ چین کی ترقی سے متاثر نہیں ہیں بلکہ چینی نیم جمہوری رویے سے متاثر ہیں، جہاں کہیں سے کوئی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ لہٰذااس سسٹم میں نہ تو ایک پارٹی کی حکومت چل سکتی ہے اور نہ ہی صدارتی نظام کامیاب ہو سکتا ہے۔ اس لئے اگر فیصلہ کرنے والے زراعت‘ صنعت‘ اور سائنس و ٹیکنالوجی میں چین کے کامیاب تجربے سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو ضرور سیکھیں‘ لیکن سیاسی اور انتظامی نظام کو بالکل ویسی ہی شکل میں نافذ کرنے کا خیال دل میں نہ لانا ہی بہتر ہوگا!