انقلابی ”انتخابی اصلاحات“ اور الیکشن کمیشن !

کالم کو شروع کرنے سے پہلے اگر اچھی خبر دے دی جائے تو ہم ”مثبت رپورٹنگ“ کی شرط کو پورا کرنے کے اہل ہو جاتے ہیں، اور اچھی خبر یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے جو سینیٹ انتخابات کے لیے ٹکٹیں تقسیم کیں اُس پر پی ٹی آئی کے ورکرز نے جو کھل کر اپنے خدشات کا اظہار کیا اُس کی مثال نہیں ملتی ۔ میرے خیال میں اسی طرح تمام پارٹیوں کے ورکرز کو سٹینڈ لینا چاہیے، تاکہ پارٹی ورکروں کی حق تلفی نہ ہو۔ اور جماعتوں کا اندرونی سسٹم بھی مضبوط ہو۔ اور ویسے بھی اب وقت آگیا ہے، کہ پارٹیوں میں ون مین شو ختم کیا جائے، سیاسی جماعتوں میں خاندانوں کی اجارہ داری کو بھی ختم کی جائے ،سیاسی ورکرز میں خود اعتمادی لائی جائے تاکہ بہترین قیادت سامنے آسکے۔ ورنہ ہم ڈسکہ الیکشن کی طرح کمزور سسٹم میں ہی پھنسے رہےں گے۔ اب جبکہ الیکشن کمیشن نے اسی مذکورہ الیکشن کے متعلق بولڈ اقدام کرکے بہترین فیصلہ کیا ہے، ورنہ الیکشن کمیشن کی حالت پہلے سے بھی زیادہ پتلی ہوگئی۔ اس کی بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ موجودہ اوورآل نظام نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مفلوج بنا رکھا ہے۔ آپ چند دن بعد ہونے والے سینیٹ الیکشن کی پیشگی تیاریوں کو دیکھ لیں، بہت سے معاملات میں الیکشن کمیشن پراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اور اب ضمنی انتخابات میں تو الیکشن کمیشن کی نااہلی کے حوالے سے دوسری کوئی رائے ہی نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن 70سال گزرنے کے باوجود نہ تو صحیح انداز میں انتخابات کروا سکا ہے، نہ سیاسی پارٹیوں کو ڈسپلن میں لا سکا ہے، نہ انتخابات کروانے کے لیے ٹھوس اقدامات کروا سکا ہے، اور نہ ہی انتخابات میں روپے پیسے کی ریل پیل کو روک سکا ہے۔ حتیٰ کہ پارٹی کارکنوں کے تحفظ پیرا شوٹر سیاستدانوں کی آمد کو بھی روکنے سے مکمل قاصر رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پیسے کے بل بوتے پر لوگ سینیٹ و قومی و صوبائی اسمبلیوں میں آتے رہتے ہیں اور الیکشن کمیشن کو علم ہونے کے باوجود آنکھیں بند کرکے وقت گزاری کا کام کرتا ہے۔ حالانکہ قومی اسمبلی یہ قانون بنائے کہ جو بندہ پانچ سال سے پارٹی کا ممبر ناہو، اُسے سینیٹ کا ٹکٹ نہیں ملنا چاہیے، یا جو شخص 3سال سے پارٹی کا ممبر نہ ہو اُسے قومی اسمبلی کا ٹکٹ نہیں ملنا چاہیے، اور جو شخص کم از کم 2سال سے پارٹی کا ممبر نہ ہو اُسے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ نہیں ملنا چاہیے۔لیکن یہاں جس دن پارٹی جوائن کروائی جاتی ہے اُسی دن ٹکٹ بھی تھما دیا جاتا ہے، اور پرانے پارٹی ورکر منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔اگر الیکشن کمیشن ان پیراشوٹرز کو روکنے کے لیے عملی اقدام کردے تو یقینا آسمان سے گرنے والے سیاستدانوں یعنی پیراشوٹر زکا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے،ایسا کرنے سے الیکشن سے پہلے” جمپنگ“ ختم ہوجائے گی،موسمی پرندوں کی روک تھام ہوجائے گی اور پارٹی ورکروں کا استحصال بھی نہیں ہوگا۔ یقین مانیں یہ شاید الیکشن کمیشن ہی کا قصور ہے کہ ہر الیکشن میں غیر سیاسی افراد کوپارٹیوں کی جانب سے آگے لایا جاتا ہے جس سے مجموعی طور پر نااہل افراد قومی اسمبلیوں میں براجمان ہوجاتے ہیں اور قابل و معاملات کو سمجھنے والے افراد پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اب حالیہ سینیٹ کے انتخابات ہی کی مثال لے لیں۔ اس الیکشن میں ارب پتی صنعت کاروں، سیاسی جماعتوں کے دیرینہ کارکنوں اور قریبی رشتہ داروں کو ٹکٹس دیئے گئے ہیں۔ تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا سے جن گیارہ امیدواروں کو ٹکٹ دیئے ہیں ان میں سے ذیشان خانزادہ، لیاقت ترکئی، فیصل سلیم اور محسن عزیز ارب پتی کاروبای شخصیات ہیں۔لیاقت ترکئی خیبر پختونخوا کے وزیر تعلیم شہرام ترکئی کے والد جبکہ ذیشان خانزادہ اور فیصل سلیم سابق وزیر عاطف خان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ڈاکٹر ہمایوں مہمند اور دوست محمد محسود کو ٹیکنوکریٹ کی سیٹوں کیلئے ٹکٹس جاری کئے گئے ہیں، یہ دونوں شخصیات وزیراعظم عمران خان کی قریبی دوست سمجھی جاتی ہیں۔پھرجمعیت علمائے اسلام کی جانب سے پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے بھائی مولانا عطا الرحمان کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ایک ارب پتی بزنس مین عباس آفریدی کو جنرل نشست کا ٹکٹ جاری کیا ہے۔ان سب میں جماعت اسلامی پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے اپنی پارٹی کے پرانے کارکنوں کو ہی سینیٹ انتخابات کیلئے ٹکٹس جاری کئے ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی الیکشن کمیشن کی تو دنیا بھر میں الیکشن کمیشن کا کام ہی اس پورے سسٹم پر نظر رکھناہوتا ہے، لیکن یہاں دباﺅ کام کرجاتا ہے، جیسے سینیٹر پرویز رشید کے معاملے نے کئی مشکوک راہیں کھول دی ہیں، کہ دو دفعہ کے سینیٹر کو محض اس لیے نااہل قرار دیا گیا کہ وہ پنجاب ہاﺅس کے نادہندہ ہیں۔ میرے خیال میںاس سے بھی الیکشن کمیشن کی خاصی جگ ہنسائی ہوئی ہیں۔ خیر یہ دباﺅ کی ایک چھوٹی سی مثال ہے، کسی کو علم نہیں کہ الیکشن کمیشن کس کے دباﺅ میں ہے، کیوں کہ دنیا بھر میں الیکشن کمیشن بارعب ہوتا ہے، اُس سے حکومت سمیت تمام ادارے خوف کھاتے ہیںکہ کہیں وہ اپنے اختیارات استعمال نہ کر لے لیکن یہاں الیکشن کمیشن حکومت اور طاقتور لوگوں سے ڈر جاتا ہے، اُن کے حق میں فیصلے دے دیتا ہے، تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کو7سال ہوگئے ہیں مگر مجال ہے الیکشن کمیشن کسی نتیجے پر پہنچ سکا ہو۔ الغرض ہمارے ہاں الیکشن کمیشن تو اس قدر نومولود ہے کہ یہ نرسری کا طالب علم لگتا ہے، جسے والدین مکمل حقوق دینے سے ڈرتے ہیں۔ یقین مانیں یہ بھی الیکشن کمیشن ہی کی بدولت ہے کہ یہاں کوئی بھی وزیر مشیر الزام لگنے کی صورت میں کام کرتا رہتا ہے، ورنہ مہذب ملکوں میں تو کسی پر الزام لگ جائے تو وہ اپنی سیٹ سے مستعفی ہوجاتا ہے، اور الزام کے ختم ہونے تک کوئی بھی پبلک عہدہ حاصل نہیں کرتا۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں جس پر سیکسوئل ہراسمنٹ کا کیس بھی چل رہا ہوتو ہم اُسے امبیسیڈر بنا دیتے ہیں، اُسے پرائڈ آف پرفارمنس کا ایواڈ بھی دے دیتے ہیں اور من چاہے تو اُسے وزارت اور مشاورت جیسے عہدے بھی دیے جاتے ہیں، اور اگر ہم عوام اس پر شکوہ کریں تو ہم بہلا دیا جاتا ہے کہ آپ غلط ہیں بقول غلام ہمدانی دیکھ کر ہم کو نہ پردے میں تو چھپ جایا کر ہم تو اپنے ہیں میاں غیر سے شرمایا کر بہرکیف اگر الیکشن کمیشن مضبوط نہیں ہوگا تو ہر سیٹ پر 60، 65کروڑ روپے لگنا عام بات ہو جائے گی، اور منتخب ہونے والا رکن سب سے پہلے اپنے پیسے پورے کرے گا تب وہ منافع کمائے گا۔ جن ملکوں میں ادارے مضبوط ہیں وہاں وزیر اعظم کو بھی گھر جانا پڑ سکتا ہے، مجھے یہاں ایک واقعہ یاد آیا کہ کچھ عرصہ قبل ایک پاکستانی جاپان میں ٹیکسی میں سفر کر رہا تھا تو اُس نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ اگر آپ کے وزیر اعظم اور پولیس کے سربراہ کا آپس میں اختلاف ہوجائے تو کس کو گھر جانا پڑے گا۔ تو ڈرائیور نے برملا جواب دیا کہ وزیراعظم کو۔ کیوں کہ پولیس افسر ایک ادارے کا سربراہ ہے، اور ادارہ بھی ڈسپلن فورس کا ہے، جس کا اپنا نظام اتنا پختہ ہے کہ کوئی اُس پر انگلی نہیں اُٹھاسکتا۔ دوسری جانب حکومت اور سپریم کورٹ کو بھی الیکشن کمیشن کے مسائل کو دیکھنا ہوگا،سب کو مل کر الیکشن کمیشن کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے، حقیقت تو یہ ہے کہ الیکشن میں ہر بار مانگے تانگے کا عملہ آتا ہے، کیمپین کے دوران ضابطہ اخلاق کی کھلی خلاف ورزی ہوتی ہے، الیکشن کے دن تصادم ہوتے ہیں اور نتائج کے وقت ایک علیحدہ جھگڑا منتظر ہوتا ہے۔تینوں بڑی پارٹیوں پی پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کو حکومت مل چکی ہیں۔ کسی ایک نے بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ الیکشن کے عملی انتظام کو شفاف اور منظم بنایا جائے۔ وجہ اس کی صاف ظاہر ہے اور وہ ہے اقتدار میں آنے کے بعد یادداشت کا متاثر ہونا۔ یہ یادداشت اس لیے متاثرہوتی ہے کہ اقتدار میں جب تمام ریاستی وسائل پاس ہوں تو بیچارہ الیکشن کمیشن جس کی اپوزیشن کے دور میں بہت اہمیت محسوس ہوتی ہے یاد ہی نہیں آتا۔خیر الیکشن کے انعقاد کے علاوہ نتائج پر مقدمہ بازی ایک اور طویل سلسلہ ہوتا ہے۔ الیکشن ٹریبیونلز میں انتخابی عذرداریوں کے طے ہونے میں برسوں بیت جاتے ہیں اور اکثر تو نیا الیکشن آجاتا ہے اور درخواستوں کا فیصلہ نہیں ہوتا۔پھر ووٹر لسٹوں اور حلقہ بندیوں کا کام سارا سال جاری رہتا ہے۔ نادرا اور مردم شماری کا اس میں واضح کردار ہے۔ الیکشن والے روز اور انتخابی مہم میں زیادہ کام پولیس اور ضلعی انتظامیہ کا ہے۔ انڈیا میں تمام مقامی انتظامیہ الیکشن کمیشن کے تابع چلے جاتے ہیں۔وہاں تو نگران کابینہ کا بھی تصور نہیں اور الیکشن انتظامیہ اور الیکشن کمیشن کرواتے ہیں۔ اس کے باوجود وہاں تواتر سے الیکشن ہوتے ہیں اور سب نتائج تسلیم کرتے ہیں۔ قصہ مختصر انتخابات جمہوریت کی اساس ہوتے ہیں اور جمہوریت ریاست کی بنیاد ہے۔ الیکشن کمیشن وہ آئینی ادراہ ہے جس کے ذمے الیکشن کا انتظام ہے، اور کچھ نہ سہی پچھلی کئی دہائیوں سے باقاعدہ عام الیکشن بھی ہورہے ہیں۔لہٰذاالیکشن کمیشن کو انقلابی تبدیلیوں کے لیے بولڈ اقدامات کرنا ہوں گے ، اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں، حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور قومی اداروں کو آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ملک کی باگ ڈور قابل افراد کے ہاتھوں میں آئے اور کوئی بھی سسٹم کو Violateکرکے آگے نہ جائے ورنہ ہم مزید 50سال پیچھے چلے جائیں گے!