او آئی سی کو بند کر دیں!

کیا آپ جانتے ہیں کہ اسرائیل اس وقت ہر ایک منٹ میں ایک بم غزہ پر پھینک رہا ہے، یہ بات بین الاقوامی ادارے ریڈکراس کے ذمہ دار عہدیداران نے بتائی جو اس وقت غزہ کی پٹی پر موجود ہیں، اور اسرائیل سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ بمباری روکے، تاکہ وہ غزہ کے اندر کے حالات سے واقفیت حاصل کر سکیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ ’جو چیز ہمیں اندر جانے سے روک رہی ہے وہ اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ کے پورے حصے پرشدید ترین بمباری ہے۔ہم آٹھ دن سے سرحد پر تعینات ہیں اور ہر منٹ بم گر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ایک بنجر زمین پر بھی بمباری کر رہے تھے جہاں نہ تو جانور ہیں اور نہ ہی انسان۔‘ جبکہ دوسری جانب امریکا کا زبردست حلیف ملک امریکا اس ساری صورتحال کو خود مانیٹر کر رہا ہے ، اور جنگ بندی کو سلامتی کونسل میں ویٹو کر رہا ہے۔ امریکا بھی اسرائیل کی طرح چاہتا ہے کہ حماس کا خاتمہ ہو اور جلد سے جلد غزہ پر اسرائیلی قبضہ ہو جائے۔ الغرض صورتحال یہ ہے کہ جنگ بندی کی سنجیدہ کوششیں کسی طرف سے بھی نہیں کی جارہیں۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے تمام ادارے اس وقت بے بس نظر آرہے ہیں۔ لیکن ہر کوئی ایک بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر حماس کو اتنا بڑا حملہ کرنے کی سوجھی کیا؟ کہ اُس کے پاس اگر 5ہزار میزائل تھے تواُس نے ایک دفعہ ہی کیوں چلا دیے اور اب وہ اسلامی دنیا کی طرف دیکھ رہا ہے، اور کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ یقینا اس میں کہیں کوئی گڑبڑ لگ رہی کہ تیسری قوت نے ان دونوں کے درمیان جنگ چھیڑ دی۔ خیر دونوں بڑی جنگوں کے بعد آج تک یہ دنیاکسی بڑی جنگ کی طرف تو نہیں گئی مگر دنیا بھر میں چھوٹی چھوٹی جنگوں امن برباد کرنے کی خاصی کوششیں کی ہیں، ایساشاید اس لیے بھی ممکن ہوا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے فوری بعد اقوام متحدہ جیسی بڑی اوردیگر ذیلی تنظیموں نے دو فریقین کے درمیان کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیا۔ جبکہ دوسری طرف اسلامی ممالک کی کمزور سی تنظیم او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) بھی اپنا وجود رکھتی ہے، جو آج تک کوئی بڑا اور مشترکہ فیصلہ کر سکی اور مذمتوں کے ساتھ کام چلانے پر ہی اکتفا کیا۔ جیسے حالیہ اسرائیل فلسطین کشیدگی کے حوالے سے او آئی سی کا اہم اجلاس ہوا جس میں اُسے کلیدی کر دار ادا کرنا چاہیے تھا وہیں محض 20نکاتی ایجنڈے پر ہی اکتفا کیا گیا۔ یہ اجلاس سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہوا جہاں اسرائیلی کی ’غیر انسانی جارحیت‘ کو فوری روکنے اور بین الاقوامی برادری سے اسرائیل کے ’احتساب‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔حالانکہ یہ اجلاس سعودی عرب اور پاکستان کی دعوت پر بلایا گیا تھا۔نہ اس اجلاس میں امریکا کے لیے کوئی سخت پیغام دیا گیا اور نہ ہی اسرائیل پر اس کا کوئی اثر ہوا۔ ویسے تو میں پہلے ہی کہتا ہوں کہ اسلامی ممالک ہوں یا غیر اسلامی سبھی ایک دوسرے کے ساتھ مفادات کے لیے جڑے ہوئے ہیں، آپ کہیں مذہب کی وجہ سے انہیں جڑا نہیں دیکھیں گے۔ اگر ایسا ہی ہے جیسا میں کہہ رہا ہوں یا اس سے بھی زیادہ سوچ رہا ہوں تو پھر او آئی سی کو بند کر دینا چاہیے۔ آپ یقین مانیں کہ اُس وقت دل پھٹ گیا جب زخمیوں سے اٹے غزہ کے 2بڑے ہسپتالوں میں اسرائیلی بمباری کی گئی ، جس میں ہزار سے زائد فلسطینی ڈاکٹرز اور زخمی افراد مارے گئے جو زیر علاج تھے۔ ان حملوں میں بچ جانے والے افراد ابھی تک صرف اسی وجہ سے قومہ میں ہیں کہ اُن کے ذہن سے بچوں کی چیخوں کی آوازیں نہیں نکل رہیں۔ لیکن او آئی سی نے پھر بھی کوئی بڑا اقدام نہ اُٹھایا۔ نہ ہی کہیں اعلامیہ جاری کیا کہ اسرائیلی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کیا جائے اور نہ ہی کہیں سے اعلامیہ جاری ہوا کہ جوبائیڈن سے ملاقات کے لیے کوئی وفد ہی بھیجا جائے۔ لیکن میں آپ کو حقیقت بتاتا چلوں کہ جس کے لیے میں کالم لکھنے پر مجبور ہوا ہوں وہ یہ ہے کہ اب تک اس تنظیم کی جانب سے جتنے بھی فیصلے کیے گئے اُن کا معیار یہ تھا کہ اُس میں سے99فیصد آج بھی زیر التوا ہیں۔ اور پھر یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ پلیٹ فارم دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی اجتماعی آواز ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے مسائل کو اُجاگر کرنے، اُنہیں حل کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس تنظیم کے بڑے بڑے ممالک خود مختار ہونے کے بجائے مغربی قوتوں کی چھتر چھایہ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، ترکی، ملایشیا ، پاکستان اور انڈونیشیا وغیرہ جیسے امیر اور اسلحہ سے مالا مال ممالک بھی مغربی ممالک کی مرہون منت ہیں۔ معذرت کے ساتھ یہ تنظیم اسلام کے نام پر بنی لیکن اس میں موجود تمام اسلامی ممالک کے دوسرے ملکوں کے ساتھ مفادات جڑے ہیں اور یہ ممالک انہی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کو اس تنظیم کی مزید بہترین ”کارکردگی“ بھی بتاتا چلوں کہ جس سے آپ اُمیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں، اُنہوں نے 2017ءمیں کیا کیا؟ 13دسمبر 2017ءکو ترکی کے صدر اردگان نے او آئی سی کا اہم ترین اجلاس اس وقت بلا لیا جب امریکی صدر ٹرمپ نے یروشلم (القدس) سے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے اسے غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کا دارلحکومت بنانے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی امریکی سفارتخانہ کو تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا تھا جسے حالیہ دنوں مورخہ14مئی کو عملی جامہ پہنایا گیاہے۔بہر اس موقع پر ترک صدر نے انتہائی عجلت کا مظاہرہ کیا اور فلسطینیوں کا درد سینے میں لئے سب سے پہلے آگے بڑھ کر او آئی سی کا اجلاس طلب کر لیا لیکن اس اجلاس کے فیصلوں نے جہاں فلسطینیوں کے درد کا مداوا کرنا تھا وہاں نہ صرف فلسطینیوں کی پیٹھ پر خنجر گھونپ دیا گیا بلکہ پوری مسلم امہ کو بھی حیران کن صورتحال میں لا کھڑا کیا، اس اجلاس میں کہ جس کا مقصد قبلہ اول بیت المقدس کی شناخت کو امریکی فیصلوں کے سامنے محفوظ کرنا اور دفاع کرنا تھا اس میں کہا گیا کہ مشرقی القدس فلسطین کا ابدی دارالحکومت ہے، جبکہ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو القدس شہر جو مشرقی و مغربی حصوں پر مشتمل ہے دراصل پورے کا پورا ہی فلسطین کا ابدی دارالحکومت رہاہے جبکہ 1948ءسے مغربی القدس کا علاقہ پہلے ہی غاصب صیہونی ریاست کے تسلط میں ہے۔لہذٰا او آئی سی کی اس قرار داد نے جہاں ایک طرف 48ءکے صیہونی غاصبانہ تسلط کو بھی قانونی شکل دے ڈالی وہاں قبلہ اوّل کے تشخص کے عنوان سے فلسطینی مسلمانوں اور مسلم دنیا کے جذبات بھی مجروح کر ڈالے۔افسوس ہے کہ اگر اس اجلاس میں مسلم دنیا کے یہ حکمران واضح اور شفاف فیصلہ کرتے تو شاید آج امریکہ کو یہ ہمت نہ ہوتی کہ وہ فلسطینیوں کی لاشوں پر سے ہوتا ہوا القدس میں اپنا سفارتخانہ منتقل کر لیتا۔ بہرحال آپ دنیا کی طاقتور تنظیموں کے مقابلے میں او آئی سی کو دیکھیں تو یہ کٹھ پتلی کے سوا کچھ نہیں ہے، نہیں یقین تو آپ یورپی یونین کو دیکھ لیں۔اس تنظیم میں یورپ کے 29ممالک جڑے ہیں لیکن یہ دنیا کی سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والی جماعت ہے۔ یہ دنیا کے کسی بھی ملک کو بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت کرنے سے روک سکتی ہے۔ اسی لیے یہ دنیا میں حکم چلانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی جیسے گزشتہ سال یورپی یونین نے قرار داد منظور کی کہ جب تک پاکستان اپنی شرائط پوری نہیں کرتا پاکستان کا جس ایس پلس کا درجہ ختم کر دیاجائے،پاکستان متحرک ہوا اور فوری طور پر یورپی یونین کو منانے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر دیں۔ یورپی یونین ہی نے چین کے کئی عہدیداروں پر صوبہ سنکیانگ کے ویغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے پابندیوں کا اعلان کیا ، چینی حکام نے فوری طور پر یورپی یونین کو اپنے موقف سے آگاہ کیا اور پابندیوں پر نرمی اختیار کرنے کے لیے کہا۔ یورپی یونین ہی نے بھارت میں ہونے والے امتیازی رویوں اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں بھارتی حکومت کو انتباہ کیا، جس کے بعد نمایاں طور پر پرتشدد واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی۔ مطلب یورپی یونین کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ امریکا بھی اس تنظیم کی ناراضگی مول لینے سے ڈرتا ہے۔ پھر ”دولت مشترکہ“ تنظیم کی بات کر لیں، جی 20ممالک کے گروپ کی بات کرلیں یا جی 8ممالک کی سبھی کا اپنا اثررو رسوخ ضرور ہے، لیکن اگر کسی تنظیم کا اثرورسوخ برائے نام ہے تو وہ ہے او آئی سی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس تنظیم میں موجود ہر ملک اپنے ذاتی مفادات کی تلاش میں اجتماعی مفادات کی اہمیت کو کھو بیٹھا ہے۔ بہت پہلے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی ایک بہت مو¿ثر اور طاقتور پلیٹ فارم ہوا کرتی تھی، جس کا اجلاس ہوتا تو دنیا کے طاقتور ممالک کو کسی بڑے ردعمل کی فکر ہو جاتی۔ تیل کا ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی کارگر ہوتی اور مغرب اپنی معاندانہ سوچ ، اپنی اوچھی حرکتوں اورخاص طور پر اسرائیل کی حمایت سے کسی حد تک ہاتھ کھینچ لیتا تھا، مگر پھر رفتہ رفتہ سب نے دیکھا کہ او آئی سی ایک بے جان تنظیم بن کر رہ گئی۔ اس کا ثبوت اس کے حالیہ اجلاسوں سے بھی مل جاتاہے۔ جن میں کشمیر، فلسطین جیسے دیگر متنازعہ علاقوں کے بارے میں صرف رسمی بات چیت کی گئی۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ او آئی سی یہ اعلامیہ جاری کرے کہ اسرائیل سے پوری مسلم اُمہ اُس وقت تک بائیکاٹ کرے گی جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوتا، پھر بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی اسی قسم کا فیصلہ کرے، اور پھر افغانستان کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ تمام اسلامی ممالک افغانستان کی معیشت کی بحالی کے لیے مل کر کام کریں گے ، اور جو ملک ان فیصلوں سے پیچھے ہٹےں اُس کے ساتھ تجارت ختم کردی جائے اور اُسے تنظیم سے نکال دیا جائے ۔ لیکن افسوس ایسے فیصلے محض خام خیالی ہیں، اس کی فی الوقت توقع بھی نہیں کی جاسکتی ۔ بہرکیف شاید فلسطینی بھی اس بات کواسی دن ہی سمجھ چکے تھے کہ او آئی سی سے ان کو مزید کوئی توقعات نہیں رکھنی چاہئیں۔تبھی حماس نے اپنے تعیں اتنا بڑا حملہ کر دیا جس کا خمیازہ ہزاروں فلسطینی بچوں اور خواتین کی شہادت کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ لہٰذااو آئی سی کو فوری بند کر دینا چاہیے تاکہ کوئی ملک یہ نہ سمجھے کہ او آئی سی مغرب ہی کی کٹھ پتلی جماعت ہے، جس سے ہم جیسا چاہیں اور جب چاہیں بیان دلوا سکتے ہیںجو دنیا پر تو اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ مسلمان ممالک کے لیے بھی وہ زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کرتا ہے۔