کیا ریاست ماں کی طرح نہیں ہوتی؟

جب بھی بلوچستان میں امن کی ایک ہلکی سی اُمید نظر آتی ہے تو کہیں نہ کہیں سے چنگاری سُلگھا دی جاتی ہے، یہ چنگاری شاید دشمن ملک کی طرف سے یا ملک دشمن عناصر کی طرف سے پھینکی جاتی ہے، مگر استعمال ہمارے لوگ ہو جاتے ہیں۔ جیسے رواں ہفتے ہی خبر آئی تھی کہ بلوچ نیشنل آرمی (بی این اے) نامی کالعدم عسکریت پسند تنظیم کے سربراہ نے ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال دیے ہیں،،، اور یعنی بی این اے کے سربراہ سرفراز بنگلزئی عرف مرید بلوچ اپنے70ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوگئے۔ جس سے بی این اے نامی تنظیم عملاً تقریباً ختم یا بہت کمزور ہوگئی ہے۔ یہ پاک فوج کے لیے واقعی بڑی کامیابی ہے مگر ساتھ ہی ہم سب نے دیکھا کہ 6دسمبر سے کوئٹہ سے روانہ ہوئے ”بلوچ یکجہتی مارچ“ جو رواں ہفتے بدھ کی رات کو اسلام آباد پہنچا تھا، پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا، جس کی خبر عالمی خبررساں ایجنسیوں نے خوب اُٹھائی اور ایک مرتبہ پھر پاکستان کو بلوچستان کے حوالے سے خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ بظاہر تو یہ مارچ لاپتہ افراد کی بازیابی، ماورائے عدالت کارروائیوں کے خاتمے اور بالاچ بلوچ کی ہلاکت پر جوڈیشل انکوائری کے مطالبات کے ساتھ وفاقی دارالحکومت پہنچا ہے، مگر اس کے پس پردہ حقائق کیا ہیں؟ اس حوالے سے فی الوقت تو کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر کیا نہتی اور پرامن بلوچ ما¶ں، بہنوں پر لاٹھی اٹھانا ریاست کے کھوکھلا ہونے کا ثبوت نہیں ہے؟ کیا ریاست گرفتاریوں اور تشدد سے آج تک کسی کو اُس کے مقصد سے ہٹا سکی ہے جو اب یہ کام ہونا تھا؟ اطلاعات کے مطابق ابھی تک اسلام آباد پولیس کی حراست میں 226افراد موجود ہیں، جنہیں نگران حکومت اور عدالتوں کے کہنے کے باوجود بھی نہیں چھوڑا جارہا۔ لہٰذاسوال یہ ہے کہ جب بھی ریاست پاکستان امن وسلامتی کے فروغ کیلئے کوششیں کرتی ہے تو ملک دشمن عناصر فوری فعال ہوکر اپنا منفی کردار ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور پھر ریاست بذات خود ”نان ایشوز“ کو ”ایشوز“ میں تبدیل کرکے اپنا خود مذاق بنواتی ہے۔ مثلاََ 6دسمبر سے شروع ہونے والے اس مارچ کا عام پاکستانی تو دور کئی حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والوں کو بھی علم نہیں تھا، مگر سوشل میڈیا کے اس دور میں ریاست نے ان بلوچی ماﺅں پر ”حملہ“ کرکے اپنے لیے خود مسائل کھڑے کر لیے۔ حالانکہ ریاست یہ بات جانتی ہے کہ بلوچستان، گلگت بلتستان، خواتین کے حقوق ، اقلیتیں یا علیحدگی پسند تنظیمیں یا اُن کے سربراہان کو جو وطن عزیز کے خلاف کام کرتے ہیں، اُنہیں دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف کام کرنے والی لابیاں خوب اُٹھاتی اور پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ میرے خیال میں اگر اُنہیں پرامن احتجاج کرنے دیا جاتا تو اس احتجاج میں شریک چند سو افراد کی اتنی اہمیت نہ ہوتی۔ لیکن ہم تو ہم ہیں ،،، حیراں ہوں دل کو رو¶ں کہ پِیٹوں جِگر کو میں مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں جبکہ دوسری جانب اگر ہم ان احتجاج کرنے والوں کے مطالبات کی طرف دیکھیں تو گمشدہ افراد کے حوالے سے اعداد و شمار کے مطابق یعنی 2011سے قائم کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق رجسٹرڈ کیسز کی تعداد 10014 فیصلہ شدہ کیسز کی تعداد 7749جبکہ بقایا کیسز 2265کی گمشدگی ابھی ثابت ہی نہیں ہوئی۔ عجیب بات ہے کہ ان مزدوروں کیلئے کوئی احتجاج نہیں کیا گیا جو صرف مزدوری کیلئے تربت آئے تھے، ان کو شہید کیا گیا۔ لیکن بدلے میں ان احتجاج کرنے والی بچیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بسوں میں ڈالا گیا، حالانکہ جمہوری نظام میں احتجاج ہر کسی کا آئینی اور قانونی حق ہے۔اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاست تو ماں ہوتی ہے،،، اور ماں اپنے تمام بگڑے اور سادھو بچوں کو ایک ساتھ پالتی ہے،،، اُن کے ناز اُٹھاتی ہے،،، اور اگر کہیں یہ آپس میں جھگڑ پڑیں تو انہیں اپنے سے جدا نہیں کرتی بلکہ ان کے آپسی تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ اقدامات اُٹھاتی ہے۔ لیکن افسوس! موجودہ ریاست کے فیصلہ کرنے والے انتہائی ناقص منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں،،، وہ نہ تو مخصوص سیاسی جماعتوں کے لیے موزوں ثابت ہو رہے ہیں اور نہ ہی مظلوم طبقات کے لیے۔ یقین مانیں ہم نے مشرف و ضیاءکا مارشل لاءدیکھا، ایمرجنسی دیکھی اور اُس کی حکومت دیکھی، لاٹھیاں اور گولیاں چلتے دیکھیں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو ایک دوسرے کا گریبان پھاڑتے دیکھا، پھر زرداری کی کرپٹ ترین حکومت دیکھی جس کے آخری دنوں میں اتوار کو بنک کھلوا کر ٹرانزیکشن کی جاتی تھیں۔ افتخار چوہدری کی عدلیہ بحالی تحریک دیکھی، پھر ن لیگ کو اس تحریک کا پرچار کرتے دیکھا اور سوچنے پر مجبور ہوئے کہ کیا یہ وہی ن لیگ ہے جس نے 90کی دہائی میں اسی کورٹ پر حملہ بھی کیا تھا۔ پھر ہم یہاں ہر روز دھماکے ہوتے دیکھے،،، سینکڑوں لاشوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ سب کچھ اسی ملک کی عوام نے برداشت کیا۔ اور پھر 9مئی کے واقعات بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ لیکن اس واقعہ کے بعد ”ماں“ نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ جس کے بعد اُس کے بچوں کے ساتھ واقعتا بہت بُرا کیا جانے لگا۔ پولیس جس کے گھر چاہتی ہے ، دھاوا بولتی ہے،،، اور چادر اور چار دیواری کا خیال رکھے بغیر کارروائی کرتی ہے؟ کیا ریاست ایسی ہوتی ہے؟ حالانکہ فرانس جیسے ترقی یافتہ ملک میں 2019کے مہنگائی کے خلاف پرتشدد احتجاج کے بعد پولیس کی اتنی جرا¿ت نہ ہو سکی کہ وہ کسی بھی شہری کے گھر چھاپہ مار سکیں۔ بلکہ جو گرفتار ہوئے اُنہیں بھی 72گھنٹے کے اندر رہا کر دیا گیا۔ لیکن اس کے برعکس یہاں آج کل عوام کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے اُس کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ مخصوص جماعت کے اُمیدواروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے،،، وہ 8فروری کے الیکشن کے لیے کاغذات جمع کروانے پہنچتے ہیں تواُنہیں دھر لیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں یہ بات ہمارے حکمرانوں ، فیصلہ کرنے والی قوتوں اور بیوروکریسی کو سمجھنا چاہیے کہ ریاست کا کردار ایک ماں کی طرح ہوتا ہے۔ ریاست کی طاقت عوام کو دبانے یا غیر ضروری طور پابند بنانے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ یہ طاقت عوامی مفاد میں استعمال کرکے عوام کو آسانیاں اور آزادیاں دینے کے لیے ہوتی ہے۔ میرے خیال میں اگر ریاست ابھی نندن کو جو پاکستان پر حملہ کرتا ہے، کو 24گھنٹے کے اندر رہا کر سکتی ہے، کلبھوشن جو پاکستان میں بم دھماکے کرواتا رہا، کے ساتھ ابھی تک نارمل سلوک کر رہی ہے، یا ریمنڈ ڈیوس نے ہمارے شہریوں کی جان لی، لیکن ہم نے اُس پر بھی رحم کھایااور امریکا کے حوالے کر دیا۔ تو ریاست اپنے شہریوں پر ایسی ہمدردی دکھانے سے کیوں قاصر ہے؟ کیوں بلوچی خواتین پر ظلم کیا گیا؟ اور کیوں ایک خاص جماعت کے کارکنوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے ؟ کہ ایسا کرنے ہمارا امیج کیا بن رہا ہے؟ اس وقت بھی 60سے زائد امریکی سینیٹر نے حکومتی اقدامات کی مذمت کی ہے۔ وہ یقینا ہمارے ہاں سے وائرل ہونے والی ویڈیوز ضرور دیکھتے ہوں گے جس میں خواتین کو گھسیٹا اور بچوں کو ڈرایا جا رہا ہے۔ وہ یہ بھی دیکھتے ہوں گے کہ اگر کسی شخص کو گرفتار کرنا مقصود ہے تو ساتھ اُس کی بیوی کو بھی پکڑا جا رہا ہے، اُس کی بھانجی، بھتیجیوں ، مطلب جو کوئی ہاتھ لگ رہا ہے، اُسے گرفتار کیا جا رہا ہے۔ مطلب! دنیا کی نظر میں ریاست نے اپنے کردار کو مشکوک بنا دیا ہے۔ بہرکیف پولیس جو ریاست کی نمائندہ ہوتی ہے، اُس نے اخلاقیات کی بالکل پرواہ نہیں کی۔لہٰذااسی میں بھلائی ہے کہ عوام کے ساتھ اتنا شدید غصہ نہ کریں، اُنہیں مزید متنفر نہ کریں، ویسے بادی النظر میں ریاست نے کبھی اتنا غصہ بھارت یا افغانستان پر نہیں کیا جتنا وہ اپنے شہریوں کے ساتھ کر رہی ہے۔ اور ویسے بھی اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ریاست کے مقابلے میں عام شہری یا عام سیاسی و مذہبی جماعت خواہ وہ ایم کیو ایم کی صورت میں ہو، ن لیگ کی صورت میں ہو، پیپلزپارٹی کی صورت میں ہو، تحریک لبیک پاکستان کی شکل میں ہو یا تحریک انصاف کی شکل میں ہو ، ہمیشہ کمزور ہوتی ہے اور ریاست ہمیشہ طاقتور ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت سے دست بستہ گزارش ہے کہ گرفتار شدہ افراد پر جرمانے عائد کرکے اُنہیں رہاکیا جائے،اُن خواتین اور بچوں کو باعزت بری کیا جائے جن کے پیارے پہلے سے ہی لاپتہ ہیں۔ ....کمزور کو معاف کرنے کے حوالے سے ہمارا دین بھی واضح احکام دیتا ہے جیسے حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے۔ جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطاکرتا ہے۔اور پھر کسی دانا کا قول ہے کہ اگر لوگوں کو عزت دینا اور معاف کرنا تمہاری کمزوری ہے تو تم دنیا کے سب سے طاقتور انسان ہو۔ بہرحال یہ سب پاکستانی شہری ہیں ان سب کی اصلاح ہو سکتی ہے، پوری قوم کی اصلاح کریں، اگر کہیں پشتون ناراض ہیں تو اُنہیں ایجوکیٹ کریں، بلوچی ناراض ہیں تو اُنہیں پہاڑوں سے نیچے لے کر آئیں، ایم آرڈ ی تحریک کے بعد سندھی بھی ہم سے ناراض ہوئے۔ 1983ءکے بعد تو سندھ میں رات کو سفر کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ ابھی بلوچستان میں بھی یہی حال ہے۔ وہاں مسنگ پرسن کی تعداد سپریم کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے بار بار کہنے کے باوجود اُن کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ تبھی عوام بھی متنفر ہو چکی ہے۔ آپ اس سے پیچھے چلے جائیں ، سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت بھی ریاست نے ماں کا کردار ادا نہیں کیا تھا۔ تبھی عوام میں غم و غصہ اور بے چینی جیسی کیفیت پائی جاتی تھی۔ لہٰذاریاست ایک ماں کا کردار ادا کرے اور ریاست کو مزید بکھرنے سے بچائے !