مبارک ہو! تاحیات نااہلی ختم ہوگئی!

اس وقت جتنا موسم سرد ہے، اُتنا ہی سیاسی طوفان مچا ہوا ہے،،، ویسے تو سیاسی طوفان ملک کے لیے اچھا ہوتا ہے، ہر طرف گہما گہمی ہوتی ہے، سردی ہو، گرمی ہو، بارش ہو،،، کارکن سڑکوں پر ہی نظر آتے ہیں مگر یہ سیاسی طوفان سڑکوں پر نہیں بلکہ اداروں میں دیکھا جا رہا ہے،،، کہیں کاغذات نامزدگی بحال کیے جا رہے ہیں تو کہیں مسترد۔ کہیں الیکشن کمیشن میں مختلف قسم کی خبریں آرہی ہیں تو کہیں زبردست دباﺅ کی خبریں باز گشت کر ہی ہیں۔ ایسے میں جب الیکشن کو ایک ماہ بھی نہیں رہ گیا تو سپریم کورٹ جیسے معتبر ادارے میں بھی ججز دباﺅ میں نظر آرہے ہیں۔ اور آج ہی کی خبر ہے کہ جسٹس مظاہر علی نقوی نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ پھر یہی نہیں بلکہ سپریم کورٹ چاہ رہی ہے کہ الیکشن 8فروری کو ہی ہوں اور اس میں موجود تمام رکاوٹیں بھی دور کر رہی ہے۔ بلکہ سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بینچ نے ماضی میں قائم ایک پانچ رکنی بینچ کے فیصلے میں پائے جانے والے سقم کو دور کرتے ہوئے سیاستدانوں کی عوامی عہدوں کے لئے تاحیات نااہلی ختم کرکے تاریخ رقم کردی ہے جس کے قومی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ فوری طور پر اس کا فائدہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے قائد جہانگیر ترین کو پہنچے گا جنہیں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا۔یہ فیصلہ چند روز قبل ہی ”محفوظ“ کیا گیا تھا۔ جس پر 110فیصد یقین یہ تھا کہ یہی فیصلہ آئے گا اور نواز و جہانگیر ترین کو ریلیف مل جائے گا، کیوں کہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جس فیصلے کو محفوظ کیا جائے اُس میں ہمیشہ درخواست گزار ہی کو ریلیف ملتا ہے۔ اسے آپ اتفاق کہہ لیں یا کچھ اور مگر یہاں ایسے ہی ہوتا ہے۔ خیر اب اس پر مبارکباد دیں یا ماتم کریں یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ہم نظریہ ضرورت سے باہر کب نکلیں گے؟ کیوں کہ یقین مانیں یہ یقین کرنا ہی مشکل ہو چکا ہے کہ یا تو فیصلہ کرنے والے اُس وقت صحیح تھے، یا آج والے صحیح ہیں، لیکن ان دونوں معاملات میں ہی شکوک و شبہات موجود ہیں۔ یہاں یہ سب کچھ ”راج نیتی“ کا کھیل لگ رہا ہے۔ اور جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مصداق سب کچھ ہو رہا ہے۔ آپ اسے جو مرضی کہیں مگر کم از کم میں اسے جمہوریت کا حسن قطعاََ نہیں کہوں گا۔ بلکہ معذرت کے ساتھ میں اسے بغاوت کا آغاز سمجھوں گا کیوں کہ جب معاشرے میں عدالتیں اور ادارے کھلے عام اشرافیہ کے گھر کی باندی بن جائیں تو پھر عوام میں مایوسی پھیلتی ہے،، اور پھر جب یہ مایوسی نفرت میں بدلتی ہے تو بارود بن جاتی ہے، ،، جسے پھٹنے میں کچھ اور نہیں بلکہ صرف ایک چنگاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر آپ اس بغاوت کو جتنا مرضی کچل لیں یہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔۔۔ ہاں! وقتی طور پر اس کا خاتمہ کیا جاتا ہے مگر یہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ طاقتور کے خلاف بغاوت اور جنگ کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ جس نے بھی اس قسم کی کوشش کی‘ اس نے منہ کی کھائی۔ جذبات کے اپنے رنگ ہوتے ہیں مگر طاقت کے اصول الگ ہوتے ہیں۔ جنگیں اگر محض جذبات، غصے اور نفرت سے جیتی جاتیں تو دنیا میں کوئی بغاوت ناکام نہ ہوتی۔ جنگ جیتنے کا ایک ہی فارمولا ہے‘ وہ یہ کہ بہرصورت اپنی قوت میں اضافہ کیا جائے۔آپ اس کی مثال ماضی سے لے لیں، 1191ءمیں ترائن کی پہلی جنگ ہوئی۔ شہاب الدین غوری کے پاس چند ہزار سپاہی تھے اور پرتھوی راج چوہان کے ساتھ لاکھوں کی فوج تھی۔ دونوں کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ راجپوتوں کی فوج نے دیکھتے ہی دیکھتے شہاب الدین غوری کے لشکر کو کچل ڈالا۔ خود شہباب الدین غوری کو زخمی حالت میں میدانِ جنگ سے فرار ہونا پڑا،،، مگر یہ بغاوت رکی نہیں تھی۔ پھر مغلوں کے پہلے چھ بادشاہوں میں سب سے کمزور حکومت ہمایوں کی تھی۔ اس کے بھائیوں نے جب بھی بغاوت کی انہیں بری طرح شکست ہوئی کیونکہ یہ جنگ طاقت کے اصولوں کے مطابق نہیں تھی۔ خیر بات ہو رہی تھی نااہلی کو ”اہلی“ میں بدلنے کی تو یقینا یہ سسٹم کے منہ پر تمانچہ ہے،کیوںکہ ایک طرف ایک گروہ کے لیے راسستے ہموار کیے جا رہے ہیں جبکہ دوسرے گروہ کے لیے راستے میں کانٹے بچھائے جا رہے ہیں یعنی ایک طرف نااہلیاں ختم اور دوسری طرف اہلیتوں کو بھی چلینج کیا جارہا ہے۔ کہیں سارے آپشن کھلے‘ راستے ہموار اور ماحول سازگار ہے تو کہیں لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ حسرت بنتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنا مذاق اُڑوانے کے بجائے مستحکم طرز حکمرانی کو اپنا چاہیے۔ جس میں تمام ادارے اپنا کام کریں اور کوئی ادارہ اپنی حدود سے باہر نہ نکلے۔ بھارت اسی اصول پر عمل کرکے آج ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے، وہ دنیا میں اپنے آپ کو منوا رہا ہے، پاکستان کے خلاف لابنگ کررہا ہے، دوسرے لفظوں میں اگر کہیں تو اُس نے پاکستان کو نتھ ڈال دی ہے۔ کیوں کہ اُس کی ہر لابی عالمی سطح پر کامیاب ہو رہی ہے۔ بہرکیف نواز شریف اور جہانگیر ترین مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ایک بار پھر اُنہیں عوامی ”خدمت“ کا موقع ملے گا۔ لیکن اس بار اُنہیں ایک نصیحت ضرور کروں گا کہ صاف نیت ہی سے ملک آگے بڑھ سکتا ہے، خدارا! بہت ہوگیا ۔ اس سسٹم کی بہتری کے لیے اگر وہ کام کریں گے تو یقینا اس میں سب کی بھلائی ہے۔ ورنہ دورِ آمریت سے لے کر زبردست جمہوری دور میں بھی ہر ادارہ نظریہ ضرورت کے تحت استعمال ہوتا آیا ہے۔ اور آج بھی ہو رہا ہے۔ بہرحال نظریہ ضرورت کے تحت کسی نہ کسی ڈھکوسلے اور ڈھونگ کو حکمرانی کا جواز بنا کر شوقِ حکمرانی ضرور پورے ہوتے رہے ہیں لیکن اس بار تو حد ہی ہوگئی ہے۔ لہٰذاسب کو مل کر الیکشن کمیشن کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے، 8فروری کے الیکشن کو فری اینڈ فیئر الیکشن میں تبدیل کرنا ہوگا۔ کیوں کہ انتخابات جمہوریت کی اساس ہوتے ہیں اور جمہوریت ریاست کی بنیاد ہے۔ الیکشن کمیشن وہ آئینی ادراہ ہے جس کے ذمے الیکشن کا انتظام ہے، اور کچھ نہ سہی پچھلی کئی دہائیوں سے باقاعدہ عام الیکشن بھی ہورہے ہیں۔لہٰذاالیکشن کمیشن کو انقلابی تبدیلیوں کے لیے بولڈ اقدامات کرنا ہوں گے ، اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں، حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور قومی اداروں کو آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ملک کی باگ ڈور قابل افراد کے ہاتھوں میں آئے اور کوئی بھی سسٹم کو Violateکرکے آگے نہ جائے ورنہ ہم مزید 50سال پیچھے چلے جائیں گے! دعا ہے کہ ہم سب اس کھیل سے نجات ہی پالیں تو بہتر ہے ورنہ بہت برا ہونے والا ہے ! خدانخواستہ !