لیول پلیئنگ فیلڈ سب کیلئے ....ورنہ 1971ءتو یاد ہوگا!

آج کل روزانہ چیئرمین پیپلزپارٹی کا بیان آتا ہے کہ فوری الیکشن کروائے جائیں.... ہمیں الیکشن کی تاریخ دی جائے.... الیکشن کروانا ملکی مفاد میں ہے.... زرداری صاحب نے ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں ورنہ.... پھر کہا جاتا ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ کا مسئلہ ن لیگ سے ہے.... یا یہ کہا جاتا ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ ہر ایک کیلئے ایک جیسی نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ سمجھ سے باہر ہے کہ بلاول کو ایک دم سے الیکشن کی یاد کیوں ستانے لگی ہے؟ کیا اُسے علم ہو چکا ہے کہ اس وقت ن لیگ کے ساتھ ڈیلنگ کنفرم ہو چکی ہے، یا شاید یہ کنفرم ہو چکا ہے کہ حالات ن لیگ کے لیے ساز گار بنائے جا رہے ہیں جبکہ اُن کا وزیر اعظم بننے کا خواب ادھورا رہنے والاہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ واقعی نہ صرف پیپلزپارٹی کے لیے تشویشناک ہے بلکہ ملک کے لیے بھی تباہ کن ہے۔ خیر سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ سیاسی لیول پلیئنگ فیلڈکیا ہوتی ہے، اس کے آسان معنی یہ ہیںتمام سیاسی جماعتوں کو ایک جیسا ماحول فراہم کیا جائے، کسی سیاسی جماعت کے لیے Favourtismکو فروغ نہ دیا جائے اور کسی بھی سیاسی جماعت کو اوپر لانے کے لیے لابنگ نہ کی جائے۔ اس کے علاوہ یہی اصول ریاست کے شہریوں پر بھی لاگو ہوتا ہے کہ ریاست رنگ، نسل، عقیدہ، دولت یا کسی بھی بنا پرشہریوں کے درمیان امتیاز نہ برتے، کھیل کا ایک اصول ہو جس کا اطلاق سب فریقین پر یکساں کیا جائے یعنی وہ ساحر آنکھیں سب شہریوں پر اٹھیں، وہ پیشانی، وہ رخسار، وہ ہونٹ سب کو سامانِ نظارہ فراہم کریں۔لیکن افسوس پاکستان میں روزِ اول سے لیول پلیئنگ فیلڈ کا کوئی خاص رواج نہیں رہا،ہر جماعت، ہر شخصیت کسی نہ کسی کی منظور نظر رہی ہے، یہاں نہ تو تمام مسالک کو ایک جیسا سمجھا گیا، نہ تمام صوبوں کو ایک جیسا ماحول فراہم کیا گیا اور نہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں ایک جیسی لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی گئی۔ تبھی وطن عزیز 1971ءمیں دو لخت ہوگیا۔ اور حد تو یہ ہے کہ آج بھی ہم باز نہیں آرہے اور مسلسل کسی ایک جماعت یا ایک شخصیت کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ جس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ ملک میں بے چینی کی فضاءپیدا ہو رہی ہے، ملک میں مخلص قیادت اور مخلص سیاسی کارکنان میں نفرت کا عنصر بڑھ رہا ہے، اور پھر ایسا نہیں ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، بلکہ یہ صرف ایک مخصوص طبقے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے۔ بہرحال آج بھی ویسا ہی ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، حالانکہ ہمیں خبر دی گئی کہ ادارہ غیر سیاسی ہو گیا ہے ،گویا ساقی نے توبہ کر لی ہے اور غیر سیاسی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی جائے گی، نہ کوئی لاڈلا رہے گا، نہ کوئی لاڈلا نواز۔سادہ لفظوں میں نواز شریف پر عائد تمام پابندیاں ختم ہو جائیں گی، وہ سیاست میں براہ راست حصہ لیں گے، اپنی پارٹی کی صدارت کریں گے، الیکشن لڑیں گے اور اگر ان کی جماعت انتخاب جیت گئی تو چوتھی دفعہ وزیراعظم پاکستان کا حلف اٹھائیں گے۔ جبکہ دوسری جانب تحریک انصاف کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ یہ ہوگی کہ چیئرمین تحریک انصاف پر سے تمام سیاسی و غیرسیاسی مقدمات ختم کر دیے جائیں گے، 9مئی کے واقعات کو از سر نو بھلا دیا جائے گا، اور تمام گرفتار قیادت اور کارکنوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ اور دوبارہ سیاست میں حصہ لینے کے لیے اُنہیں صاف راستے مہیا کیے جائیں گے۔ جبکہ پیپلزپارٹی کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ یہ ہوگی کہ اُنہیں یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اُنہوں نے 15سال تک سندھ کے لیے کیا کیا ہے؟ اور نہ ہی یہ پوچھا جائے گا کہ اس دوران اُنہوں نے کتنی کرپشن کی۔ جبکہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے۔ جبکہ نواز شریف کے معاملے میں ایک حلقہ فکرکا خیال ہے کہ حقیقی لیول پلیئنگ فیلڈ کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ سب ’حرکاتِ نازیبا‘جو نواز شریف کے ساتھ کی گئیں وہ ان کے سیاسی حریف کے ساتھ بھی دہرائی جائیں یعنی اگلے الیکشن کے موقع پر عمران خان جو بدستور اٹک جیل میں ہیں اور ان کی بیگم یا بہن جیل میں ہوں، بالکل ویسے ہی جیسے نواز شریف اور ان کی بیٹی پچھلے انتخابات سے پہلے پسِ دیوارِ زنداں دھکیل دیے گئے تھے، جس طرح سارا میڈیا ساتھ ملا لیا گیا تھا، اسی طرح اب توشہ خانہ، فارن فنڈنگ، لندن سے آئے 190ملین پاﺅنڈ، عارف نقوی والے 250 ارب روپے اور درجن بھر دوسرے اسکینڈلز کا ڈھندورا پیٹا جائے، عمران خان کی معاشی اور اخلاقی کرپشن کی داستانیں دن رات دہرائی جائیں، کبھی کوئی آڈیو، وڈیو کبھی کوئی ’والیم 10‘ ، وغیرہ وغیرہ، پھر عمران خان کوپارٹی صدارت سے ہٹایا جائے، پھر ان کی پارٹی توڑی جائے، پی ٹی آئی کے مزید سرکردہ راہنما گرفتار کئے جائیں، بلّے کے نشان پر الیکشن لڑناعذاب بنا دیا جائے اور اگر یہ سب کچھ کافی نہ ہو تو پھر الیکشن والے دن اپنے پیارے آر ٹی ایس کو حکم دیا جائے ’چل بیٹھ جا‘، یہ ہو گا صحیح معنی میں لیول پلیئنگ فیلڈ۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آئین سے چھیڑ چھاڑ کر کے پنجاب میں نواز شریف مخالف حکومت قائم کروائی جائے جو نواز شریف کو واپسی پر گرفتار کرنے کی دھمکی دے رہی ہو اور ساتھ ساتھ غیر سیاسی ہونے اور لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کے دعوے بھی کیے جائیں۔ خیر یہ تو تمہید تھی کہ آپ کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے بارے میں سمجھا سکوں مگر یہاں یہ بتاتا چلوں کہ اگر بلاول کے خدشات درست ہیں اور واقعی ن لیگ کے لیے سارے راستے ہموار کیے جارہے ہیںتو یہ بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یقین مانیں! یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جن ممالک نے اپنے شہریوں کو معاشی، معاشرتی اور سیاسی سطح پر لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی وہ ریاستیں اور ان میں بسنے والی اقوام آج ترقی یافتہ کہلاتی ہیں۔ میرے خیال میں جمہوریت کی بدلیاں مخصوص چھتوں پر نہیں برستیں۔ جمہوریت سیاسی شراکت داروں میں تفریق کی قائل نہیں۔ چونکہ قومی سطح پر ہم اس نتیجے تک پہنچ چکے ہیں کہ جمہوری طرزِ حکومت ہی ہمارے لیے بہترین ثابت ہو سکتا ہے ؛چنانچہ یہ ہماری قومی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اس معاملے میں خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ایسا ماحول تشکیل دیں جس میں جمہوری اقدار کو پروان چڑھنے کا موقع مل سکے۔ خود سیاسی جماعتوں کو اس سلسلے میں بہت کچھ سیکھنا اور اپنی اصلاح کرنی ہے۔ انہیں اس اعتماد کی سخت ضرورت ہے کہ سیاست میں مد مقابل جماعتوں کیساتھ اینٹ گھڑے کا بیر روا نہیں۔ سیاسی اختلاف درحقیقت حل کی تجاویز اور نظریے کے اختلاف پر مبنی ہوتے ہیں‘ ورنہ اصولی طور پر سبھی جماعتوں کا ر±خ ایک ہی منزل کی جانب ہوتا ہے۔ اگر اس منزل تک پہنچنے کے راستوں پر اختلاف پیدا ہو تو یہ شخصی عناد اور ذاتی دشمنی کی حدوں کو نہیں پہنچنا چاہیے۔ مگر ہمارے ہاں ایسا ہے۔ سیاسی حلقوں میں بلاشرکت غیرے کھیلنے کی خواہش پر قابو نہیں پایا جاسکا‘ مگر یہ رویہ جمہوری سوچ کا آئینہ دار نہیں۔میں امریکا یاترا کے لیے جاتا ہوں تو وہاں کبھی کبھار الیکشن کے دنوں میں بھی جانا ہوتا ہے تو اکثر دو مخالف اُمیدواروں کو الیکشن کے بعد کافی شاپ پر دیکھتا ہوں، دونوں فریقین ہی ملک یا عوام کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں۔ کینیڈا و برطانیہ جیسے ملکوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ لیکن یہاں ہم ذاتی رنجشیں پال لیتے ہیں جسکا نقصان ملک تو اُٹھاتا ہی ہے، جبکہ خاندانی دشمنیاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ یہی لیول پلیئنگ فیلڈ میں پہلی بڑی رکاوٹ ہے، لہٰذا سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال کے ان پہلوﺅں کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔ ملکِ عزیز پون صدی مکمل کر چکا ہے۔ اتنا وقت کسی قوم کو اپنی سمت متعین کرنے کیلئے کم نہیں ہوتا، مگر ہماری قومی پیش رفت کو دیکھا جائے‘ کہ ہم ابھی تک انہی مسائل سے نمٹ رہے ہیں جن کا سامنا قیامِ پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی کرنا پڑگیا تھا۔ اس دوران ہمارے اردگرد کی دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ یہ کسی جادو کی چھڑی سے نہیں ہوا، سیاسی رہنماﺅں کی دیانت‘ قومی فکر اور تدبر ہی سے ہوا ہے۔ اگر ہمارے رہنماﺅں نے اپنا رنگ ڈھنگ نہ بدلا تو قومی ترقی کی سست روی اور خطے کے دیگر ممالک کی اٹھا ن اور عالمی سطح پر ان کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہم پاکستانیوں کیلئے احساسِ کمتری کا روگ بن جائے گا۔ پاکستان کے سیاسی رہنماﺅں کو خوش ہونا چاہیے کہ انہیں ایک ایسی قوم ملی ہے جس میں رہنماﺅں کے حق میں بہت لچک پائی جاتی ہے ‘ مگر اس کا بدل اس قوم کو مسلسل مایوس کرنا نہیں ہو سکتا۔اعتماد کا تقاضا تو یہ ہے کہ رہنما زیادہ محتاط اور قومی ذمہ داری کے احساس کا مظاہرہ کریں۔ جہاں تک لیول پلیئنگ فیلڈ کے نہ ہونے کی شکایت کی بات ہے تو سیاسی جماعتوں نے یہ حالات خود ہی پیدا کیے ہیں اور اب خود ہی ان کو سنوار سکتی ہیں۔ جب سیاسی قائدین میںا یک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کا وصف پیدا ہو گا تو سمجھئے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ پیدا ہو چکا۔ یہ رعایت کسی سے طلب کرنے کے بجائے سیاسی قیادت کو خود یہ فضا پیدا کرنے کیلئے غور و فکر اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کسی اچھی چیز کی اہمیت کا بہترین اندازہ اس کی کمیابی یا نایابی کے حالات میں ہوتا ہے ؛چنانچہ سیاسی بقائے باہمی کی اہمیت کو سمجھنے اور سیاسی لیول پلیئنگ فیلڈ تیار کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ہو سکتا۔ اور رہی بات ن لیگ کے لیے تمام راستے صاف کرنے کی تو مقتدرہ قوتیں شاید یہ بھی جانتی ہوں کہ جس شخص کو اقتدار سونپے جانے کی خبریں آرہی ہیں وہ پہلے بھی تین بار وزیر اعظم بن چکا ہے اور ملک قرضے میں بلکہ پنجابی میں کہتے ہیں کہ ”گوڈے گوڈے“ قرضے میں ڈوب چکا ہے۔ اور اس 16ماہی حکومت کی کارکردگی ہی کو دیکھ لیں کس طرح سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے، لہٰذاوقت کا تقاضا یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک جیسی لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کی جائے۔ ورنہ ہم سب کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور ملک مزید خرابی کی طرف چلا جائے گا!