عمران کو نکال کر ڈیڑھ سال میں عوام کو کیا ملا؟

لیں جی! آخر کار وہ دن بھی آگیا جب تحریک انصاف کے ساڑھے تین سالہ اقتدار کے بعد امپورٹڈ حکومت کا آخری دن ہونا تھا، اور پھر قومی اسمبلی نے بھی اپنی مدت جیسے تیسے کرکے پوری کرنا تھی۔ ویسے تو حکومت نے اپنی مدت دو چار دن پہلے ہی حکومت ختم کردی ہے تاکہ نگران حکومت کوالیکشن کروانے کے لیے ایک مہینہ اضافی مل سکے، لیکن اس کو ہم مدت پوری کرنا ہی کہیں گے۔ اور ابھی تو ویسے بھی کسی کے علم میں نہیں ہے کہ الیکشن کب ہوں گے، کب نہیں۔ کیوں کہ نئی مردم شماری کی منظوری ہو چکی ہے اور اب الیکشن لگ بھگ ایک سال تک التوا میں جا سکتے ہیں۔ خیر اس حوالے سے تو شاید ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کیا ہونے والا ہے، یا کیا ہونے جا رہا ہے۔ لیکن اگر ہم گزشتہ ڈیڑھ سالہ پی ڈی ایم دور کی بات کریں تو یقین مانیں اس دور میں عوام کا بھرکس نکل گیا ہے۔ اپریل2022 میں جب نام نہاد تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو نکالاگیا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ اگلے ڈیڑھ سال میں اُن کے ساتھ کیا ہوگا۔ اس دوران پہلے پی ڈی ایم کی پارٹی ن لیگ سے مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ بنائے گئے تو انہوں نے آتے ساتھ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں کے بم برسائے اور اس دوران ڈالر ڈیڑھ سو روپے سے سوا دو سو روپے تک چلا گیا۔ پھر مفرور اور عدالتوں کو مطلوب عرف عام میں اشتہاری اسحاق ڈار کو لایا گیا۔ اُنہوں نے بہت سے عوامی نعرے لگائے لیکن ان کے دور میں بھی عوام کی ذلالت کی رہی سہی کسر نکل گئی۔ اور آج پاکستان میں مہنگائی 50فیصد، زر مبادلہ (پکڑ دھکڑ کر) 10ارب ڈالر، بجلی 100روپے تک فی یونٹ، پٹرول پونے تین سوروپے فی لیٹر اور ڈالر 290کا ہے اور کل کا علم نہیں کہ پاکستان کے ساتھ کیا ہوگا؟ خیر پی ڈی ایم جا چکی، لیکن اس ڈیڑھ سال میں وہ بہت سے کھیل کھیل گئی، حتیٰ کہ پارلیمنٹ تک کو ربڑ سٹیمپ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ اور پھر قانون سازی میں تو انتہا ہی کر دی ہے،یعنی موجودہ پارلیمنٹ نے اپنے آخری ایام میں جو قانون سازی کی ہے یقین جانئے یہ بات میں پورے اعتماد اور ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں وہ دورِ آمریت میں بھی نہیں کی گئی اور وہ بھی ان دوستوں کے ہاتھوں جو ہر دوسرے دن آئین اور قانون کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں۔خیر پی ڈی ایم نے اور بھی بہت کچھ حاصل کیا ہے، انہوں نے اپنے کیسز بھی معاف کروا لیے ہیں، انہوں نے اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ مل کر عمران خان کو ڈسکوالیفائی بھی کروا لیاہے، الیکشن بھی آگے کروالیے ہیں تاکہ تحریک انصاف کا زور ٹوٹ جائے، نواز شریف کو دوبارہ سیاست میں لانے کے لیے مرضی کے بل بھی پاس کروالیے ہیں، پورے ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیچ بھی دیا ہے، ادارے گروی رکھ دیے۔ لیکن بدلے میں عوام کو کیا ملا؟ مہنگائی؟ بدامنی، بدحالی، خودکشیاں اور بے روزگاری؟ جبکہ اسی پر بس نہیں تو بلاول صاحب اپنی الوداعی تقریر میں فرما گئے ہیں کہ ’میاں صاحب اور زرداری صاحب کو ایسے فیصلے لینے چاہیے کہ آگے جا کر میرے اور مریم نواز کے لیے سیاست آسان ہو مشکل نہ ہو۔ اس پر ایوان میں موجود دونوں پارٹیوں کے ارکان نے ڈیسک بجائے اور بعد میں بلاول بھٹو کا یہ ”معنی خیز جملہ“ پارلیمنٹ ہاﺅس کی راہداریوں میں بھی موضوع بحث رہا۔ حالانکہ بلاول کو چاہیے تھا کہ وہ ایسا کہنے سے پہلے سوچتے کہ کیا اس ملک میں موروثیت کی گنجائش ہے؟ یقینا اُن کے نزدیک ہوگی! اگر انہوں نے یہ بیان اس زاویے سے دیا ہے کہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو کم کیا جائے تو میرے خیال میں اس حوالے سے سب سے پہلے بلاول اپنے والد کو سمجھائیں کہ وہ فیصلہ کرنے والوں کے پاس نہ جایا کریں!نہ اُن سے اپنے ذاتی مفادات کی چیزیں Approveکروایا کریں، نہ اُن سے اپنے حق میں فیصلوں پر زور ڈالا کریں۔ اور نہ ہی اُن کے پاﺅں کے ساتھ لپٹا کریں۔ یہی وہ طریقہ ہے، جس سے اُنہوں نے 15سال سندھ میں حکومت بھی کر لی ہے۔اس دوران پیپلزپارٹی بتائے کہ انہوں نے سندھ کا کیا سنوارہ ہے؟ کیا وہاں عام آدمی کی حالت بہتر ہوئی ہے؟ یقین مانیں اس جدید دور میں کسی بھی علاقے پر 15سال کی حکومت کا مطلب ہے کہ اکبر شاہ کے 50سال۔ جب سفر سے لے کر رہنے سہنے تک کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ بلکہ بلاول کو تو اپنے والد زرداری کے بارے میں یہ چیک کرنے کی ضرورت ہے کہ 1987ءمیں جب اُن کی شادی ہوئی تھی، اُس وقت اُن کے اثاثے کیا تھے؟ اور آج کیا ہیں ؟ یہ کن کی بدولت اثاثے قائم ہوئے ہیں؟ بہرکیف ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے عوام کے لیے کیا کیا ہے؟ آج پھر حکومت تبدیل ہور ہی ہے تو اس میں عام آدمی کہاں ہے؟ یہاں تو جب جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو نئی حکومت کے وہی گھسے پٹے فقرے اور دہائی سنائی دیتی ہے کہ پچھلی حکومت والے سارا ملک کھا گئے ہیں، ایک روپیہ قومی خزانے میں نہیں چھوڑا، اگر ہم نہ آتے تو ملک دیوالیہ ہوجانا تھا۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ پچھلی حکمران جماعت نے ریاست گنوا کر سیاست بچائی، جب کہ ہم نے سیاست کو داو¿ پر لگا کر ریاست بچائی۔ بہرحال جب سیاست اور معیشت دونوں ڈانواں ڈول ہوں تو ملک کے غریب کی جھولی میں کیا پڑنا تھا، وہ دن بدن غریب ہوتا گیا۔ جب کہ ہر حکومت نے آئی ایم ایف سمیت دوست ملکوں اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرض لینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اس طرح حکمرانوں نے اپنا دور حکومت خوشحالی میں گزارا جب کہ عوام پہلے کی طرح آسمان کا منہ تکتے رہ گئے۔ عوام کو سچے اور کھرے کی تمیز نہ رہی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام ایک قوم کے بجائے ہجوم بنتے گئے۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ بجلی اور گیس کے نرخ تھوک کے حساب سے بڑھ گئے ہیں۔ مارکیٹ میں سرکاری ریٹ پر روزمرہ اشیا فراہم کرنے میں حکومت بالکل ناکام ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو نہ جانے کس کام کےلیے بنایا گیا ہے۔ ملک کے کسی بھی ادارے میں کوئی کام ریفرنس یا پیسے کے بغیر نہیں ہوتا۔ کرپشن میں لتھڑے ملازمین عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں لیکن حکومت کو اور بہت کام ہیں کہ اس نے ریاست بچا کر سیاست کی قربانی دی ہے۔ حالانکہ صاف بات تو یہ ہے کہ حکومت نے اپنی سیاست بچانے کےلیے جو اقدامات کیے ہیں ان کی مثال ملنا بھی مشکل ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہوتی تو ان کے قائدین اسی طرح کورٹ کچہری کے چکر لگارہے ہوتے جس طرح پچھلی حکومت کے لوگ لگا رہے ہیں۔ ہمارا رونا تو یہ ہے کہ ملک کا عام آدمی کدھر جائے؟ کس سے فریاد کرے؟ کیوں کہ ملک کی جو حالت ہے اس میں اس کا کوئی قصور نہیں۔ تو پھر اشرافیہ اور حکومتی زعما کی نالائقی اور لاپرواہی ہمارے سر کیوں؟ پولیس آپ لوگوں کو کچھ نہیں کہتی اور عدالتیں آپ لوگوں کو ریلیف دیتی ہیں۔ بیرون ملک آپ تعلقات بناتے ہیں، جب کہ عام آدمی کو ریڑھی لگانے پر یا روٹی اٹھانے پر ہی ایسی سزا ملتی ہے کہ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ پروٹوکول کے مزے آپ اڑائیں اور عام آدمی گرمی، سردی اور مٹی دھول برداشت کرے۔ بیرون ممالک سفر آپ کریں اور عام آدمی کی اتنی سکت نہیں کہ ایک ہی شہر میں دوسری جگہ جانے کےلیے ٹیکسی کا کرایہ ادا کرسکے۔ الغرض حکمرانوں کا عوام سے صرف ایک اٹوٹ انگ رشتہ ہے کہ جب اس نے ان سے ووٹ لینا ہوتا ہے تو پھر ان کا سگا بن جاتا ہے اس کے علاوہ عوام کا حکمرانوں کی ترجیحات میں نام و نشان تک نہیں ملتا۔عام آدمی کا یہ واویلا کوئی دو چار دن کی بات نہیں بلکہ جب سے ہمارا ملک قائم ہوا اس کے بعد سے عام آدمی مقتدر حلقوں کی مٹھی سے ریت کی مانند نکل گیا۔ اس کی فریادیں اس کے کسی کام نہ آئیں اور اب اس میں گلہ شکوہ کرنے اور اپنا دکھ درد بیان کرنے کی ہمت بھی ختم ہوتی جارہی ہے۔ خدارا! ان لڑائیوں کو چھوڑیں اور عوام کا سوچیں یہ مت کہیں کہ فلاں غلط کام کس نے کیا ہے؟ اور بدلے میں آپ نے کیا کرنا ہے۔ اور پھر یہ سوچ بھی غلط ہے کہ عمران خان نے نوازشریف کے ساتھ ایسا کیا تبھی وہ عبرت کا نشان بن رہے ہیں، حالانکہ بتایا جائے کہ کیا اُس وقت یعنی 2017ءمیں ن لیگ کی حکومت تھی؟ اگر نہیں یاد میں بتاتا چلوں کہ پنجاب اور مرکز میں ن لیگ کی حکومت جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ پھر عمران خان نے کیسے ڈسکوالیفائی کروا دیا۔ اوررہی بات عمران خان کو گرفتارکرنے اور جیل میں رکھنے کے حوالے سے تو اُس کے سچے اور کھرے ہونے کے لیے یہی گواہی کافی ہے کہ وہاں جیل میں بھی سب قیدیوں نے عمران خان زندہ آباد کے نعرے لگائے، مطلب! گناہ گاروں نے بھی گواہی دے دی کہ یہ شخص نیک ہے۔ اس سے آگے اور کیا رہ جاتا ہے! یہ آپ خود فیصلہ کریں!