وزیراعظم نواز شریف! کیا اسٹیبلشمنٹ اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مار رہی ہے؟

اس وقت پاکستان کی فضائیں ، نواز شریف نوازشریف کے نعروں سے گونج رہی ہیں، ہر طرف سابق وزیر اعظم کے چرچے ہیں، یوں لگ رہا ہے جیسے کسی نے اُنہیں اقتدار کی شنید سنا دی ہو۔ ورنہ کبھی بھی اساتذہ کرام کا احتجاج مریم نواز کے ساتھ اساتذہ کے وفد کی ملاقات اور یقین دہانیوں کے بعد ختم نہ ہوتا۔ اور نہ ہی اسلام آباد ہائیکورٹ میں گزشتہ روز چار سال بعد پیشی کے دوران اتنا پروٹوکول ملتا۔ حالانکہ وہاں سینکڑوں لیگی کارکن بھی موجود تھے، مگر ڈی ایس پی اور ایس پی رینک کے تمام افسران وہاں موجود دکھائی دیے۔ پھر یہی نہیں اس وقت سابق وزیر اعظم کا بہانا بنا کر نگران وزیر اعظم جتنا پروٹوکول موصوف کو میسر ہے۔ کیوں کہ کہا جار ہا ہے کہ جلد یا بدیر موصوف وزیر اعظم بنا دیے جائیں گے۔ لہٰذااگر یہ سب کچھ ہی کرنا ہے اور اقتدار ن لیگ کو ہی جیسے تیسے کر کے دینا ہے تو پھرمیرے خیال میں بغیر الیکشن ہی دے دینا چاہیے۔ اربوں روپے لگا کر الیکشن کروانے سے کیا حاصل ہو گا جب ن لیگ کو ہی اقتدار دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اور پھر میاں صاحب نے بھی ماتھا ٹیکنا شروع کر دیا ہے۔ بلکہ اب تو زبان زد عام یہی ہے کہ کیا نواز شریف نے اپنا بیانیہ تبدیل کر لیا ہے؟ کیا نواز شریف کا نقطہ نظر بدل چکا ہے؟ کیا نواز شریف ایک مختلف انداز میں سوچنے لگے ہیں،ادھر ڈوبے ادھر نکلے کا مصداق بننے والے نواز شریف اس مرتبہ کیسے اپنے ملک اور جماعت کو اس گرداب سے نکالیں گے؟ 2017 میں جب وہ اقتدار سے علیحدہ ہوئے اس وقت اور آج کے حالات میں بہت فرق ہے،جب انہوں نے 2019 میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی اس کے بعد سے پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے،پنجاب جو مسلم لیگ نون کا”یس کیمپ“ تھا پی ڈی ایم کی”گورننس “کی بدولت اب وہ ان کے ہاتھ سے کھسک چکا ہے،نئے حالات میں کیا ”بدلا ہوا نواز شریف“ پاکستان آیا ہے؟نواز شریف کے”آنے اور جانے“کی تاریخ بہت دلچسپ ہے،پہلی دفعہ میاں محمد نواز شریف کو” میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا “کی شہرہ آفاق تقریر کے بعد عبدالوحید کاکڑ فارمولے کے تحت اقتدار سے ہاتھ دھوناپڑے،لیکن دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعدانہوں نے پھر ”سینگ پھنسا لیے “1999 میں جنرل مشرف کے ہاتھوں پہلے گرفتار ہوئے پھر جلاوطن ہوئے،2017 میں پہلے اقتدار سے علیحدہ کیے گئے پھر جیل گئے اور جیل سے ایک مرتبہ پھر جلاوطنی اختیار کی،ان تینوں ادوار کی واپسی اور موجودہ واپسی میں جو سب سے بڑا فرق ہے وہ عمران خان ہے،عمران خان آج ایک سیاسی ولن کی طرح جیل میں بند ہیں،ان کی جماعت کا شیرازہ بکھرا بکھرا سا نظر آتا ہے۔ مذمتوں لا تعلقیوں کا سلسلہ ابھی تک تھمنے میں نہیں آرہالیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ اس وقت ان کی مقبولیت کو نظر انداز کرنا کسی صورت ممکن نہیں۔پی ڈی ایم کی حکومت کے ہاتھوں لائے گئے مہنگائی کے سیلاب نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔بجلی کے بلوں کے پریشر کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ میاں نواز شریف کو اس موضوع پر کئی منٹ بات کرنا پڑی۔ان کے پاس 18 مہینوں کے اقتدار کا دفاع کرنے کیلئے کچھ نہیں تھا تو انہوں نے موٹروے، اورنج لائن،میٹرو بس،اور ایٹمی دھماکوں کو اپنا بیانیہ قرار دیا۔”ملک سنبھالو نواز شریف“ کے سلوگن میں سیاست کے منظر پر ایک دفعہ پھر نمودار ہونے والے نواز شریف کیا ملک سنبھال پائیں گے؟میاں نواز شریف نے اپنے سابقہ بیانیے یعنی ووٹ کو عزت دو کے بجائے مفاہمت کے بیانیے پر زور دیا۔سب کے ساتھ مل کر چلنے کے عزم کا اظہار کیا۔لیکن ساتھ ہی ان کی تقریر میں ماضی کی تلخ یادوں کا تذکرہ بھی غالب رہا۔وہ ابھی تک محترمہ کلثوم نواز کے صدمے سے باہر نہیں نکلے۔انہیں اپنے والد اور والدہ کو اپنے ہاتھوں قبر میں نہ اتارنے کا بھی غم ہے،لیکن میدان سیاست میں ان سے زیادہ قربانیاں دینے والے لوگ بھی موجود ہیں، اس ملک میں جہاں باپ کے سامنے بیٹی گرفتار کی گئی اسی ملک میں بیٹی کی موجودگی میں باپ کو پھانسی بھی دی گئی۔ماضی کی تلخ یادوں سے جتنا جلدی چھٹکارا حاصل کریں گے ان کیلئے اور قوم کیلئے اتنا ہی اچھا ہوگا۔اس وقت وہ بظاہر میدان میں بلا شرکت غیرے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ان کے قریب ترین مخالفین جیلوں میں ہیں،پیپلز پارٹی کے امیدوار برائے وزارتِ عظمیٰ نیچی پرواز کر رہے ہیں،پاکستان میں اس وقت جمہوری سناٹا ہے،سیاستدان مختلف کونوں کھدروں میں محفوظ پناہ گاہوں میں دبکے ہوئے ہیں، نظام حکومت اپیکس کمیٹیاں چلا رہی ہیں،ان حالات میں میاں محمد نواز شریف جو موجودہ میدان سیاست میں سب سے عمر رسیدہ سیاست دان ہیں ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔انہیں سولو پرواز کے بجائے تمام سیاسی قوتوں کو ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی پر اکٹھا کرنا ہوگا۔نیا چارٹر آف اکانومی کرنا ہوگا،پاکستان 25 کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔اس وقت یہ کروڑوں افراد خاموشی سے اپنے قلب و روح پر لگے زخموں کو سہلا رہے ہیں۔ خیر ایک اور بات بھی اب کہی جا رہی ہے کہ سیاستدانوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، بالکل اسی طرح میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ نے بھی آج تک تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ کیوں کہ تین مرتبہ میاں نواز شریف کو اقتدار ملا اور تینوں مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی نہیں بنی۔ اُن کے ساتھ اپنے ادوار میں جنرل کاکڑ، جنرل مشرف، جنرل راحیل ، جنرل قمر جاوید باجوہ وغیرہ کے ساتھ مسائل رہے ۔تو کیسے ممکن ہے کہ چوتھی مرتبہ بھی ان کے ساتھ بنے گی۔ اور پھر اس مرتبہ اسٹیبشلمنٹ چونکہ پہلے کی نسبت خاصی کمزور ہے، تو کیسے ممکن ہے، کہ میاں صاحب اُن کے لیے بہترین ثابت ہوں گے۔ بلکہ کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں ایسا کرنے سے اسٹیبلشمنٹ اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مارے گی؟ اگر ایسا ہوا تو کیا یہ ملکی سلامتی کے لیے بہتر ہوگا؟ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ملک مزید پیچھے چلا جائے گا۔ اس قدر پیچھے کہ دوبارہ پاﺅں پر کھڑا ہونے میں خاصا وقت درکار ہوگا۔ اور رہی بات الیکشن کی تو وہ رہنے دیں ، کیوں کہ ہمیں اس بات سے بھی اندازہ ہو چکا ہے کہ اقتدار ن لیگ کو ہی ملے گا کہ آج کل پیپلز پارٹی کے کیمپوں میں کچھ اداسی چھائی ہوئی نظر آتی ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ اب جو میراث تقسیم ہو رہی ہے تو اس میں ان کا حصہ ان کے موافق نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے کئی رہنما کبھی ڈھکے چھپے اور دبے دبے اور کبھی کھلے کھلے انداز میں اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں ایک بیان خاصا دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں کی جانب سے مسلسل تنقید پر سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی ہم پر 'میچ فکس‘ کا الزام لگا رہی ہے، یہ سولہ ماہ ہمارے ساتھ حکومت میں رہے ہیں، کیا اس وقت ان کو میچ فکس ہونے کا نہیں پتا تھا؟ اسی طرح ایک ٹی وی شو میں مسلم لیگ نواز کے مصدق ملک اور پیپلز پارٹی کی سینیٹر پلوشہ خان آپس میں الجھ پڑے۔ پلوشہ خان نے جب شہباز حکومت کی سولہ ماہی کارکردگی کو نشانہ تنقید بنایا تو مصدق ملک نے تنک کر جواب دیا کہ آپ کی پارٹی بھی اسی حکومت کا حصہ تھی، آپ کے پاس بھی اتنی ہی وازرتیں تھیں جتنی ہمیں ملیں، آپ نے کیوں نہیں حالات کو ٹھیک کر لیا؟ بہرکیف میں میاں صاحب کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان کی خاموشی بتا رہی ہے کہ یہ سب کچھ وقتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب آصف علی زرداری کریز پر موجود ہوں تو ان کی بیٹنگ کی باری کا سب کو انتظار رہتا ہے، اگر وہ باﺅلنگ کی طرف آتے ہیں تو ان کے بازوﺅں کی حرکت شین وارن، ثقلین مشتاق اور مرلی دھرن جیسے جادوئی باﺅلرز کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔اور پھر قیامِ پاکستان سے اب تک، یہاں پر یہی کچھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اب اگر کوئی ناسمجھ یہاں کے رسم و رواج سے اتنا ہی بے خبر ہو چلا ہے تو اس پر سوائے اس کی کم علمی اور جہالت پر افسوس کرنے کے اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ ایوب خان سے یحییٰ خان اور ضیاءالحق سے پرویز مشرف کے ادوار کو تو ایک طرف رکھیے۔ یہاں کبھی محمد علی بوگرہ تو کبھی اسکندر مرزا اور غلام محمد جیسے حکمران دیکھنے کو ملے اور کبھی معین قریشی اور شوکت عزیز جیسے۔ مشرف دور میں (ق) لیگ کی صورت میں پہلے میر ظفر اللہ جمالی سے روشناس کرایا گیا اور پھر شوکت عزیز کو ملک کی زمام کار سونپ دی گئی۔ اب بھی یہی خیال ہے کہ جس کے سر پر ہ±ما بیٹھ گیا‘ اس کے سر پر پگڑی سجا دی جائے گی، مگر دوسری طرف کچھ لوگ زمینی حالا ت کی تبدیلی کی طرف توجہ مبذول کرا رہے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے اختر مینگل کا کہنا ہے کہ الیکشن میں تاخیر اس لیے ہو رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) جس طرح کے نتائج چاہتی ہے، پنجاب اور کے پی میں وہ نتائج ملنا مشکل ہیں۔یہیں سے اندازہ لگا لیں کہ زمینی حقائق کیا ہیں اور صاحب اقتدار قوتیں کیا کرنا چاہ رہی ہیں! اللہ اس ملک کی حفاظت فرمائے (آمین)