میرے وطن کے سچے جھوٹے سروے !

جس ملک میں آپ کو کیمیکل ملا دودھ، اینٹیوں کے پاﺅڈر کی ملاوٹ والی مرچیں، پرانی روٹیوں کی ملاوٹ والا آٹا، جعلی ادویات، جعلی اسٹنٹ، جعلی ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف، گھوسٹ سکول و گھوسٹ اساتذہ، ناقص میٹریل سے بنی سرکاری عمارتیں، کیمیکل سے اگایا گیا اناج اور جعلی انڈے تک دستیاب ہوں وہاں کوئی کیسے سوچ سکتا ہے، کہ ہمارے ملک میں کیا جانے والا ”سروے“ بھی خالص ہو؟ یہاں تو حالات یہ ہیں کہ جیسا چاہیں من پسند سروے خود بنوالیں۔ کوئی آپ کو نہیں پوچھے گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے چند سال قبل ایک معروف برینڈ کی چپس کے بارے میں خود ساختہ مہم چلائی گئی کہ اس میں سور کے گوشت کی چربی ڈالی گئی ہے۔ پھر جب بچے بچے کی زبان پر اس برینڈ کا نام چڑھ گیا تو مذکورہ کمپنی ایک ”جامعہ“ سے فتویٰ لے آئی اور تمام اخبارات میں اُسے شائع کروا دیا کہ یہ چپس سو فیصد حلال ہے۔پھر اس کمپنی کی پراڈکٹ میں 1000گنا اضافہ ہوگیا اور یہ کمپنی آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ پاکستان میں بزنس کر رہی ہے۔ اب بندہ پوچھے کہ مذکورہ جامعہ میں کونسی لیب موجود تھیں، کہ اُنہوں نے اس برانڈ کو کلیئر کر دیا۔ اور کیا کبھی کسی نے تحقیق کی کہ اس برانڈ کی Negativeمارکیٹنگ کو کہاں سے لانچ کیا گیا تھا؟ یقینا ہمارے ہاں تحقیق کا چونکہ رواج ہی نہیں ہے۔ اس لیے بات ”مٹی پاﺅ“ تک پہنچ گئی ہوگی۔ ہمارے ہاں ہونے والے سروے بھی بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے موجودہ ”سروے“ کو ڈسکس کر لیں، جو گیلپ نامی کمپنی کی طرف سے کروایا گیا، یہ آرگنائزیشن سوئٹزر لینڈ سے تعلق رکھتی ہے، جو دنیا بھر میں حکومتوں کی کارکردگی کے حوالے سے سروے کرواتی ہے، لیکن پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں یہ سروے نسبتاََ قباحتوں کا شکار ہیں۔ جنہیں ہم Politiciesسروے بھی کہہ سکتے ہیں۔ مثلاََ حالیہ سروے کی اگر بات کریں تو اس کے مطابق عوام کو میڈیا اور عدالتوں پر 56 فیصد تک بھروسہ ہے تاہم عمومی طور پر سیاستدانوں پر لوگوں کے بھروسے کی سطح صرف 39 فیصد، پارلیمنٹ پر 47 فیصد، الیکشن کمیشن پر 42 فیصد، پولیس پر 54 فیصد تک بھروسہ ہے۔ بھروسے کے لحاظ سے میڈیا اور عدالتوں کی ریٹنگ اور اسکور بہتر ہے اور یہ 56 فیصد تک ہے۔سروے میں یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ اداروں کے کام کرنے کے انداز سے کس حد تک مطمئن یا غیر مطمئن ہیں۔ فوج کے معاملے میں اطمینان کی سطح 88 فیصدرہی۔ صوبائی سطح پر دیکھیں تو پنجاب میں فوج کی مقبولیت کی سطح 90 فیصد، سندھ میں 88 فیصد، کے پی 91 فیصد جبکہ بلوچستان میں 66 فیصد ہے۔ پنجاب میں سیاستدانوں کی مقبولیت کی سطح 43 فیصد، سندھ میں 34 فیصد، کے پی میں 29 فیصد جبکہ بلوچستان میں 34 فیصد ہے۔ سیاستدانوں میں دیکھیں تو عمران خان کی مقبولیت 60 فیصد ہے، ان کے بعد سعد رضوی اور پرویز الٰہی کا نام آتا ہے اور دونوں کی مقبولیت 38 فیصد ہے، شاہ محمود قریشی 37 فیصد، نواز شریف 36 فیصد، شہباز شریف 35 فیصد، مریم نواز 30 فیصد، شاہد خاقان عباسی اور دیگر 28 فیصد۔ پنجاب میں دیکھیں تو عمران خان کی مثبت مقبولیت کی سطح 58 فیصد، سعد رضوی 49 فیصد، پرویز الٰہی 49 فیصد، شاہ محمود قریشی 43 فیصد شہباز شریف 43 فیصد، نواز شریف 41 فیصد، شاہد خاقان عباسی اور دیگر33 فیصد تک ہیں۔ مقبولیت کی اس فہرست میں بلاول بھٹو کا نام شامل ہی نہیں۔ سروے کے مطابق، مثبت لحاظ سے سب سے زیادہ مقبولیت کی سطح پی ٹی آئی حکومت کو اپنی معاشی کارکردگی کی وجہ سے ملی اور یہ 64 فیصد تک رہی۔ سیاسی جماعتوں کے حوالے سے دیکھیں تو سروے میں شامل لوگوں کی 38 فیصد تعداد پی ٹی آئی، 16 فیصد نون لیگ، 10 فیصد پیپلز پارٹی، 15 فیصد ٹی ایل پی، 9 فیصد جماعت اسلامی، 6 فیصد ایم کیو ایم پاکستان کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ اب ذرہ اس دلچسپ سروے کے حوالے سے کوئی بھی ذی شعور عام پاکستانی یہ بتائے کہ اس سروے کے اعداد و شمار کو کون تسلیم کرسکتا ہے؟ اگر آپ ن لیگی ہیں تو یہ ضرور سوچیں گے کہ آخر ن لیگ کے شیر اور تین بار وزیر اعظم رہنے والے وزیر اعظم اور 100سیٹوں والی جماعت کے سربراہ نواز شریف سعد رضوی سے کیسے پیچھے ہوگئے؟ اور پھر اگر آپ تحریک انصاف کے کارکن ہیں تو یہ ضرور سوچیں گے کہ چند ماہ قبل جس عمران خان کی مقبولیت 90فیصد تک جا پہنچی تھی، تو ان تین چا مہینوں میں ایسا کیا ہوا کہ وہ 60فیصد پر آگئے۔ اورمذکورہ سروے کے مطابق جس تناسب سے اُن کی مقبولیت گر رہی ہے اُس حساب سے تو عمران خان اگلے چند ماہ میں سعد رضوی صاحب، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن سے بھی نیچے آسکتے ہیں۔بقول شاعر آپ ہی اپنی اداو¿ں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی اور پھر اگر آپ عام شہری ہیں تو یہ ضرور سوچیں گے ، یا ورطہ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ کیسے 54فیصد عوام عدلیہ اور پولیس سے مطمئن ہو سکتی ہے؟ یقین مانیں کہ اگر آپ پولیس کے اندر سے بھی اس قسم کا سروے کر والیں گے تو بھی 54فیصد پولیس والے اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوں گے۔توکیسے ممکن ہے کہ عام عوام ان سے مطمئن ہو۔ اور ویسے بھی ہم دنیا میں کینیا، سوڈان، عراق، نائیجیریا کے بعد اُن دس ممالک میں شمار ہوتے ہیں جن کی پولیس بدترین اور کرپٹ ہے۔ اور پھر جتنا تناسب ہمارے گیلپ سروے نے پولیس پر اظہار اطمنان کا دکھا دیا ہے، اُتنا تناسب بعض ترقی یافتہ ممالک میں بھی نہیں ہوتا۔ جہاں پولیس سائل کے گھر پہنچ کر اُسے ریلیف پہنچاتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں تو کھلے عام، حوالات سے لے کر کورٹ کچہریوں تک تفتیشی، محرر اور افسران بکتے ہیں۔ جبکہ عدلیہ کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ بہرحال سمجھ سے اس وقت باہر ہے کہ مقتدرہ قوتیں کیا چاہتی ہیں؟ اگر وہ اسی قسم کے سروے سے ملک میں تبدیلی لانا چاہتی ہیں تو اُسے ”صلح“ کر لینی چاہیے۔ بالکل اُسی طرح جیسے جنگ عظیم دوم عروج پر تھی، جاپانی فوجوں نے انگریزوں کا ناطقہ بند کیا ہوا تھافیصلہ ہوا کہ ہندوستان کے راجہ، مہاراجوں، جاگیرداروں سے کہا جائے کہ وہ اپنے جوان جنگ میں بھیجیں۔ ڈپٹی کمشنرز کی ڈیوٹیاں لگ گئیں۔ جھنگ کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے علاقے کے معززین کو بلایا ان معززین میں سب سے نمایاں تعداد وہاں کی ایک بڑی مہر برادری کی تھا۔ اور سب کو وفاداری نبھانے اور جنگ میں حصہ لینے کے لیے کہاگیا۔ اس پر ایک بوڑھا کھڑا ہوگیا اور بولا مائی باپ ! اگر انگریز سرکار کے حالات اتنے پتلے ہو چکے ہیں کہ وہ جاپانی فوج سے لڑنے کے لیے جھنگ کی مہر برادری سے مدد مانگنے پہنچی ہے تو پھر بہتر ہوگاآپ جاپانیوں سے صلح کر لیں!لہٰذاحکومت شفاف الیکشن کی طرف توجہ مرکوز کرے۔ اور ان جھوٹے سچے سروے کے ذریعے عوام کی ذہن سازی نہ کریں اس کا فائدہ ہونے کے بجائے جگ ہنسائی ہوتی ہے جس سے عام عوام کا مورال مزید پستی کی طرف چلا جاتا ہے!