آزادی اظہار رائے کا حق اور”انگلیاں قلم ہوئیں“!

جب آپ ایسے ملک میں رہ رہے ہوں جہاں قانون کی بالادستی برائے نام ہو، جہاں عدالتیں 139میں سے 130ویں نمبر پر ہو، جہاں کرپٹ ترین ممالک میں صف اول کے ممالک میں ہوں۔ جہاں سچ بولنے والے ممالک میں کی فہرست میں ہمارا نمبر 156واں ہو اور جہاں آزادی اظہار رائے میں ہمارا ملک 180ممالک کی فہرست میں 157واں نمبر ہوتو پھر وہاں کا جدت پسند اور فکرمند طبقہ ایسی جگہیں تلاش کرتا ہے، جہاں آپ کو بولنے کی ہر قسم کی آزادی میسر ہو۔ ایسا ہی پلیٹ فارم گزشتہ روز بہت سے مقررین کو ملا ۔جی ہاں! راقم اپنی نئی آنے والی کتاب ”انگلیاں قلم ہوئیں“کی تقریب کی بات کر رہا ہے جس میں سینئر صحافی ولکھاری محمود شام ،سابق صدر سپریم کورٹ علی احمد کرد، سینئر تجزیہ کار امتیاز عالم ،امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن ،رہنما مسلم لیگ ن ملک احمد خان،ایڈووکیٹ ام رباب چانڈیو(دادو) ،ایڈووکیٹ سپریم کورٹ عابد ساقی ،سابق صدر سی پی این ای کاظم خان ،سینئر صحافی وکالم نگار محسن گورائیہ ،سینئر صحافی طاہر ملک ،سینئر صحافی ایاز امیر ،ماہر تعلیم ڈاکٹر عنبرین صلاح الدین اور دیگر شریک ہوئے۔اس موقع پر سینئر صحافی و تجزیہ کار محمود شام نے کہا کہ تین سو سال پہلے بھی سچ بولنے والوں کو دھکے ملتے تھے انگلیاں قلم ہوتیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ کالم نگاروں میں جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی کوئی کوئی جرا¿ت کرتا ہے۔ پہلی بار پنجاب بیزار ہورہاہے بلوچستان کے پی کے سندھ کو اپنے لاپتہ افراد یادآرہے ہیں لاہور والوں کی جرات کو سلام جنہوں نے سندھ کی بیٹی ام رباب کی طویل جدوجہد کا اعتراف کرتے ہوئے اظہار خیال کی دعوت دی ہے پاکستان کی پیپلزپارٹی کی فلک بوس قیادت زمین بوس ہوچکی ہے۔ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ علی احمد کرد نے کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ قابل ذکر لوگ وہ ہیں جو سوچتے ہیں کہ اس ملک میں جتنے بھی ڈکٹیٹر یاجتنے بھی برے حکمران آئے ہیں انکی سب سے پہلی یہی کوشش رہی ہے کہ انہوں نے لوگوں کی سوچ پر پابندی لگائی۔رہنما مسلم لیگ ن ملک محمد احمدخان نے کہا کہ میں نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو سیاسی جماعتوں کو توڑتے دیکھا ہے۔ جمہوریت آئین کی عمل داری کے ساتھ قائم رہتی ہے۔جمہوریت کے اثرات عوام تک پہنچنے چاہئیں۔انہوں نے مزید کہا کہ میں یہ بات دلیل سے کہہ سکتاہوں کہ آج کامعاشرہ الفاظ پر قائم ہے آج کی سوسائٹی اور ریاست الفاظ تشکیل دیتی ہے جتنی جمہوری قوتیں ہیں جتنے جمہوری خیالات کے مالک ہیں ان کانقطہ اختتام یہ ہوگا کہ آئین پرعملداری ہو۔ اگر جمہوریت رہے گی تو آئین پر عملداری سے رہے گی، میں شہادت دے سکتاہوں کہ میں نے نیب کو سیاسی لوگوں کو ایک جماعت سے توڑ کر دوسری جماعت میں شامل کرواتے ہوئے دیکھا،حکومتیں بناتے دیکھا ،لوگوں کے گھروں کے راستے بند کرتے دیکھا، اسی نیب کوافسران کی بہوﺅں ،بیٹیوں کو حبس بے جا میں رکھتے دیکھاہے۔ امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن بھی خصوصی طور پر لاہور آئے اور تقریب کو رونق بخشی انہوں نے کہا کہ آج کی اس تقریب کا معیار بہت اچھا ہے، لوگ سوچ رہے ہیں بول رہے ہیں ، بولنے کی ترغیب دے رہے ہیں اور یہی کسی زندہ معاشرے کا ثبوت ہوتاہے ،اگر بالکل ہی سناٹا ہوجائے اور کوئی بھی نہ ہو جو اس طرف توجہ دلائے تومایوسی پھیلتی ہے، امید ہے کہ لوگ بولیں گے اور زور سے بولیں گے اور ایسا بولیں گے کہ انشاءاللہ ایک قوت بنیں گے۔ اسلام صرف نیکیوںکانام نہیں ہے بلکہ ایک نظام کانام ہے اوراس کے نظام کی بنیاد عد ل اور مشاورت پرہے دین عدل وانصاف کی بنیاد پر قائم ودائم ہے آپ کی پوری سیرت اور جدوجہد کامطالعہ کریںگے تو تدریج کا جو عمل ہے اس میں ذہن سازی مظلوموں کو مجبوروں کو جوڑنا ظالموں کے مقابلے میں کھڑا کرنا نظام کو چیلنج کرنا اس کی بنیاد پر پوری تحریک کو قائم کرنااور پھر یہ صورتحال ہو کہ قیدو بند کی صعوبتوں کو برداشت کرنا۔ امتیاز عالم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ” انگلیاں قلم ہوئیں“ جب میں نے پڑھی تو ایک فقرے پڑھ میں رک گیا کہ انگلیاں لکھتے لکھتے قلم ہوہی جاتی ہیں، علی صاحب کی کتاب کیا ایک نوحہ ہے یا ایک حادثہ کا بیان ہے۔ بہت کم صحافی محنت سے لکھتے ہیںمجھے ان کے کئی تجزیوں سے اتفاق نہیں ہے لیکن خوشی ہے کہ یہ محنت سے لکھتے ہیں، پس منظر نگاری کرتے ہیں اور پھر یہ بھی کہ وابستگی اور تقسیم کے اس ماحول میں جہاں ذاتی رنجشیں زیادہ حاوی ہوں اور ذاتی پسند نا پسند زیادہ ہووہاں رائے زنی کرنا بڑی بات ہے، میں سمجھتاہوں کہ جو انگلیاں قلم کروانے والے تھے وہ عدم روانہ ہوگئے ہم انتظار میں ہیں کہ انگلیاں کٹوانے والے سامنے آئیں کیونکہ جو پریس اور میڈیا کا حال ہے اسے بدزبانی سے بیان کرنے کی بجائے میرا خیال ہے کہ اس کی تدفین ہو گئی ہے۔ ایاز امیرنے کہا کہ آج کل ایسا ماحول بناہوا ہے کہ پریس کلب کے سامنے دو خواتین فلسطین سے اظہار یکجہتی کیلئے کتبہ لیکر کھڑی ہوں تو ان کیلئے بھی مسئلہ بن جاتاہے اور ایسے ماحول میں ایسی اورکتابیں لکھی جانی چاہیے ،سوچنا یہ چاہیے کہ جب بیماری ہو جائے توکسی مریض کا سامناہو تو اس سے یہ پوچھا جاتاہے کہ آپ کی کمر درد کا آپکے گردوں کا کیا حال ہے جہاں کوئی دو چار پاکستانی آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں وہاں یہی بات ہوتی ہے کہ ملک کا کیا ہوگا انقلاب ہوتے ہیں یا آتے ہیں یا آنے کی توقع ہو تو پرچہ جات اس سے پہلے لکھے جاتے ہیں کہ اس انقلاب کامقصد کیا ہے؟ یہ ہمار ا واحد انقلاب تھا کہ انقلاب 1947میں مکمل ہوتا ہے تو بڑے بیٹھ جاتے ہیں کہ اس انقلاب کا مقصد کیا ہے ہم ذہنی آزادی چاہیے افکار کی آزادی چاہیے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ گھروں میں آکر خواتین کے بال پکڑے جائیں۔ اُم ربا ب چانڈیونے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ تقریب کتاب فقط کتاب کی رونمائی نہیں بلکہ رہنمائی بھی ہے پاکستان کی 75فیصد آبادی ایسی ہے جس نے نا تو نصاب کی کتابیں دیکھی ہےں اور نا سکولوںکا منہ دیکھاہے، تو یہ ہمت کی بات ہے کہ اس معاشرے میں کتابیں لکھیں جائیں اس معاشرے میں جہاں کتاب پڑھنا تو دورکی بات جہاں لکھنا بہت ہمت کی بات ہے میں اس حوالے سے راقم کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ میں چھ سال سے انصاف کیلئے جنگ لڑ رہی ہوں ہم نے جاگیردارانہ نظام کو چیلنج کیا میرے والد نے علم بغاوت بلند کیا، میرے گھر میں میرے والد ، دادا اور چچا کو بے دردی سے قتل کیا گیا اور میں آج تک انصاف کیلئے کھڑی ہوں ،اور میں آئین اور قانون سے سندھ کے طاقتور ترین نظام کو چیلنج کرکے کھڑی ہوںاور ہمارا آج آئین وقانون کہاں پر کھڑاہے میں یہی کہوں گی کہ جب انگلیاں قلم ہوجاتی ہیں تو یہ مظلوموں کیلئے مرہم ہوجاتی ہیں۔معروف ٹی وی اینالسٹ طاہر ملک نے راقم پر تنقید کے نشتر بھی چلائے اور تعریف کرکے تقریر کو ”بیلنس“ بھی کر دیا کہ میں نے طاقت ور اور کمزور کی لڑائی میں ہمیشہ کمزور کا ساتھ دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی صحافی دنیا کا واحد صحافی ہے جس نے کوڑے کھائے ہیں، پھر سابق صدر سی پی این ای کاظم خان نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ قلم کے نیچے پوروں سے خون نکلتے نظر آیا یہاں صرف انگلیاں قلم نہیں ہوتیں یہاں لہجے قلم ہوتے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ راقم نے’ ’ ریاست کے اندر ریاست“ کالم بھی لکھ دیا، پھر کچے کے ڈاکوﺅں پر بھی کالم لکھ دیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ علی صاحب ”پکے کے ڈاکوﺅں “ پر کب لکھیں گے ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ یہاں پکے کے ڈاکو بھی موجود ہیں جو عوام کی مرضی کے بغیر ان کا سب کچھ لے جاتے ہیں انہوں نے اس موقع پر ایک شعر بھی کہا کہ ” کیوں مجھے احساس ہوتاہے کہ یہ میرے نہیں گھر کے دربانوں کو جب بھی دیکھتاہوں غور سے سید طیب نے کہا کہ میں ان چند لوگوں میں سے ایک ہوں جس نے علی احمد ڈھلوں کو پڑھ بھی رکھا ہے اور دیکھ بھی رکھا ہے علی احمد ڈھلوں کے شعلہ جوالہ تھا وہ ایک تندو تیز اور بے صبرا انقلابی تھا اور تلخی کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ان کے کالمز کا عنوان آج بھی تلخیاں ہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آج بھی تلخی ٹھنڈی نہیں ہوئی ہم نے امریت کے خلاف ایک سفر شروع کیا ہم نے قائدو بند کی صوبتیں برداشت کیں ہم نے امریت کا مقابلہ کیا ہم نے جو خواب دیکھے اس میںہماری آنکھیں زخمی تو ہوئیں لیکن افسوس ان خوابوں کی تعبیر نہ ہوسکی۔ان کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد ہے ان سے دل کا رشتہ قائم تھا اور رہے گا میں ان کو مبارکباد پیش کرتاہوں کہ ان کو جس بات کی تمنا تھی وہ پوری ہوئی۔ اس کے علاوہ ایڈووکیٹ راجہ ذوالقرنین نے کہا ڈھلوں صاحب نے ہمیشہ حق سچ کی بات کی ہے۔ اور ہمیشہ اُنہوں نے سچ کا ساتھ دیا ہے۔ عابد ساقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کا آغاز ام رباب کی غیر محفوظ راتوں کے نوحہ سے شروع ہوتاہے اور اختتام فلسطین کے ایک مقید اور مظلوم انسانوں کی نسل کشی کے موضوع پر ہوتاہے کتاب کا آغاز بھی ایک انسانی المیہ سے ہے اور اختتام بھی۔ ڈاکٹر عنبرین صلاح الدین نے کہا کہ ایک بات تو طے ہے کہ یہ کالم خانہ پوری کیلئے نہیں لکھتے بلکہ پوری توجہ اور عرق ریزی کیساتھ لکھتے ہیں اس کتاب میں شامل کالمز بہت آرام سے پڑھنے کے قابل ہیں ان کالموں میں دلچسپی کے موضوعات حامل چیدہ چیدہ کالم دیکھنے کے بعد یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے ۔ بہرحال یہ تقریب واقعی شاندار تھی، جس میں ہر کوئی لگی لپٹی باتوں کے بجائے سچ بولا اور خوب جم کر سسٹم پر تنقید کی۔ جبکہ راقم کا مقصد بھی صرف یہی ہے کہ تنقید برائے تنقید کے بجائے تنقید برائے اصلاح کا پہلو ہاتھ سے نہ جائے۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ایک حقیقی آزاد ریاست بننے کے لیے ہمیں اس طرح کے پلیٹ فارمز مہیا کرنے چاہیے تاکہ لوگ اپنی بات مکمل کریں اور ہمارے کرتا دھرتا اس معاشرے کی اصلاح کریں عوامی مسائل کی طرف توجہ دیں!