پی سی بی عوام پر رحم کرے !

یہ ایک اچھی خبر ہے کہ پاکستان میں کرکٹ دو دہائیوں بعد ”نارمل“ ہورہی ہے، دو دہائیاں اس لیے کہا کیوں کہ نائن الیون کے بعد ہی ہم پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند ہونا شروع ہو گئے تھے، آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، بھارت اور بنگلہ دیش جیسی کرکٹ ٹیمیں پاکستان آنے سے انکار کر چکی تھیں۔ جبکہ سری لنکاکی ٹیم پر ہونے والے حملے نے تو کرکٹ کے دروازے ہم پر مکمل بند کر دیے تھے۔ پھر ایک عرصہ بعد ہم پر کرکٹ کے دروازے کھلے اور اب جبکہ جنوبی افریقہ جیسی بڑی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر ہے تو اس سے زیادہ خوشی کی بات نہیں ہوسکتی۔ لیکن اس کے بدلے میں پاکستان کے شہریوں کو ٹریفک جام، روڈز بند اور نو گو ایریا کی صورت میں جو اذیتیں اٹھانا پڑ رہی ہے، انہیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، حد تو یہ ہے کہ مستقبل میں اس پر کوئی کام بھی نہیں کیا جا رہا۔ اس حوالے سے پی سی بی سے پوچھیں تو وہ وزارت داخلہ پر ملبہ ڈالتی ہے جبکہ وزارت داخلہ پی سی بی کی غلط منصوبہ بندی کو آڑے ہاتھوں لیتی نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں غلط منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ ایک میچ کے لیے سٹیڈیم کے باہر کم و بیش 20لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہوتے ہیں، جبکہ جہاں ٹیمیں ٹھہرتی ہیں اُس کے اطراف میں بھی اتنی ہی تعداد متاثر ہونے والوں کی نظر آتی ہے۔ حالانکہ دنیا بھر میں کوئی پولیس افسر سڑک بند کرکے اپنی کارکردگی ثابت نہیں کرتا۔ کوئی افسر یہ نہیں کہتا کہ ہم دس سڑکیں بند کرکے دس لوگوں کو مرنے سے بچا سکتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ڈکیتی کے خوف سے دکان ہی بند کر دیں یا پھر ٹریفک حادثے کے خوف سے گاڑی چلانا ہی چھوڑ دیں۔ قارئین! حیرت ہوتی ہے کہ ہم جس چیز کی عادت بنا لیں اُسے اپنا حق سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے پی سی بی کو یہ عادت پڑ گئی ہے کہ اُس نے جہاں بھی میچ کروانے ہیں وہاں کے سٹیڈیم سے ملحقہ تمام روڈز کو بلاک کر دیا جائے، اب اگر اگلے 100سال کرکٹ ہونی ہے تو دیکھ لیجیے گا کہ یہی پریکٹس دہرائی جائے گی ! پاکستان میں کرکٹ بحال ہوئے5سال ہوگئے ہیں،اس عرصے میں پی سی بی نے کروڑوں روپے کمائے ہیں، میرے خیال میں پی سی بی کو Manageکر لینا چاہیے۔ لیکن ایسا لگتا نہیں ہے، یہاں تو چیئرمین لگوانے کے لیے اوپر کی سطح پر سب سے پہلے لابنگ ہوتی ہے، پھر چیئرمین اپنی مرضی کی نچلی ٹیم منتخب کرتا ہے، اور پھر ہمیشہ پی سی بی صرف عہدوں کی بندر بانٹ میں پھنسا ہوا دکھائی دےتا ہے۔ حالانکہ پی سی بی پیسے کمانے کے لیے نت نئے طریقے دریافت کرتا رہتا ہے لیکن مجال ہے کہ اُس نے عوام کے بارے میں ایک بار بھی سوچا ہو، یا نئے سٹیڈیم بنانے کے لیے کسی پارٹی سے رابطہ کیا ہو۔ یقین مانیں جب کسی کرکٹ ٹیم کا بھی پاکستان کا دورہ فائنل ہوتا ہے تو دل دھک سا جاتا ہے کہ اب ساری وہی پریکٹس دہرائی جائے گی، یعنی وہی گھنٹوں ٹریفک میں پھنسنا وغیرہ حالانکہ 2009ءمیں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد 2015ءمیں جب زمبابوے نے دورہ پاکستان کیا، اُس وقت پاکستانیوں نے برسوں بعد کرکٹ کا ”چہرہ“ ٹیلی وژن کی بجائے میدان میں دیکھاتھا۔اس لیے پاکستان میں کرکٹ کی بحالی کی خاطر بہت ساری پریشانیاں اور دکھ برداشت کئے لیکن چونکہ یہ پاکستان کیلئے تھا، اس لئے اسے خندہ پیشانی سے قبول کیا گیا۔ رکاوٹیں، سختیاں، ٹریفک جام اور بہت کچھ کرکٹ کیلئے سہنا پڑا۔ویسے ہم نے تو اُس دورے میں کبھی اُس شہید عبدالمجید پولیس اہلکار کی قربانی کو بھی کبھی Admitنہیں کیا نہ اُس کے اہل خانہ کو کبھی کسی تقریب میں مدعو کیاجس نے قربانی دے کر کرکٹ میچ کو بچایا۔ خیر پھر ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم پاکستان آئی، اس ٹیم نے بھی جہاں جہاں قدم رکھے اطراف میں پرندے بھی پر نہیں ما رسکتے تھے ، یہاں بھی عوام کو بند راستوں، رکاوٹوں اور ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑا۔مطلب ڈھائی کروڑ آبادی کے شہر کی تمام اہم سڑکیں بندکرکے عالمی کرکٹ کی واپسی کراچی والوں کو کتنی مہنگی پڑی۔ جس وقت نیشنل سٹیڈیم میں میچ دیکھنے والے 35ہزار تماشائی تالیاں بجا رہے تھے، اسی وقت کراچی کی ہر سڑک پر ٹریفک جام میں پھنسے تقریباً بیس لاکھ سے زائد شہری کھلاڑیوں اور منتظمین کی دل ہی دل میں بے حد ”تعریف“ کر رہے تھے۔ پھر اُس کے بعدبھی کئی ٹیمیں آتی گئیں اورپی ایس ایل کے میچز بھی یہاں ہوتے رہے مگر عوام کی مشکلات کے بارے میں کسی نے سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی اور عوام بے چارے انتظار کرتے رہے کہ شاید کہیں کوئی پیش رفت ہو جائے۔ بقول شاعر مرنے کے وقت بھی مری آنکھیں کھلی رہیں عادت جو پڑ گئی تھی ترے انتظار کی چلیں آغاز میں تو ایمرجنسی تھی تو سمجھ آتی تھی، کہ جہاں میچ ہو رہا ہے، یا جہاں ٹیم ٹھہری ہے، گنجان آباد شہر میں اُس کے دس کلومیٹر گردو نواح کی سڑکو ں کو بند کر دیا جائے۔ آپ موجودہ ساﺅتھ افریقہ پاکستان سیریز کو دیکھ لیں کراچی ٹیسٹ میں سڑکوں کا برا حال تھا، پھر راولپنڈی ٹیسٹ میں عوام رل گئے اور اب اگلا پورا ہفتہ لاہور کے شہری عذاب سے گزریں گے، بلکہ اب تو یہ حال ہے کہ جنوبی افریقہ کی ٹیسٹ ٹیم راولپنڈی اور ٹی ٹونٹی ٹیم لاہور میں ٹھہری ہے، اور پورا مال روڈ بلاک رہتا ہے۔ اور جب ان ٹیموں نے پریکٹس کے لیے بھی سٹیڈیم جانا ہوتا ہے تو ہوٹل سے سٹیڈیم تک تمام روٹس بند کر دیے جاتے ہیں۔ آج ساﺅتھ افریقہ کے ساتھ ٹیسٹ میچ ختم ہوا ہے، پورا ہفتہ پنڈی کے لوگوں نے کس کرب سے گزارا ہوگا یہ وہی جانتے ہیں۔راولپنڈی میں نائنتھ ایونیو چوک ، مری روڈ، فیض آباد، پیر ودھائی ، آئی جے پی جیسے روڈز بند کر دیے گئے، جہاں سے روزانہ لاکھوں گاڑیاں گزرتی ہیں، یہی حال گزشتہ ہفتے کراچی کا ہوا تھا جہاں نیشنل سٹیڈیم میں پورا پورا دن 6،6لائن ٹریفک جام رہا، گھنٹوں گاڑیاں بری طرح پھنسی رہیں، سکیورٹی کا یہ عالم تھا کہ کراچی نیشنل سٹیڈیم کے گردو نواح کا ایریا چھاﺅنی میں بدل چکا تھا۔ حالانکہ ایک وقت تھا کہ کراچی کی مہمان نوازی پوری دنیا میں مشہور تھی۔دنیائے کرکٹ کے عظیم کھلاڑی کراچی کے بازاروں میں شاپنگ کرتے نظر آتے تھے۔کراچی میں یہودی فیسٹیول بھی منعقد ہوتے تھے۔ 1982ءمیں نشاط سینما کے باہر لوگوں کا رش دیکھ کر دنیا حیران ہوتی تھی، یہ سینما2012ءمیں جلا دیا گیا تھا اور آج اس کے آثار دیکھ کر بھی دنیا حیران ہوتی ہے۔ پھر لاہور کی بات سن لیں ، لاہور کاٹریفک ہماری پولیس سے ویسے ہی نہیں سنبھالا جاتا اوپر سے قذافی اسٹیڈیم کے اردگرد کی تمام سڑکیں بند کردی جاتی ہیں۔ یہی نہیں ان سڑکوں کا ٹریفک دیگر سڑکوں اور چھوٹی چھوٹی گلیوں میں ”بے لگام “ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کہیں کوئی مناسب متبادل راستہ اوررہنمائی نہیں ملتی۔ سارا سارا دن عوام گاڑیوں کی طویل قطاروں میں شدید کرب اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ الغرض پاکستان میں اگر تفریح کا ماحول بن رہا ہے تو اُس میں اتنی زیادہ مس مینجمنٹ کیوں؟ کیا یہ تفریح ہے ؟ کیا کھیلوں کے بارے میں کسی حکومت نے سنجیدگی سے کبھی سوچا ہے؟ آپ مذکورہ بالا تینوں کرکٹ سٹیڈیم کے بارے میں سُن لیں کہ اُن کی معیاد بھی پوری ہو چکی ہے مگر ہم جدید سہولیات سے آراستہ نئے سٹیڈیم بنانے کے تیار نہیں ہیں۔ قذافی سٹیڈیم 1959ءیعنی آج سے 62 سال پہلے لاہور شہر سے باہر نہر کے قریب بنایا گیا تھا اس وقت اس کا نام لاہور سٹیڈیم تھا۔ 1974ئ میں اس کا نام بدل کر قذافی سٹیڈیم رکھا گیا کیونکہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقدہ لاہور میں لیبیا کے صدر معمر قذافی نے پاکستان کے نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کے حق کی بھرپور حمایت کی تھی۔ گزشتہ 62 سال میں لاہور نے جتنی تیز رفتاری سے ترقی کی ہے وہ سب کے سامنے ہے، اور قبضہ مافیا کا کردار بھی کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جس نے لاہور کے حقیقی حسن کو ہی برباد کر کے رکھ دیا اور تبھی آج ہم ٹریفک اور آلودگی کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب قذافی سٹیڈیم میں کوئی میچ ہوتا ہے تو تماشائیوں کی پارکنگ کے لیے ایف سی کالج یونیورسٹی میں چھٹی کا اعلان کر دیا جاتا ہے صرف اس لیے کہ یونیورسٹی کو قذافی سٹیڈیم کے پارکنگ لاٹ کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ویسے میرے خیال میں اگر یہ اقدام ٹھیک ہے تو ہمیں پنڈ کے چودھری کو سکول میں بھینس باندھنے سے نہیں روکنا چاہیے! خیر اب جبکہ قذافی سٹیڈیم لاہور کے وسط میں آچکا ہے توہم لاہور کے قذافی سٹیڈیم فیز2بنانے کی ضرورت ہے، جو شہر سے باہر کسی کھلی جگہ پر بنایا جائے اور 60 سال پرانے موجودہ سٹیڈیم کو کرکٹ اکیڈمی یا دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں۔ پھر کراچی کے نیشنل سٹیڈیم کی بات کر لیں یہ بھی 66سال پرانا ہے، یہ سٹیڈیم 1955ءمیں کرکٹ کی عالمی ٹیموں کی میزبانی شروع کر چکا تھا، یہاں پہلا ٹیسٹ کھیلنے بھارت کی ٹیم آئی تھی۔ نیشنل سٹیڈیم شہر کی آبادی سے باہر بنایا گیا تھا لیکن گلشن اقبال اور گلستان جوہر آباد ہونے کے بعد جب یونیورسٹی روڈ اور اطراف کے علاقے ویران سے گنجان ہو گئے تو نیشنل سٹیڈیم خود بخود شہر کے مرکز میں آگیا۔ جبکہ راولپنڈی سٹیڈیم کی تاریخ زیادہ پرانی تو نہیں مگر زیادہ نئی بھی نہیں ہے، اسے بنے ہوئے 37سال ہوگئے ہیںیہ سٹیڈیم بھی آہستہ آہستہ آبادیوں کے درمیان میں آچکا ہے۔ بہرکیف اس مسئلے کا آسان حل ایک تو یہ ہے کہ سٹیڈیم کو شہری آبادی سے باہر لے جایا جائے ، اس کے قریب ہی غیر ملکی کھلاڑیوں کی رہائش کیلئے ہوٹل بھی تعمیر کیا جائے تاکہ کھلاڑیوں اورعوام کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، یا اگر فوری حل درکار ہے تو سٹیڈیم کے اندر یا ملحقہ اطراف میں ہی چالیس پچاس کمروں پر مشتمل گیسٹ ہاﺅس بنا لیں یا سٹیڈیم کے اندر ہی ہوسٹل کو اپ گریڈ کریں، یا پھر ٹیموں کو بذریعہ ہیلی کاپٹر سٹیڈیم میں لے کر جائیں تاکہ عوام اس ایونٹ کو انجوائے کریںاور کسی قسم کی پریشانی سے نہ گزریں۔ اور اب جبکہ موجودہ سیریز کے چند دن بعد PSL-6کا آغاز ہو رہا ہے تو میرے خیال میں ان بڑے شہروں میں یقینا کرفیو کا سما نہیں باندھا جائے گا اور شہریوں کو ریلیف دیا جائے گا تاکہ عالمی کرکٹ ٹیموں اور کھلاڑیوں کا ”استقبال“ کرتے کرتے عوام کو اس کھیل سے نفرت نہ ہو جائے!