افغان مہاجرین سے چھٹکارہ بہترین عمل، مگر”ڈالرز“آڑے آجائیں گے!

پاکستان کا ”تھنک ٹینک“ قومی ایپکس کمیٹی نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کا حتمی فیصلہ کیا ہے، فیصلے کے مطابق غیر قانونی غیر ملکیوں کو ملک سے نکل جانے کے لیے حتمی ڈیڈ لائن 31اکتوبر دی گئی ہے، جس کے مطابق تمام غیر ملکی متوقع ڈیڈ لائن تک تمام اثاثے فروخت کرنے اور اپنے وطن واپس جانے کے پابند ہوں گے۔پاکستان میں صرف ”پروف آف رجسٹریشن“ کے حامل افغان مہاجرین سکونت کے اہل ہوں گے۔ افغان شہری قانونی طور پر اجراء کردہ ڈیجیٹائزڈ ”ای تزکیرہ“(اقامہ قسم کی دستاویز) پر ہی پاکستان کا سفر کر سکیں گے۔ یہ فیصلہ یقینا خوش آئند ہے مگر ان چالیس سالوں میں جب سے افغان مہاجرین نے پاکستان میں قدم رکھے ہیں تب سے کم و بیش 10دفعہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ افغان مہاجرین کو ملک بدر کیا جائے، لیکن بیچ بچاؤ کروانے یا تو امریکا آ جاتا ہے یا اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ پاکستان کو چند کروڑ ڈالر ملتے ہیں اور معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا ہے۔ جیسے مشرف دور میں بھی فیصلہ ہوا، پھر 2010میں ایسا ہی فیصلہ کیا گیا اور پھر جولائی 2013 میں افغان حکومت اور اقوام متحدہ کے ساتھ پاکستان نے ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے جس کے تحت یہ طے پایا تھا کہ دو سال بعد یعنی 31دسمبر 2015 تک تمام افغان مہاجرین پاکستان سے چلے جائیں گے لیکن یہ معاملہ 10سال گزرنے کے بعد بھی اب تک لٹکا ہوا ہے۔ پھر 2013ہی میں پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے جو بعد میں سپریم کورٹ کے جج بنے، اس معاملے پر واضح طور پر لکھا ہے کہ افغان مہاجرین کی وجہ سے صوبہ خیبر پختونخوا مسائل اور مشکلات کا شکار ہے انہوں نے سکیورٹی ایجنسیوں کی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو غیر ملکی ایجنسیاں اور ملک دشمن عناصر پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔اس حقیقت سے ہم سب ہی آگاہ ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی وجہ سے خیبر پختونخوااور بلوچستان ہی نہیں بلکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور کراچی کی شہری زندگی بھی متاثر ہوئی ہے۔ امن عامہ اورسکیورٹی کے گھمبیر مسائل پیدا ہوئے اور پاکستانی عوام کو کثیر جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔جیسے حالیہ دہشت گردی میں جن دہشت گردوں کی فہرست جاری کی گئی ہے، اُس میں سے بقول نگران وزیر داخلہ 14افغان باشندے شامل ہیں۔ تو ایسے میں، مجھے فکر لاحق ہو گئی ہے کہ اب اگر ایک بار پھر ہمیں ڈالر مل گئے تو کیا ہم اس اقدام سے واپس ہٹ جائیں گے اور پھر اگر امریکا کی بات نہ مانی اور امریکا نے آئی ایم ایف کو ”فرنٹ“ پر لاکھڑا کیا تو پھر ہم کیا کریں گے؟ یقینا ہمیں اس حوالے سے لانگ ٹرم پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی لچک دکھانے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں کوئی بھی بغیر دستاویزات کے رہے اور غیر قانی سرگرمیوں میں بھی ملوث پایا جائے۔ اور رہی بات پاکستان میں آباد غیر قانونی رہنے والے افغانیوں کی تو اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اگر تحریک طالبان پاکستان جس کی تمام قیادت افغانستان میں بیٹھی ہے، وہ پاکستان میں موجود افغان شہریوں سے مخصوص یا دہشت گرد کارروائیوں کے لیے کہے اور وہ انکار کردیں۔ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے کیوں کہ اُن کا جھکاؤ ہمیشہ اپنے ملک کی طرف رہے گا۔ خیر اگر ہم افغان مہاجرین کی پاکستان میں موجودگی اور اس کی تاریخ پر بات کریں تو اس وقت پاکستان میں 40لاکھ سے زائد افغانی مقیم ہیں۔ ان میں 11 لاکھ افغان شہری غیر قانونی طورپر مقیم ہیں۔ 1979ء کے افغان جہاد کے بعد مہاجرین کی ایران اور پاکستان آمد شروع ہوئی۔جذبہ اخوت اور مساوات کے تحت پاکستان نے کھلے دل سے افغان مہاجرین کو چھت فراہم کی۔انہیں رہائش،خوراک اور روزگار کے ساتھ بچوں کیلئے تعلیم وصحت کی سہولتوں کے چراغ بھی روشن کئے۔ پھر 1979ہی نہیں نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان پر جارحیت کی توایک بار پھر افغانستان سے لاکھوں افراد جان بچا کر پناہ کی تلاش میں ہمسایہ ملکوں کی جانب ہجرت کر گئے۔ ہجرت کے ا س عمل میں مہاجرین کی اکثریت نے پاکستان اور ایران کا رخ کیا۔ایران نے تمام پناہ گزینوں کو ایک کیمپ میں رکھ کر ان کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا۔ پاکستان میں آنے والے مہاجرین کی تعداد ایران سے زیادہ تھی۔حکومت پاکستان نے بھی پناہ گزیں کیمپ بنائے لیکن انسانی ہمدردی اور اسلامی بھائی چارے کے جذبے کے تحت افغان مہاجرین کی نقل و حرکت پر ایران کی طرح پابندی نہ لگائی۔یہ جذبہ تحسین کا باعث ہے لیکن لاکھوں کی تعداد میں آنے والے مہاجرین کو جب کسی نظم و ضبط کے تابع نہ رکھا گیا ہو تو بہت سے پیچیدہ مسائل کا پیدا ہونا یقینی تھا۔افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد سے پاکستان تسلسل سے خوفناک دہشت گردی کا شکار رہا۔ سیکورٹی کے گھمبیر مسائل پیدا ہوئے۔ ہزاروں افراد مختلف دہشت گرد کارروائیوں میں شہید ہوئے۔اقوام متحدہ اور بین الاقوامی کمیونٹی نے پاکستان کی مشکلات کا ادراک کرنے کے بجائے پاکستان کو دباؤ کا شکار کیا۔پاکستان پر ایف اے ٹی ایفFATF اور آئی ایم ایف کا دباؤ بڑھانا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ان سب اقدامات کا مقصد پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم ہونے سے روکنا ہے۔ عالمی طاقتیں ہمارے حساس جغرافیائی محل وقوع کواپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ بہرحال قصہ مختصر کہ اقوام متحدہ اور بڑے ممالک نے پاکستان کی طرف سے انسانی ہمدردی اور افغانیوں سے روا رکھے گئے خیر سگالی جذبے کی توصیف کی جس کے باعث آج پاکستان میں افغانیوں کی چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے، لیکن ہم عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں۔ اور ویسے اس حوالے سے کہ جیسا میں نے پہلے ذکر کیا کہ ایران کی تعریف کرنی چاہیے کہ ایران نے افغان مہاجرین کو (سرحد کے قریب) کیمپوں سے آگے بڑھنے نہیں دیا، اس کے برعکس پاکستان میں افغان مہاجرین کیمپوں سے آگے بڑھے بلکہ بڑھتے گئے وہ صرف اسلا م آباد میں نہیں آزاد کشمیر، گلگت وبلتستان سمیت پورے ملک میں پھیل گئے۔ بے شمار افغان شہری کاروباری سرگرمیوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ پھر ”نادرا“ کی کمال مہربانی سے سرکاری دستاویز بھی حاصل کر چکے ہیں حالانکہ قوائد کے مطابق وہ شناختی کارڈ اور دیگر سرکاری کاغذات میں اندراج نہیں کراسکتے۔ پاکستان کا کون سا ایسا شہر ہیں جہاں افغان شہری جائیداد کے مالک نہیں۔ اداروں کی چشم پوشی اور بعض اہلکاروں کی غفلت نے معاملہ اتنا سنگین تر کر دیا ہے کہ اب افغان ٹرانزٹ کے نام پر تجارت کی آڑ میں سمگلنگ کی جانے لگی۔ آٹا، چینی، ڈالرز دیگر جنس اور اشیاء کی قلت اور بحران کا وجہ سمگلنگ کے سوا اور کیا ہے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ افغان مہاجرین کی اکثریت پرامن طور پر پاکستان میں مقیم رہی لیکن بعض اوقات ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے حالات سنگین تر ہوگئے۔ افغان مہاجرین جب پاکستان آئے تو اْن میں سے اکثر مالی طور پر بدحالی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ ناخواندہ بھی تھے۔ کچھ عرصے بعد ان مہاجرین کی اکثریت نے محنت مزدوری اور چھوٹے موٹے کاروبار شروع کرکے اپنے روزمرہ اخراجات کو پورا کرنا شروع کر دیا۔ بعض مہاجرین کے بچوں نے پاکستانی تعلیمی اداروں میں پڑھائی بھی شروع کر دی، تاہم مہاجرین کے کئی گروہوں نے منشیات اور غیر قانونی اسلحے کا کام شروع کردیا۔مہاجر خواتین اور بچوں کی ایک مخصوص تعدا د بھکاری بن گئی۔ افغان مہاجرین اور ان کے بچے کسی نہ کسی طور پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ کئی دہائیوں تک پاکستان میں رہنے کی وجہ سے مہاجرین کی دوسری نسل نے بھی یہاں جنم لیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں افغان پاکستان کی معاشرت میں اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ انہیں پہچاننا دشوار ہوگیا ہے۔ لہٰذاوقت کا تقاضا ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے اور یو این ایچ سی آر UNHCR آگے بڑھیں اور وہ پاکستان پر اپنا دباؤ بڑھانے کے بجائے امریکہ، نیٹو اور یورپی یونین پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ان مہاجرین کو وطن واپس پہنچانے کے لئے اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری پوری کریں کیونکہ افغانستان میں انہی کی کارروائی کے نتیجے میں یہ مظلوم افراد بے گھر ہوئے اور گزشتہ 40 سال سے پاکستانی معیشت اور معاشرت دونوں پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔لہٰذاکسی بھی صورت ان افغان مہاجرین کو پاکستان میں مزید رہنے کی اجازت دینا کسی بھی طرح دانشمندی اور ملک کی خیرخواہی نہیں ہے خاص طور پر جب کہ پاکستان کے دشمن ممالک کی سکیورٹی ایجنسیاں ان مہاجرین کے ذریعے پاکستان کی سا لمیت اور امن و امان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔اس لیے خدارا اس بار ہمارے درمیان ڈالرز نہیں آنے چاہیے۔ کیوں کہ وہ تو ہم جیسے تیسے کر کے اکٹھے کر ہی لیں گے مگر پاکستان اگر غیر مستحکم ہوا تو ہمارا بچنا مشکل ہو جائے گا!