سینیٹ الیکشن :ووٹوں کی خریداری، انتہا ہوگئی !

سینیٹ الیکشن کابالآخر شیڈول جاری کر دیا گیا، جس کے مطابق ملک بھر میں سینیٹ انتخابات 3 مارچ کو ہوں گے۔چاروں صوبائی اسمبلیاں اور پارلیمنٹ ہاوس کو پولنگ سٹیشن کا درجہ حاصل ہوگا، اور48 نشستوں پر انتخابات کرائے جائیں گے۔ ویسے تو سینیٹ الیکشن کا شور شرابہ گزشتہ 6ماہ سے جاری ہے، اسی کے لےے پی ڈی ایم کا وجود بھی عمل میں لایا گیا جس کا مقصد حکومت کو سینیٹ الیکشن سے پہلے فارغ کر دینے کا تھا، لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا، اوراب جبکہ سب سے زیادہ سینیٹرز ن لیگ کے فارغ ہو رہے ہیں تو شور مچانے والوں میں ن لیگ ہی سب سے آگے نظر آرہی ہے اور کوشش کر رہی ہے کہ تحریک انصاف کو سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے سے روکا جائے۔ اس سلسلے پی ڈی ایم کی باقی جماعتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں خاص طور پر جوڑ توڑ اور موقع سے فائدہ اُٹھانے والی پیپلزپارٹی۔ رہی بات تحریک انصاف کی تو وہ بھی کرپشن کے بھنور میں دھنستی دکھائی دے رہی ہے، جیسے تحریک انصاف کے رہنما اور سینیٹر ولید اقبال کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں سینیٹر بننے کی قیمت 40سے 70کروڑ روپے چل رہی ہے، جبکہ ماضی میں یہ ریٹ 20سے35کروڑ روپے ہوا کرتا تھا، ریٹ بڑھنے کی وجہ شاید ”مہنگائی میں اضافہ“ بھی ہو سکتا ہے! ورنہ تو دو نمبری کے تو فکس ریٹ ہوا کرتے تھے! خیر سینیٹ الیکشن میں خریدو فروخت کا واویلا ہو یا سیکرٹ بیلٹ کے بجائے اوپن بیلٹ پر زور، دراصل اس سیاسی نقصان سے بچنے کی کوشش ہے جو ممکنہ طور پر پاکستان تحریک انصاف کو سینیٹ الیکشن میں ہو سکتا ہے۔بظاہر سیاسی اصول پسندی کا روپ دھار کر یہ کہا جا رہا ہے کہ سینیٹ الیکشن میں اراکین کی بولیاں لگتی ہیں اس لیے پی ٹی آئی اوپن بیلٹ اپنا کر اس طریقے کو شفاف بنانا چاہتی ہے۔ حقیت یہ ہے کہ اگر سیاسی اصول پسندی ہو تو فیصلے سود و زیاں اور نفع نقصان سے اوپر اٹھ کر کیے جاتے ہیں مگر تلخ ترین پہلو یہ ہے کہ پی ٹی آئی ہو یا ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، سب کو اصو ل صرف اپنے فائدے میں یاد آتے ہیں، اور نقصان ہو تو اصول بھلا دیے جاتے ہیں۔بقول شاعر مجھ سے چھڑوائے مرے سارے اصول اس نے ظفر کتنا چالاک تھا مارا مجھے تنہا کر کے اسی سینیٹ الیکشن میں جہاں ہر تین سال بعد ووٹوں کی منڈیاں لگتی ہیں۔ ووٹوں کی خریداری کا ثبوت یہ ہے کہ ابھی گذشتہ دنوں خیبر پختونخوا میں ووٹوں کی خریدو فروخت کی وڈیو وائرل کی گئی ہے، جس میں اراکین اسمبلی پیسے وصول کرتے دکھائے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ وڈیو حکومت کی طرف سے ریلیز ہوئی ہے اور اس کی ٹائمنگ بھی سیاسی طور پر مقررکی گئی ہے تاکہ سیکرٹ بیلٹ کے خلاف فضا بنے اور عدالت عظمیٰ پر بھی یہ دباو¿ پڑے کہ وہ حکومتی ریفرنس پر حکومتی مرضی کا ہی فیصلہ سنائیں۔ اس وڈیو کے بعد خیبر پختونخوا کے وزیر قانون کو مستعفی ہونے کا کہہ دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے 16، 17 ایم پی اے حضرات کے خلاف تحریک انصاف نے سینیٹ 2017 میں ووٹوں کی خریدو فروخت پر ایکشن بھی لیا تھا اور انھیں الیکشن میں پارٹی ٹکٹ نہیں دیے گئے تھے۔ اگرچہ یہ واقعہ چند سال پرانا ہے لیکن اس وڈیو نے پہلے سے گندی سیاست کو مزید غلیظ کر دیا ہے۔ ویسے تو نیب ،ایف بی آر، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن سب فیل ہو چکے ہیں، کیوں کہ جو طاقتور ہے، اُسے مزید طاقتور ہونے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ یہ ایجنسیوں کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے، کہ وہ بھی ایسے لوگوں کی رپورٹ حکومت کو پیش کرے جو غیر قانونی لین دین اور غیر قانونی اثاثے بنانے میں مگن ہوتے ہیں، ایجنسیوں کو متحرک کیا جانا چاہیے۔ الغرض ان ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ ہماری سیاست کا دامن صاف ہے؟کون کہہ سکتا ہے کہ اس ملک میں سیاستدانوں کا وقار بلند ہے، کون کہہ سکتا ہے کہ اس ملک پر بار بار فوج حکمرانی نہ کرے، کون کہہ سکتا ہے کہ ہم بطور قوم کرپٹ نہیں؟ کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارے ہاں ووٹوں کی منڈیاں نہیں لگتیں؟ حقیقت میں 1985ءکے بعد کی سیاست سے یہ تاثر ہی عام ہو چکا ہے کہ سیاست دان بنیادی طورپر ”بے ایمان“ ہوتے ہیں۔ لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ کرکے منتخب ایوانوں میں آتے ہیں۔ جبکہ ہمارے عوام محض ”قیمے والے نان“ کھانے کے بعد ان کی حمایت میں ووٹ ڈال دیتے ہیں۔ ”خریدے“ ووٹوں سے منتخب ہوئے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو جب کسی فرد کو سینیٹ کے لئے منتخب کرنا ہوتا ہے تو وہ بھی اپنے ووٹ کی قیمت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ سینیٹ کا انتخاب نہیں ہوتا۔”ووٹوں کی منڈی“ لگتی ہے۔ پچھلے کالموں میں میں نے تفصیلاََ لکھا تھا کہ یہ ایوان یعنی ایوان بالا دنیا بھر میں ہمیشہ ہنرمندوں اور ایکسپرٹ کی ڈیرہ ہوتا ہے جہاں کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے سر جوڑ کر کوششیں کی جاتی ہیں۔ لیکن یہ کیا؟ یہاں جو 70کروڑ روپے لگا کر آئے گا کیا وہ اپنے پیسے پورے نہیں کرےگا ؟ ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری اپنے طے کردہ سیاسی نتائج حاصل کرنے کیلئے کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ پیسے کے ذریعے وفاداریاں خریدنے کے الزام تو پاکستان کے ہر سیاستدان پر ہی لگتے رہے ہیں، لیکن غیرممکن دِکھنے والے کئی کام آصف علی زرداری کرکے دکھا چکے ہیں۔ 1989میں جب بے نظیر بھٹو کے خلاف نواز شریف نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کرائی تو اس وقت بھی آصف علی زرداری ان لوگوں میں سے تھے، جوچند ایسے لوگ توڑ لائے تھے جو نوازشریف سے معاملہ کرچکے تھے۔ پھر دور کیوں جائیے 2018 کے الیکشن سے کچھ پہلے بلوچستان سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے کا کریڈت بھی انہی کو جاتا ہے۔ پھرانہی کی وجہ سے تو صادق سنجرانی سینیٹ کے چیئرمین بن گئے اور مسلم لیگ ن بیچاری منہ دیکھتی رہ گئی۔ رہ گیا معاملہ 2019 میں صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی ناکامی کا تو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس قرارداد کے لانے میں آصف علی زرداری نہیں بلکہ مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری سرگرم تھے۔ تحریک انصاف کو یہ ڈر نہیں کہ زرداری سندھ میں اس کے اراکین توڑ لیں گے بلکہ ان سے اصل خوف قومی اسمبلی میں ہے جہاں سے وہ سینیٹ کی ایک جنرل نشست کے انتخاب پر حکومت کو شکست دینے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اسلام آباد کی سینیٹ کی اس نشست پر حکومت کے ہارنے کا مطلب ہے کہ وزیراعظم قومی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم اپنی جماعت اور اتحادیوں کے تمام ایم این ایز پر مہربان ہوکر پچاس پچاس کروڑ روپے کے ترقیاتی فنڈز دے رہے ہیں تاکہ ان کی وفاداریاں مستحکم رکھی جا سکیں۔ مطلب مفاداتی سیاست کے فروغ میں کوئی بھی کم نہیں رہا۔ اب جبکہ عمران خان صاحب اس روایت کا خاتمہ چاہ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ رائے شماری خفیہ کی بجائے اوپن ہو تو اب بھی کئی مسائل سامنے آرہے ہیں۔ یہ بات درست کہ ہمارے تحریری آئین کی شق نمبر 226 خفیہ رائے شماری پر اصرار کرتی ہے۔ آئین کے تقاضے مگر ہمارے جیسے ملک میں ”مقدس“ شمار ہونے کی گنجائش نہیں۔ ہمارے ”ذہن سازوں“ نے بحیثیت مجموعی طے کر دیا ہے کہ ہم ایک بدعنوان معاشرہ ہیں۔ اسے سیدھی راہ پر چلانے کے لئے آئین سے بالاتر اقدام لینا ضروری ہے۔ اسی باعث قیامِ پاکستان کے چند ہی سال بعد تحریک کے دوران برطانوی سرکار کی فدویانہ نوکری کرنے والے ملک غلام محمد نے گورنر جنرل کی حیثیت میں دستور ساز اسمبلی کو معطل کردیا تھا۔ غلام محمد کے مذکورہ فیصلے کو ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ کے جج۔جسٹس منیر۔ نے ”نظریہ ضرورت“ کے تحت بجانب قرار دیا۔ ”نظریہ ضرورت“ بعدازاں جنرل ایوب، یحییٰ خان، جنرل ضیاءاور پرویز مشرف کو بھی تسلسل سے ”انقلابی“ اقدام اٹھانے کے جواز فراہم کرتا رہا۔ معاملہ افتخار چودھری تک پہنچا تو ”بھرپور عوامی حمایت“ کی بدولت اپنے منصب پر بحال ہوئے افتخار چودھری نے ازخود نوٹسوں کی بھرمار سے ہماری سیاست کو صاف ستھرا بنانا شروع کردیا۔ بہرکیف آج اگر مذکورہ بالا مبینہ ویڈیوز بطور ثبوت منظر عام پر آچکی ہیں تو ان اراکینِ اسمبلی کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہئے ،چلیں کل اگر کچھ نہیں کیا گیا تو آج ہی اس لیک وڈیو کے بعد تمام ذمہ داران کو گرفتار کر لیا جائے۔یعنی پیسہ لینے والوں، دینے والوں اور جنہوں نے سیاستدانوں کی یہ منڈی سجائی، یہ عمران خان حکومت کی ذمہ داری ہے، چاہے اِس اسکینڈل میں اُن کے کسی اہم وزیر یا کسی رکنِ اسمبلی کا ہی نام کیوں نہ آ رہا ہو۔پیسہ لینے والوں نے وفاقی وزیر پرویز خٹک اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر الزام لگایا کہ یہ دونوں اِس غلیظ لین دین میں شامل تھے۔ اگر یہ سچ ہے تو انہیں بھی گرفتار کیا جائے لیکن ایمانداری کی بات یہ ہے کہ ہم سب کو علم ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا کیوں کہ شاید اس سسٹم کو بھی Electablesکی ضرورت ہے ، لہٰذاان ووٹ کی منڈیوں کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ دنیا ہمیں کاروبار دینا تو دور کی بات سو جوتے مار کر ایک گنے تو وہ بھی زیادہ ہوگا!