ضمنی انتخابات ”ہمارا ایکسپائرڈ سسٹم “!

جہاں دیکھیں، جس طرف دیکھیں تناﺅ بڑھتا جا رہا ہے، حالات نارمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے، کہیں کرپشن کے مسئلے، کہیںسیاسی گرفتاریوں کے رولے، کہیںسینیٹ الیکشن میں چالبازیاں تو کبھی ضمنی انتخابات میں دھاندلیوں کے چکر! ایسا لگتا ہے جیسے پورا ملک مسائل، منافقت اور بے ایمانی کی دلدل میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ شاید سیاستدانوں و حکمرانوں کے قابل اعتراض اقدامات نے لوگوں کو یہ بات کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ اس وقت نہ آئین محفوظ ہے، نہ وفاقی قوانین محفوظ ہیں اور نہ ماضی میں مختلف صوبوں کے درمیان ہونیوالے فیصلے محفوظ ہیں مگر زیادہ دکھ یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ معاملے کے سلجھاﺅ کی طرف کوئی نہیں بڑھ رہا، بلکہ معاملات کو گھمبیر سے گھمبیر بنایاجا رہا ہے۔ ابھی گزشتہ ہفتے یعنی 19فروری کو ہونے والے ضمنی انتخابات ہی کو لے لیں، کیا خوب جگ ہنسائی ہو رہی ہے، کیا خوب قومی اداروں کو رگڑا لگایا جا رہا ہے۔ حیران ہوں کہ یہ سب چیزیں کیوں اور اس قدر ایکسپوز کیوں رہی ہیں؟ خیر حالیہ ضمنی انتخابات کی اگر بات کریں تو گزشتہ جمعہ کو پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں قومی اسمبلی اور صوبائی حلقوں کی دو دو نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لئے ووٹنگ ہوئی، جس میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو دو حلقوں میں شکست اور ایک میں کامیابی حاصل ہوئی ہے جبکہ سیالکوٹ کے قومی اسمبلی کے حلقہ 75 کے نتائج الیکشن کمیشن نے روک رکھے ہیں کیونکہ اس حلقے کے 360میں سے 20 پولنگ سٹیشنوں کے نتائج میں الیکشن کمیشن کو ردوبدل کا شبہ ہے۔4نشستوں پر ان ضمنی معرکوں میں اگر اپوزیشن کی پوری قیادت نے اپنی تمام توانائیاں جھونک رکھی تھیں تو پوری ریاستی مشینری بھی وزیروں مشیروں کے ہمراہ ان حلقوں میں موجود تھی۔ سب سے زیادہ ہنگامہ این اے 75سیالکوٹ اور پی پی 51وزیر آباد کی نشستوں پر رہا۔ این اے 75 میں آنے والے علاقے ڈسکہ میں متعدد مقامات پر جھگڑوں اور فائرنگ کے واقعات ہوئے جن میں دو افراد مارے گئے۔ فائرنگ کرتے ہوئے موٹر سائیکل سوار کس کے آدمی تھے؟ یہ ماننے کے لیے ہی کوئی تیار نہیں۔ اور اس سے بھی اہم مسئلہ یہ کہ اس الیکشن میں قومی اداروں کو جو سبکی اُٹھانا پڑی اور جو قومی اداروں کی عزت پر جو سوالات اُٹھے وہ الگ بحث ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری ریاست اس قابل نہیں ہوئی کہ ہم کسی ایک حلقے کے الیکشن کو صحیح انداز میں بطور نمونہ عوام کے سامنے پیش کر سکیں؟ اس معاملے میں سب سے زیادہ سوال تو ریاستی ذمہ داران یعنی حکومت کو کرنے چاہیئں کہ اُن کی رٹ کہاں تھی؟ حد تو یہ تھی کہ حکمران اس معاملے میں خود شکایت کرتے نظر آئے کہ دھاندلی ہوئی ہے، حالانکہ معذرت کے ساتھ اڑھائی سال گزرنے کے باوجود پنجاب کی صوبائی حکومت کی سول انتظامیہ پر کوئی گرفت ہے نہ اپنے کارکنوں حتیٰ کہ پولنگ ایجنٹس کو تحفظ فراہم کرنے کی اہلیت اور نہ فریق مخالف سے قانون کی پابندی کرانے کی صلاحیت۔ مسلم لیگ ن تو روز اوّل سے اس الزام کا سامنا کر رہی ہے کہ وہ عام انتخابات دھاندلی سے جیتتی ہے اور بیورو کریسی میں اس کے وفادار افسران و اہلکار بھر پور تعاون کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے توڑ کیوں نہیں کیا اور الیکشن کمیشن کو ایسا عملہ فراہم کرنے میں کیوں ناکام رہی جو مسلم لیگ (ن) کے بجائے ریاست کا وفادار اور شفاف انتخاب کرانے کا اہل ہو۔ ویسے میری ذاتی رائے میںحکومت کو الیکشن کا سارا سسٹم ہی ختم کردینا چاہیے، کیوں کہ جس طرح کے الیکشن آرگنائز کیے جا رہے ہیں، یا جس طرح کا الیکشن سسٹم چلا یا جارہا ہے اس سے تو بہتر ہے، جمہوری نظام کو ہی ختم کرکے عدالت عظمیٰ سے ”رائے“ لے لینی چاہیے کسے اقتدار میں آنا چاہیے، کیوں کہ ہم اور ہمارے ادارے تو اس قابل رہے نہیں! اور ہمارے سیاسی ادارے ویسے بھی تو اس قدر کمزور ہو چکے ہیں کہ اپنا ہر مسئلہ سپریم کورٹ میں لے جاتے ہیں جیسے حال ہی میں یہ مسئلہ سپریم کورٹ آف پاکستان طے کر رہی ہے کہ سینیٹ میں الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں گے یا خفیہ بیلٹ پر ہی انحصار کرنا ہوگا۔ بنیادی طور پر یہ سیاست دانوں کا آپس میں مل بیٹھ کر طے کرنے کا معاملہ تھا جسے بد قسمتی سے سپریم کورٹ میں لے جایا گیا۔پھر کئی سیاستدانوں کے دوہری شہریت کے کیس عدالتوں میں چل رہے ہیں، پھر کئی قوانین میں ترامیم کے حوالے سے بھی عدالت عظمیٰ سے رابطہ کیا جا تا رہتا ہے اس لیے میرے خیال میں یہ بہترین آئیڈیا ہے کہ الیکشن وغیرہ کے نظام کو چھوڑیں! یہ نہایت فرسودہ، جان لیوا، دو نمبر اور ایکسپائرڈ نظام ہے جس پر مستقبل میں 2کیا 200افراد بھی جان سے جا سکتے ہیں! اس لیے عدالتوں سے بندے یا لیڈر منتخب کروائیں اور حکومت کریں، اللہ اللہ خیرصلا۔ یقین مانیں الیکشن کروانے کے موجودہ نظام سے مجھے لگتا ہے کہ یہ ملکی اداروں کو نگل جائے گا، شاید اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم بطور انسان بطور قوم اور بطور پارٹی اتنے کم ظرف ہو چکے ہیں کہ ہمیں دوسرے کی کامیابی پسند ہی نہیں ہے، اسی لیے ہم ایک دوسرے کی حقیقی کامیابی میں بھی کیڑے نکالنے شروع کردیتے ہیں، حالانکہ دنیا میں ہارا ہوا اُمیدوار جیتنے والے کو مبارکباد دیتا ہے، جس سے ”سیاست“ کا سینہ چوڑا ہوتا ہے۔ مگر یہاں ایک دوسرے کے لیے کفن تیار کرنے کی باتیں ہوتی ہیں۔ اور یہ باتیں آج کی نہیں ہیں بلکہ70کی دہائی سے لے کر آج تک کسی ایک جماعت نے دل سے الیکشن میں مخالف پارٹی کی کامیابی کو تسلیم نہیں کیا۔ اور پھر متحدہ اپوزیشن کو دیکھ لیں اس میں 2بڑی سیاسی جماعتیں الیکشن میں دھاندلی کے جتنے الزام ایک دوسرے پر لگا چکی ہیں؟ کیا سارا ماضی انہی الزامات سے نہیں بھرا ہوا؟ 90کے عشرے میں لاہور کے حلقہ این اے 99کا انتخاب کسے یاد نہیں۔ مسلم لیگ ن صوبے میں برسر اقتدار تھی جبکہ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ دونوں جماعتوں نے حلقے کے ووٹروں کو مائل کرنے کے لئے سرکاری فنڈز کا بے تحاشہ استعمال کیا۔ سرکاری وسائل استعمال کر کے نشست جیتنے کی یہ روایت تب سے پختہ ہو گئی۔ مسلم لیگ ن کے گزشتہ دور حکومت تک ایسے درجنوں ضمنی انتخابات ہوئے جہاں سرکاری جماعت کے امیدواروں نے ترقیاتی کاموں، نوکریوں اور دیگر ترغیبات کے ذریعے ووٹ حاصل کئے۔ دور کیوں جائیں تحریک انصاف کی جانب سے دھرنے کے بعد جب چار حلقے کھولے گئے تو اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے ووٹوں میں بے ضابطگی پائی گئی۔ دوبارہ انتخابات ہوئے تو ایک بار پھر پانی کی طرح سرکاری وسائل بہائے گئے۔ یہ مہنگا ترین ضمنی انتخاب قرار پایا۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی ہم نے یہی کچھ دیکھا، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی الیکشن کمیشن کو بطور ادارہ مضبوط کرنے میں ناکام رہی، یہ ادارہ عشروں سے کام کر رہا ہے لیکن ابھی تک اپنی حیثیت منوا نہیں سکا۔ ہر انتخاب کے موقع پر انتخابی خرابیوں اور کوتاہیوں سے انتخابی عمل کی ساکھ خراب ہوتی ہے لیکن الیکشن کمیشن بے بسی ظاہر کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتا۔ الیکشن کمیشن کو کم از کم حلقے سے باہر کے لوگوں کی انتخابی سرگرمیوں میں شرکت پر پابندی لگا دینی چاہیے مگر آج تک نہیں لگائی گئی، کیوں کہ باہر سے آنے والی قیادتیں جیت کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ استعمال کرتی ہیں۔ بہرکیف آپ جتنا مرضی رونا رو لیں ، جتنی مرضی تجاویز دے لیں، جتنے مرضی جتن کر لیں لیکن جب تک سیاسی جماعتوں یا اداروں کا اپنا نظام مضبوط نہیں ہوگا تب تک ہم کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں، جبکہ پاکستان میں اس کے برعکس سیاسی جماعتوں کا سسٹم، سیاستدانوں کی اپنی کرتوتوں کی وجہ سے کمزور ہو چکا ہے، بالکل اُسی طرح جس طرح عدلیہ وکیلوں کی وجہ سے کمزور ہوچکی ہے، جس طرح یونیورسٹیاں طالب علموں کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہیں ، جس طرح پی آئی اے اُس کے ملازمین کی وجہ سے کمزور ہو چکا ہے، جس طرح سٹیل ملز اُس کے ورکروں کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، جس طرح ریلوے اُس کے افسران کی بدولت تباہی کی جانب گامزن ہے، جس طرح سی پیک پورے کا پورا چین کے حوالے کردیا گیا ہے، یا ہمارے سابق حکمرانوں کی بدولت گوادر جیسا عظیم پراجیکٹ بھی چین کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ الغرض جب سسٹم کمزور ہو جائے اور لوگ طاقتور بن جائیں تو ملک کمزور ہو جاتے ہیں، ملک میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں بن جاتی ہیں ۔ عدالتوں میں جائیں تو وکیل کیس ٹھیکے پر لے رہے ہوتے ہیں، عدالتوں کی بولیاں لگ رہی ہوتی ہیں،ہر تھانے کی بولی الگ لگتی ہے اور پولیس افسر کی بولی الگ سے اُٹھائی جاتی ہے، پٹوار خانے میں جائیں تو وہاں پٹواری علی الاعلان پیسے کی ڈیمانڈ کرتا ہے، ایل ڈی اے میں چلے جائیں تو وہاں فائلوں کو پہیے لگانا پڑتے ہیں ، سرکاری ہسپتالوں میں چلے جائیں تو وہاں الگ ہی ریاست نظر آتی ہے ۔بس اڈوں پر چلے جائیں وہاں الگ ہی نظام قائم ہوگا، ہر نجی ادارے کا اپنا نظام قائم ہے۔ یعنی یہاں ہر طاقتور شخص کی اپنی ریاست قائم ہے، لیکن اس سارے عمل میں غریب آدمی کہاں کھڑا ہے، کسی کو علم نہیں،درحقیت اس فرسودہ نظام سے باہر نکل کر ہی ہم صحیح معنوں میں ترقی کر سکتے ہیں ورنہ ہم بالکل یونہی لڑتے جھگڑتے رہیں گے، ایک دوسرے کے وجود کو برداشت نہیں کریں گے، ایک دوسرے کے بندے مارتے رہےں گے اور نتیجے میں ریاست مزید کمزور تر ہوتی چلی جائے گی!