ن لیگ اور ایم کیو ایم کااتحاد: سندھ میں پیپلزپارٹی تنہا؟

آٹھ فروری کے الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے، جس کی ’©’حفاظت“ خود سپریم کو رٹ کر رہی ہے، جس سے سیاسی حلقوں میں اب الیکشن ہونے کے چانسز کو 80فیصد تک کنفرم کر دیا گیا ہے، بلکہ ملک کی بیشتر سیاسی پارٹیوں نے بھی جس طرح اس تاریخ پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور اسے خوش آئند قرار دیا ہے اس سے یہ امید قوی تر ہو جاتی ہے کہ انتخابات اگلے سال آٹھ فروری ہی کوہو ں گے۔اسی لیے اب اگلے تین چار ماہ میں بہت سے سیاسی پرندے ادھر اُدھر کا سفر کریں گے ، بہت سی سیاسی پارٹیاں مرج ہوں گی اور بہت سے سیاسی اتحاد بنیں گے بھی اور ٹوٹیں گے بھی۔ لیکن اس سے پہلے ہم سنتے اور دیکھتے تھے کہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد نظریات کی بنیاد پر ہورہے ہیں، مگر اب اقتدار کے لیے ایسا ہوتا ہے، سنا جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی ، پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد بنانے جا رہی ہے، اور پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اتحاد بنا رہی ہے ،،، جبکہ ن لیگ نے پیپلزپارٹی کو ابتدائی سبق پڑھانے کے لیے گزشتہ روز ایم کیو ایم سے اتحاد کا اعلان کرکے اکٹھے الیکشن لڑنے کا بھی کھڑاک کیا ہے۔ جس سے سیاسی حلقے یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ چند قوتیں سندھ سے پیپلزپارٹی کو غائب کرنا چاہ رہی ہیں۔ ن لیگ اور ایم کیو ایم ملاقات کے بعد فاروق ستار نے کہا کہ ’ایم کیو ایم سے 2013 کے انتخاب میں 10 نشستیں چھینی گئیں۔ ہماری 2013 کے انتخاب میں 20 میں سے 17 نشستیں تھیں اب ہم اپنی کھوئی ہوئی نشستیں واپس لیں گے۔2024 کے عام انتخابات میں ن لیگ کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گے۔ ملکی مسائل کا حل تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر چلنے سے ہی ہو گا، کراچی میں پانچ فیصد ووٹ رکھنے والوں کو میئر بنانے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔اس کے بعد سعد رفیق نے کہا کہ آج نواز شریف کی دعوت پر ملاقات کو آیا تھا لیکن آئندہ انتخاب میں اتحاد کا فیصلہ ڈیڑھ سال پہلے ہی ہو چکا تھا۔ پی ڈی ایم کی حکومت بناتے وقت ایک چارٹر پر بھی دستخط کیے تھے اسی کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔جبکہ اس پر پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ ’جو مخالفین الیکشن میں آ رہے ہیں، ہمارے خلاف کھڑے ہوں گے ان کو بسمہ اللہ۔ آئیں کھڑے ہوں ہم آپ کو ویلکم کرتے ہیں۔ جمہوریت ہو گی اور مقابلہ ہو گا تو تب ہی بہترین نتائج سامنے آئیں گے۔‘ خیر اب اس اعلان کے بعد یہ تو ایم کیو ایم والے ہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کراچی میں ”پنجابی ووٹ“ کیوں مانگا ہے؟ یا یہ اتحاد اس لیے بھی ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی چونکہ سندھ اور کراچی کی حکمران جماعت ہے اس لیے ایم کیو ایم کو ان سے اتحاد کر کے کچھ نہیں ملنا تھا۔ متحدہ نے 2018 میں پی ٹی آئی سے بھی اسی لیے اتحاد کیا تھا حالانکہ پی ٹی آئی نے ہی ایم کیو ایم کی نشستیں جیتی تھیں۔حالانکہ ایم کیو ایم جانتی ہے کہ ن لیگ سندھ میں اتنی مضبوط نہیں رہی ، لیکن پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ یا تو یہ پیغام ”کسی“ کو دیا جا رہا ہے یا یہ کسی کے کہنے پر کیا جا رہا ہے۔ خیر جیسے جیسے الیکشن قریب آئیں گے ویسے ویسے مزید اتحاد بنیں گے، اور ویسے بھی ابھی تو یہ پہلا اتحاد ہے ابھی تو دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے مزید اتحاد بھی سامنے آئیں گے۔ پنجاب سے مسلم لیگ ق، ٹی ایل پی، جماعت اسلامی، استحکام پاکستان، کے پی کے سے جے یو آئی، پی ٹی آئی پارلیمنٹرین، جماعت اسلامی، اے این پی نے بھی کسی بڑی جماعت سے اتحاد کرنا ہے۔ بلوچستان میں بھی چھوٹی جماعتوں کا الائنس ہو گا۔ خیر میں پھر یہی کہوں گا کہ وہ دن گئے جب سیاسی پارٹیوں کی تقسیم یا صف بندی نظریے کی بنیاد پر ہوا کرتی تھی۔ اب سیاسی پارٹیوں کو نظریے کی بنیاد پر تقسیم کرنے والی لکیر بہت مدھم پڑ چکی ہے اور اس کی جگہ نمبرز گیم نے لے لی ہے‘ جسے جیتنے کے لیے ہر پارٹی ہر قسم کے ہتھکنڈے‘ جوڑ توڑ اور سمجھوتے کرتی ہے‘ جن کا نظریاتی وابستگی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ماضی کی طرح بڑے بڑے انتخابی اتحادوں کا کوئی امکان نہیں البتہ علاقائی اور مقامی سطح پر حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے امکانات موجود ہیں۔ بہرحال یہ جمہوری حسن ہے کہ سیاستدان آپس میں مل جل بیٹھیں، عوامی وقار کی بات کریں اور کوشش کریں کہ اُن کے ذہن میں کسی قسم کے اقتدار کی ہوس کی بو نہ آئے۔ اور پھر یہ بات خوش آئند ہے کہ ملک ایک بار پھر جمہوریت کی طرف گامزن ہونے والا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اس سے خوفزدہ ضرور ہیں کہ حالیہ دہشت گردی سے جس طرح ملک میں دوبارہ خوف کی کیفیت پھیلائی جا رہی ہے، اس سے یقینا الیکشن کا التوانہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ اگر ہم ماضی میں دیکھتے ہیں کہ 2008ءکے الیکشن میں بھی اسی قسم کا ماحول تھا، اُس وقت انتخابات سے چند مہینے قبل صورتحال تاریک نظر آتی تھی، اس وقت سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں قتل کیا گیا تھا، کراچی میں 180 افراد کو مارا گیا تھا جبکہ لال مسجد آپریشن بھی جاری تھا اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو بنایا جار ہا تھا۔ نہیں یقین تو اس حوالے سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کی رپورٹ پڑھ لیں جس کے اعداد و شمار کے مطابق 2007 میں 639 دہشت گرد حملے ہوئے تھے، جس میں 1940 افراد ہلاک اور 2870 زخمی ہوئے تھے۔جبکہ جنوری 2008 میں 39 حملوں میں سے زیادہ تر خیبرپختونخوا اور فاٹا میں کیے گئے تھے، جس کے نتیجے میں 459 افراد مارے گئے تھے۔قصہ مختصر کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے محض 50دن بعد 18فروری 2008ئکو الیکشن کا انعقاد ہو چکا تھا۔ اور پھر آپ 2013کے انتخابات کی رپورٹ بھی پڑھ لیں کہ 2013 کے انتخابات کے دوران عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اوراُس وقت کی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور دیگر آزاد امیدواروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔عسکریت پسندوں نے 60 دن کے الیکشن کے عمل کے دوران امیدواروں، الیکشن دفاتر، مختلف سیاسی جماعتوں کے عوامی اجلاسوں، پولنگ اسٹیشنز اور الیکشن کمیشن کے دفاتر پر 59 حملے کیے تھے جس کے نتیجے میں کم از کم 119 افراد ہلاک اور 438 افراد زخمی ہو گئے تھے۔2013 میں عام انتخابات 11 مئی کو منعقد ہوئے تھے، اور مئی 2013 میں انتخابات سے قبل 4 مہینے میں ملک بھر میں دہشت گردی کے 366 حملے کیے گئے جس میں 1120 افراد جاں بحق اور 2151 زخمی ہوئے تھے، اس کا مطلب ہے کہ 4 ماہ سے 52 فیصد زیادہ اموات ہوئی تھیں۔پھر آپ 2018ئکے انتخابات کو دیکھ لیں جو نسبتاََ پرامن تھے اور 2008 اور 2013 کے انتخابات کے مقابلے میں زیادہ کم خوف کا شکار تھے۔ 2018 میں دہشت گردی کے حملوں میں 579 افراد قتل اور 960 زخمی ہوئے تھے۔ اور ان تینوں انتخابات کی نسبت آپ 2023کا اندازہ لگالیں۔ کہ ان حملوں میں 72فیصد تک کمی آچکی ہے اور حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں۔ اس لیے اس وقت الیکشنز کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اور الیکشن وقت پر ہوں گے تو یقینا بہتر سے بہتر قیادت میسر آئے گی، ترقی ہوگی، اور دنیا بھر کی کاروباری کمپنیاں پاکستان میں کاروبار کریں گی۔ اور پھر کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک اس قدر ترقی کیوں کر رہے ہیں، حالانکہ وہاں بھی آئے روز قتل و غارت کی وارداتیں ہوتی ہیں، بھارت میں مودی کی حکومت کے دوران کونسا کام نہیں ہوا؟ مثلاً کرنسی نوٹوں کی یکایک تبدیلی، جنتا پارٹی کے بعض اہم رہنماﺅں کے اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات،خاص طور پر گزشتہ برس نئی دہلی میں کسانوں کا بڑا دھرنا، طویل ہڑتال اور جلسے جلوس کی تحریک کے دوران بھارتی حکومت کا رویہ اور پالیسی کسی طور جمہوری اقدار اور بنیادی حقوق کے حوالے سے قطعی مناسب نہ تھی بلکہ حکومت اس کے برعکس عمل کرتی رہی۔ کسانوں کے احتجاج کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا،مگر دنیا ان سب چیزوں کو ملک کا ”اندرونی“ مسئلہ سمجھتی ہے۔ دنیا دیکھتی ہے کہ ادارے مضبوط ہیں، کام کر رہے ہیں، جمہوریت ہے؟ اس جمہوریت میں کسی بیرونی و اندرونی طاقت کا عمل دخل تو نہیں؟ جب یہ سب باتیں ٹھیک ہیں تو پھر ملک بھی ترقی کرتا ہے، آئین کی اہمیت بھی برقرار رہتی ہے۔ لہٰذاسپریم کورٹ اس حوالے سے مبارکباد کی مستحق ہے، کہ اُس نے یہ شور شرابہ، ابہام اور طعنہ بازی ختم کروا کر تمام فریقین کو ایک الیکشن ڈے پر متفق کیا۔ اُمید ہے کہ الیکشنز بہترین ہوںگے، اور تمام جماعتیں حصہ لیں گی۔ اگر ایسا ہوا تو یقینا جمہوری ادارہ ہی مضبوط ہوگا اور پاکستان ترقی کرے گا۔اور رہی بات اتحاد وغیرہ کے بننے کی تو یہ بننے دیں، یہ جمہوری حسن ہے، لیکن فیصلہ کرنے والی قوتوں نے اگر اس میں ملاوٹ ڈالی تو یہ جس طرح ماضی میں پاکستان کے لیے نقصان دہ رہا ہے، اُسی طرح آئندہ بھی پاکستان کے لیے سخت نقصان دہ ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست عمل کو قدرتی طور پر آگے جانے دیں ورنہ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔