چیف صاحب! گلابی نمک سے ہی کچھ کما لیں!

اچھی خبر یہ ہے کہ ”چیف صاحب“ نے اداروں پر سختی کرکے بڑھتے ڈالر کو روک دیا اور اب روزانہ کی بنیاد پر ایک ڈیڑھ روپے ڈالر سستا اور روپے کی قدر میں اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن اس میں بری خبر یہ ہے کہ شاید یہ عارضی ہے، کیوں کہ چیف صاحب کا دھیان جیسے ہی ہٹے گا فوری طور پر مافیا واپس آئے گا اور ڈالر کو پھر پر لگ جائیں گے۔ اور چونکہ یہ سختی مستقل نہیں ہوتی، اس لیے جہاں ”آپریشن“ کیے جاتے ہیں، وہاں سے وقتی طور پر تو فائدہ ہو جاتا ہے مگر دیرپا فائدہ اُس وقت ہی ہوتا ہے جب مضبوط سسٹم بنا دیا جائے۔ اور مضبوط سسٹم بنانے کے لیے کسی بھی ملک کو تھنک ٹینک کی ضرورت ہوتی ہے، جو ملک میں دیرپا پالیسیاں بناکر دے اور ادارے، سیاستدان اور دیگر سٹیک ہولڈرز اُس پر عمل کریں۔ خیر راقم نے اس حوالے سے بہت سے کالم لکھیں ہیں،اور ہمیشہ لکھا ہے کہ پاکستان کی معدنیات کو استعمال کرکے ہم ملک کی حالت بہتر بنا سکتے ہیں۔ جیسے گزشتہ جمعرات کے کالم ”حکمرانو! پاکستان کے پاس بیچنے کیلئے رہ کیا گیا ہے؟“ میں میں نے لکھا کہ پاکستان اپنی ایکسپورٹ بڑھا کر معیشت کو بہتر بنا سکتا ہے، لیکن اُس کے لیے ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے پاس بیچنے کیلئے ہے کیا؟ نہ تو زراعت ہے اور نہ ہی کوئی ایسی پراڈکٹ جو ہم بنا کر دنیا کو بیچ سکیں۔ زراعت تو ویسے ہی ہماری اپنی پوری نہیں ہورہی تو کیسے ممکن ہے کہ ہم دنیا کو کچھ بیچ سکیں.... یہ باتیں میں نے لکھ تو دیں مگر میں خیرخواہوں اور دوستوں نے میری خوب ”تواضع“ کی ۔ اکا دکا نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ آپ بھی انہی نام نہاد ”غداروں“ میں شامل ہو رہے ہیں جن سے پاکستان کو ہمیشہ خطرہ رہا ہے! میں نے دوستوں سے دست بستہ گزارش کی کہ بھائی جہاں غلط ہوں تو بتاﺅ۔ میں تصیح کرلیتا ہوں! اس پر کچھ نے کہا کہ رکوڈک ، کچھ نے گوادر کا ذکر کیا۔۔۔ لیکن سب سے اچھی اور دلائل سے بھرپور گفتگو امریکا میں موجود دوست جاوید گل سے ہوئی۔ جو پنک سالٹ (پاکستانی گلابی نمک) کے کاروبار سے جڑے ہیں۔ وہ پاکستانی نمک کو امریکا میں امپورٹ کرتے ہیں، اور اُس میں ویلیوایڈیشن کرکے آن لائن بیچتے ہیں اور اس سے ہزاروں ڈالر کماتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستانی نمک کی دنیا بھر میں مانگ ہے، کہیں کسی بھی ملک میں اس نمک کو درآمد کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، اُس کی پروڈکشن میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ FDAفوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نیویارک سے یہ پراڈکٹ رجسٹرڈ ہے، انہوں نے اس سالٹ کو کلیئر قرار دیا ہوا ہے،وہ اسے سو فیصد خالص سمجھتے ہیں، تبھی آج تک کہیں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوا۔ لیکن وہ بتاتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ وہی ہے، جو روایتی حکمرانوں، سیاستدانوں، اور بیوروکریسی کا رہا ہے، کہ جس کام میں اُنہیں ذاتی فائدہ نظر نہ آئے وہ کبھی نہیں کریں گے۔ آپ نمک ہی کو لے لیں، اس کی پروموشن کے لیے کبھی ہماری بیوروکریسی نے کچھ نہیں کیا۔ اور نہ ہی اس پر کام کیا گیا، حالانکہ ہر ترقی یافتہ ملک میں اس کی اچھی خاصی ڈیمانڈ ہے، بلکہ کئی ممالک میں تو اس گلابی نمک کو اتنا پسند کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی منہ مانگی رقم دینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکا میں تو اس پر ڈیوٹی میں بھی اچھی خاصی چھوٹ دی گئی ہے، لیکن ہماری بیوروکریسی نے گزشتہ دو سالوں سے اسے Renewنہیں کروایا جس کی وجہ سے امریکا میں امپورٹرز کو ڈیوٹیز دینا پڑ رہی ہیں۔ یہ ڈیوٹی 5ہزار ڈالر فی کنٹینر تک دینا پڑتی ہے۔ جاوید صاحب مزید بتاتے ہیں کہ میں اس وقت امریکا میں گھر بیٹھا پاکستانی مصنوعات خاص طور پر نمک سے بنی چیزیں بیچ رہا ہوں، اور اسی سے اپنا روز گار بھی چلا رہا ہوں۔ وہ بتاتے ہیں، کہ لوگ اسے بہت شوق سے خریدتے ہیں، اس نمک میں 81منرلز ہیں، جو انسانی جسم کے لیے بے انتہا ضروری ہے، اس میں سوڈیم کی مقدار کم ہونے یعنی 16فیصد ہونے کی وجہ سے دنیا میں یہ بے حد پسند بھی کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر زبھی اس نمک کو خاص طور پر Recomendکرتے ہیں۔ خیر! جاوید صاحب سے کافی لمبی گپ شپ ہوئی اُس میں وہ پاکستان کے حالات بارے ہر پاکستانی کی طرح فکر مند بھی نظر آئے اور مفید مشورے سے نوازتے رہے۔ لیکن وہ کیا جانے کہ ہم عام پاکستانی صحافی ہیں، جن کا قلم بھی ہر گزرتے دن پابند سلاسل ہوتا جا رہا ہے، شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ کوئی نمازی آئے نا آئے۔ ہمارا کام صرف اذان دینا ہوتا ہے۔ بہرحال چیف صاحب سے گزارش ہے کہ وہ پاکستانی معدنیات پر کام کریں، ہمارے ہاں کرومائیٹ، تانبا، سونا، لوہا، لیڈزنک، کوئلہ، جپسم ، ماربل اور اس جیسی بے شمار معدنیات پائی جاتی ہیں، اور اگر صرف نمک ہی کی بات کریں تو پاکستان کا زیادہ نمک کھیوڑہ سالٹ مائن ضلع جہلم میں پایا جاتا ہے، یہ جگہ اسلام آباد سے 140 کلومیٹر جبکہ لاہور سے تقریباً 250 کلومیٹر فاصلے پر ہے۔ یہ دنیا میں نمک کا اہم ترین ذخیرہ ہے۔ کوہستان نمک کا سلسلہ دریائے جہلم کے قریب بیگنوالہ سے شروع ہوکر دریائے سندھ کالا باغ میں ختم ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی 300 کلومیٹر، چوڑائی 4 تا 30 کلومیٹر، اور اونچائی 2200 فٹ تا 4990 فٹ ہے۔1872 میں ایک معروف انگریز مائننگ انجینئر ڈاکٹر وارتھ نے نمک کے ذخائر تک براہ راست رسائی کےلیے بڑی کان کی کھدائی کروائی جو تاحال فعال ہے۔ اس وقت کھیوڑہ کی کانوں میں 17 منزلوں سے نمک نکالا جارہا ہے۔ سائنسی اصولوں کے مطابق کان سے 50 فیصد نمک نکال کر 50 فیصد بطور ستون چھوڑ دیا جاتا ہے، جو کان کی مضبوطی کو قائم رکھتا ہے۔کھیوڑہ کان کا نمک دنیا میں خوردنی نمک کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ تخمینے کے مطابق یہاں نمک کے ذخائر 8 کروڑ ٹن سے لے کر 60 کروڑ ٹن تک ہوسکتے ہیں۔ کان کے چیف مائننگ آفیسر کے مطابق برطانوی دور سے اب تک کان میں کچھ تبدیل نہیں ہوا اور نہ ہی ہونے کے امکانات ہیں۔کھیوڑہ کی کان میں بیس بستروں والا ایک ہسپتال بنانے کا منصوبہ بھی ہے، جہاں دمے کے مریض آسکیں گے اور نمک زدہ ہوا میں سانس لے سکیں گے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ ہوا دمے کے مریض کےلیے انتہائی صحت بخش ہے۔ آپ اس نمک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ بھارت تو اس کا گرویدہ ہے ہی چین میں اس سے بھی زیادہ اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، یعنی 2021 میں چین کو پاکستانی ہمالیائی گلابی نمک کی برآمد 4,968,223 ڈالر اور 2022 میں 5,747,492 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔رواں سال کی پہلی ششماہی میں چین کو پاکستانی ہمالیائی گلابی نمک کی برآمدات 2,694,493 ڈالر تک پہنچ گئی۔چینی اس پراڈکٹ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ہوا کو صاف کرنے کے عمل سے گزرتی ہے، بیکٹیریا کو مارتا ہے اور دھول، الرجین، دھواں، بدبو اور مولڈ سپورز کو دور کرتا ہے۔اس کے علاوہ معروف امریکی کمپنی پاکستان سے گلابی ہمالیائی نمک کی کیوریٹنگ، پروسیسنگ، تقسیم اور درآمد کے لیے تقریباً 20 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے۔ بہرکیف یہ تمام باتیں کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ معدنی وسائل سے زیادہ سے زیادہ معاشی فائدہ اٹھانے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی حاصل کی جائے، مارکیٹنگ کے طریقوں کو اپ ڈیٹ کیا جانا چاہیے اور وفاقی صوبائی اور مقامی سطحوں پر کام کرنے والے محکموں اور کمپنیوں کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے ایک ریگولیٹری فریم ورک ضروری ہے۔قومی معدنی پالیسی اور صوبائی کان کنی کی پالیسیوں/قوانین کے درمیان روابط قائم کرناکاروبار کو فعال کرنے کے لیے کافی بنیادی ڈھانچہ یعنی کان تک رسائی والی سڑکیں، سڑکوں کے نیٹ ورک کو جوڑناچاہیے۔کھدائی اور پروسیسنگ کے ذیلی شعبوں میں اختیار کی گئی ٹیکنالوجی پرانی ہے اور اس سے قاصر ہے۔عام طور پر گھریلو مارکیٹ اور برآمد کے لیے معیاری اور یکساں معیار کی مصنوعات تیار کریں۔ پاکستان میں کان کا ضیاع بین الاقوامی ضیاع کے مقابلے میں 75 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ہیومن ریسورس کی پیداواری صلاحیت کم ہے جس میں اہل اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی تعداد کم ہے۔کان کنی اور پروسیسنگ کی سطح میں معیاری تربیت فراہم کرنے والا کوئی تربیتی ادارہ نہیں ہے۔پاکستان کے معدنی وسائل کی حقیقی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ان تمام کوتاہیوں پر قابو پانا چاہیے۔ لہٰذاآپ سے التماس ہے کہ ہمارے پاس نمک ہی اگلے ساڑھے تین سے سال تک ختم نہیں ہوگا، تو ایسے میں مشکل حالات میں ان چیزوں کو استعمال میں لائیں اور ملک کو فی الحال سنبھالا دیں اور خیرخیریت سے فری اینڈ فیئر الیکشن کروا دیں تو یہ قوم آپ کو ہمیشہ یاد رکھے گی! ایک محب وطن پاکستانی کے طور پر ناکہ اُس چیف کے طور پر کہ جودنیا بھرمیں جزیرے خرید کر شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں اور عام پاکستانی بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں!