ریکوڈک منصوبہ : آﺅ پاکستان کا سوچیں!

بُری خبروں میں سے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے معدنی وسائل کو Utilizeکرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، ان میں سے خاص طور پر ریکوڈک پراجیکٹ اہمیت کا حامل ہے، جس کا تخمینہ 600ارب ڈالر تک جا چکا ہے۔ (یاد رہے کہ پہلے یہ پراجیکٹ 2سے 3سو ارب ڈالر کا تھا، مگر قیمتیں دوگنا ہونے کے بعد اس کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے) خیر اس پراجیکٹ پر تو بعد میں آتے ہیں، مگر پاکستان کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ سعودی عرب نے ان ذخائر میں حکومتی حصص حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور اس معاہدے میں کامیابی کی بدولت معاشی بحران سے دوچار پاکستان کو کافی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ ایک عرصے سے پاکستان اچھی خبروں کا متلاشی ہے، خاص طور پر گزشتہ 3، 4سال سے تو بری خبروں نے ہمارا گھر ہی دیکھ لیا ہے، کبھی آئی ایم ایف کا شکنجہ کسنا، تو کبھی ورلڈ بنک کی طرف سے پابندیاں، کبھی ایف اے ٹی ایف کی لٹکتی تلوار تو کبھی امریکا کی جانب سے دوغلی پالیسی کے الزام لگا کر امداد بند کرنا تو کبھی یورپی یونین کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا، کبھی قرضے لینے کے لیے پی ٹی وی، ریڈیوپاکستان یا دیگر عمارتوں کو گروی رکھنا تو کبھی اسی قرض کو کرپشن کی نذر ہوتے دیکھنا، کبھی مہنگائی کے مارے عوام کا خودکشیاں کرنے پر مجبور ہونا تو کبھی حکومتی بدانتظامی عروج پر ہونا، کبھی وطن عزیز کی بین الاقوامی سطح پر جگ ہنسائی ہونا تو کبھی کسی بین الاقوامی لابی کا شکار ہوجانا اور کبھی بین الاقوامی عدالتوں سے منہ کی کھا کر لوٹنا تو کبھی ملکی عدالتوں سے بری خبریں آنا۔خاص طور پر ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک جیسی خبریں آنا، یقین مانیں ایک وقت کے لیے تو ایسا لگتا تھا کہ پاکستان میں کچھ اچھا ہونا شاید خواب بن گیا ہے۔ لیکن اب موسم سرما کی ہواﺅں کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آرہے ہیں۔ بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے مختصراََ بتاتا چلوں کہ گزشتہ سال برٹش ورجن آئی لینڈ کی ہائیکورٹ نے ٹیتھیان کاپر کمپنی کی جانب سے پاکستان کے اثاثے ضبط کرنے کے دعوے کو مسترد کر کے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ ریکوڈک کیس میں ٹیتھیان کمپنی نے ورلڈ بینک ٹربیونل کی جانب سے پاکستان پر عائد 5.9ارب ڈالر ہرجانے کی وصولی کے لیے نیویارک اور پیرس میں موجود پی آئی اے کے ہوٹلوں کی ضبطگی کے لیے دعویٰ دائر کر رکھا تھا۔یہ کیس ایسے ہی تھا جیسے ”کھایا نہ پیا گلاس توڑا بارہ آنے“یعنی اربوں ڈالر کا فائدہ دینے والا پراجیکٹ پاکستان کے گلے پڑ گیا تھا، اگر یہاں ہم ریکوڈک کے چیدہ چیدہ پہلوﺅں کو ڈسکس کریں تو آپ کو حیرت ہو گی کہ پاکستان کا سارا قرض اس منصوبے سے اُتر سکتا تھا۔در حقیقت ریکوڈک پاکستانی بلوچستان میں ضلع چاغی کے علاقے میں ایران و افغانستان کی سرحدوں سے نزدیک ایک علاقہ ہے جہاں دنیا کے عظیم ترین سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ مقامی زبان میں رکودک کا مطلب ہے ریت سے بھری چوٹی۔ یہاں کسی زمانے میں آتش فشاں پہاڑ موجود تھے جو اب خاموش ہیں۔ اس ریت سے بھرے پہاڑ اور ٹیلوں کے 70 مربع کلومیٹر علاقے میں 12 ملین ٹن تانبے اور 21 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ تانبے کے یہ ذخائر چلی کے مشہور ذخائر سے بھی زیادہ ہیں۔ حال ہی میں پاکستانی بلوچستان میں غیر ملکی قوتوں کی مداخلت کی ایک وجہ یہ علاقہ بھی بتایا جاتا ہے۔ لہٰذااب سوال یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب دنیا کی سب سے بڑی سونا نکالنے والی کمپنیاں یہاں کام کر رہی ہیں تو، سعودی عرب کی اس میں کیا اہمیت ہوگی؟ ویسے میرے خیال میں جب آپ کے پاس کوئی قیمتی چیز ہو، اور آپ اُس کو صحیح طرح استعمال میں لا کر فائدہ حاصل کرنے کے قابل نہ ہوں تو بہتر ہے جو اس کام کے ماہر ہوں اُنہیں شراکت دار بنا لینا چاہیے۔ تاکہ آپ کا گھر بھی خوشحال ہو اور اگلے کو جائز منافع ملتا رہے۔ ورنہ تو ہماری مسائل اُس کمہار جیسی ہے، جسے زمین پر پڑا لعل ملا تو اُس نے اُسے گدھے کے گلے میں باندھ دیا! فی الوقت ہماری مثال بھی بالکل ایسی ہی ہے، اس وقت دنیا کی سب سے بڑی تانبا نکالنے کی شراکت دونوں کام کر رہی ہیں جس سے اس علاقے کی اہمیت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان عظیم ذخائر کو کوڑیوں کے بھاو¿ غیر ملکی شراکتوں کو بیچا جا رہا ہے، لیکن اگر ہم بغیر کسی ذاتی لالچ کے سعودی عرب کے ساتھ اچھی ڈیل کر لیں تو وہ اگلے پانچ دس سالوں میں پاکستان کے تمام قرض اُتار سکتا ہے۔ چونکہ فی الوقت تو اس کان کنی کے تناسب کے لحاظ سے پاکستان کو اس منصوبے کا عشر عشیر بھی نصیب نہیں ہو رہا ، یعنی موجودہ کانوں کا جو ٹھیکہ دیا گیا ہے اس میں بلوچستان کی حکومت کا حصہ 25 فی صد، انتوفاگاستا (Antofagasta ) کا حصہ 37 اعشاریہ 5 فی صد اور بیرک گولڈ کا حصہ 37 اعشاریہ 5 فی صد ہے۔ لیکن حکومت بلوچستان کو یہ حصہ اس صورت میں ملے گا اگر وہ ان کانوں میں 25 فی صد سرمایہ کاری کرے۔ یعنی اصل میں بلوچستان کی زمین اور وسائل استعمال کرنے کے لیے بلوچستان یا حکومت پاکستان کو کوئی ادائیگی نہیں ہو رہی۔ بہرحال ادارے اگر پاکستان کو ”بحرانی“ کیفیت سے باہر نکالنے میں ماہر ہیں تو اس طرف بھی ضرور توجہ دیں گے۔ رہی بات عدالتوں کی تو سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے میں پوری طرح سپورٹ کرنے کے لیے تیار ہے۔ بہرکیف سپیشل انویسٹنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل Special Investment Facilitation Council (SIFC)اس حوالے سے مبارکباد کی مستحق ہے ، یہ کونسل خلیجی ممالک سے زراعت، معدنیات، دفاع، توانائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لئے تشکیل دی گئی تھی اب ریکوڈک پروجیکٹ کیلئے سعودی عرب اور بیرک گولڈ سے تجارتی مذاکرات کے لئے کوشاں ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے خصوصی سرمایہ کاری جہانزیب خان کے مطابق پاکستان نے اپنے حصص کی تشخیص کے لئے ایک بین الاقوامی مشیر مقرر کیا ہے اور توقع ہے کہ یہ عمل 25دسمبر سے پہلے مکمل ہوجائیگا جس کے بعد سعودی عرب سے دوبارہ بات چیت ہوگی اور حتمی معاہدے قائم کیے جائیں گے۔جبکہ ابھی تک ذرائع یہی بتا رہے ہیں کہ ریکوڈک شیئرز کی عالمی قیمت لگوالی گئی ہے، فی شیئر قدر کے بنچ مارک کا تعین ہوگیا ہے۔ تجارتی سودے کا ماڈل کیا ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ نگران وزیر اعظم نے بھی گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں عندیہ دیا تھا کہ دسمبر تک ریکوڈک میں سعودی عرب کو حصص کی فروخت کا معاہدے طے پاجائے گا۔ بہرحال اس معاملے میں آئی ایم ایف اور دیگر ادارے یقینا روڑے اٹکائیں گے، وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ پاکستان اُن کے چنگل سے آزاد ہو۔ کیوں کہ وہ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے پاکستان سے کئی ”آﺅٹ آف دی وے“ کام لیتے ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے ترکی کی طرز پر کام کرنا ہوگا۔ ترکی نے ایک طرف اسرائیل کو بھی تسلیم کیا ہوا ہے، جبکہ دوسری طرف وہ فلسطین کی حمایت بھی جاری رکھے ہوئے ہے، ایک طرف وہ چین روس کی صف میں بھی بیٹھا ہے، دوسری طرف وہ پورے یورپ میں اپنا مال بھی سپلائی کر رہا ہے۔ شاید اُسے ایسا ہی کرنا چاہیے،،، کیوں کہ ترک مضبوط ہوں گے تو ترکی خوشحال ہوگا۔ لہٰذااگر پاکستانی مضبوط ہوں گے تو پاکستان خوشحال ہوگا۔ لہٰذاکہنا صرف یہ ہے کہ چلیں یہ مان لیا کہ اس ملک میں بری چیزیں ہو رہی ہیں، مگر ہمیں جو اچھی چیزیں ہو رہی ہیں، انہیں بھی پھیلانا چاہیے، سراہنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنا چاہیے تاکہ اُمید نہ ٹوٹے،مایوسی نہ پھیلے، اُمید بندھی رہے۔ کیوں کہ ہم پاکستانی بری خبریں، سن سن کر تھک گئے ہیں، ہم بھی برا لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں، ہم یہ بھی لکھ لکھ کر تھک چکے ہیں کہ یہاں ہر سیاستدان بے ایمان ہے، ہر شخص ،ادارہ اور بیوروکریٹ کرپٹ ہے ، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ لہٰذاہماری سوچ اجتماعی ترقی کی جانب ہونی چاہیے، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ بہت کچھ ہونے کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا، ہم ابھی بھی کھڑے ہوسکتے ہیں، ابھی بھی اُمید زندہ ہے، ابھی بھی ہمیں اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اور آخری بات کہ پاکستان کے لیے کچھ اچھا کرنے کی ذمہ داری ہم سب پر ہے، عدلیہ پر ہے، فوج پر ہے، اسٹیبلشمنٹ پر ہے، سیاستدانوں پر ہے، اساتذہ پولیس پر ہے، بیوروکریسی پر ہے، الغرض سب کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے لیے کچھ اچھا کریں، کچھ اچھا سوچیں اور پاکستان کی نیک نامی کے لیے کچھ کریں، کیوں کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں!