الیکشن سے پہلے منشور کا ڈرامہ !

کسی بھی سیاسی جماعت کا منشور کیا ہوتا ہے؟ اس کی آئین میں کیا ضرورت ہوتی ہے، اور جنرل الیکشن سے قبل اس کی اہمیت کیوں بڑھ جاتی ہے۔ اس سب پر تو بعد میں نظر ڈالتے ہیں لیکن آج کل الیکشن مہم میں آپ کی سماعتوں میں یہ باتیں تو ضرور سنی گئی ہوں گی کہ عوام کے لیے 300یونٹ بجلی فری.... ایک کروڑنوکریاں.... 50لاکھ گھر.... فلاں سے فلاں شہر تک موٹروے.... فلاں سڑک کا وعدہ .... مہنگائی کو 5فیصد پر لانے کی یقین دہانی.... اور تو اور یہ بھی آپ نے ضرور سنا ہوگا کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنایا جائے گا وغیرہ ۔ اور اسی پر بس نہیں بلکہ پھرآواز کانوں میں پڑتی ہے کہ ٹیکس کم کیا جائے گا، بے روزگاروں کے لیے الاﺅنس دیا جائے گا.... نئے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی جائیں گی۔ لیکن اس کے برعکس ان سب کو پتہ ہے کہ معیشت ان کے اختیار میں نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے اختیار میں ہے۔ نہ ہی یہ لوگ مرضی کا بجٹ بنا سکتے ہیں، نہ مرضی سے پٹرول و بجلی کی قیمتیں کم کر سکتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی سبسڈی سے عوام کو نواز سکتے ہیں بلکہ یہ لوگ خود سے دو جمع دو چار بھی نہیں کہہ سکتے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ ان دو اقتدار والی سیاسی پارٹیوں پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے آج تک کبھی منشور پر عمل نہیں کیا۔ آپ 1988ءسے شروع ہو جائیں اور 2013تک دیکھ لیں۔ بلکہ پی ڈی ایم کا آخری 16ماہ کا اقتدار بھی دیکھ لیں۔ کہیں آپ کو منشور کی بھنک بھی نظر نہیں آئے گی۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ یہ لوگ عمل چاہے نہ کریں مگر یہ منشور بنانے میں ”محنت“ بہت کرتے ہیں،،، جیسے ن لیگ نے اپنا منشور گزشتہ روز پیش کیا تو اس منشور کی داستان بھی سن لیں کہ ن لیگ کی منشور کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی کے مطابق منشور کی تشکیل کے لیے 32 کمیٹیوں نے دن رات محنت کرکے ایسا منشور تیار کیا ہے جس پر عمل بھی کیا جاسکے اور جس سے مسائل بھی حل ہوسکیں۔ن لیگی منشورمیں سیاسی، عدالتی، تعلیمی اور معاشی نظام میں اصلاحات کے علاوہ توانائی کے مسئلے کو حل کرنے، خارجہ تعلقات کو بہتر بنانے، اقلیتوں اور صحافیوں کے تحفظ کیلئے موثر اقدامات عمل میں لانے کی یقین دہانیاں شامل ہیں۔منشور کے اہم ترین نکات میں پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا،دستور کی دفعات 62 اور63کی اصل شکل میں بحالی،موجودہ عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کیلئے متبادل نظام یعنی پنچایتی سسٹم کے نفاذ، بڑے مقدمات کا ایک سال اور عام مقدمات کا دوماہ میں فیصلہ کرنے کی پابندی،نیب کو ختم کرکے غیرجانبدارانہ نظام احتساب کی تشکیل، کمرشل عدالتوں کا قیام اورضابطہ فوجداری میں ضروری ترامیم شامل ہیں۔ معاشی بحالی کیلئے مسلم لیگ (ن) کے منشور میں ایک سال میں مہنگائی میں دس فی صد کمی اور چار سال میں مہنگائی کی شرح چار سے چھ فی صد تک لانے، پانچ سال میں روزگار کے ایک کروڑ سے زائد نئے مواقع پیدا کرنے، غربت میںپچیس فی صد اوربے روزگاری میں پانچ فی صد کمی لانے، تین سال میں اقتصادی شرح نمو چھ فیصد سے زائد تک بلند کرنے، افرادی قوت کی سالانہ ترسیلات زر چالیس ارب ڈالر اور آئی ٹی برآمدات کو پانچ ارب تک لے جانے کے اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ دیکھنے سننے میں تو یہ منشور بہت اچھا دکھائی دے رہا ہے، بلکہ اگر اس پر عمل کر لیا جائے تو پاکستان دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر سکتا ہے مگر نواز شریف کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ جب وہ اقتدار میں آئیں تو پورا منشور اُن کی ذات کے گرد گھومتا ہے۔ بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ نہ کسی منشور پر یقین رکھتے ہیں اور نہ کسی کمیٹی پر۔ وہ خود منشور ہیں، خود ہی کمیٹی بلکہ خود ہی پاکستان بن جاتے ہیں۔ تبھی وہ جلد ہی اقتدار سے آﺅٹ کر دیے جاتے ہیں۔ اور الیکشن سے ایک ہفتہ قبل منشور دینے کے حوالے سے بھی اسکی اہمیت کا اندازہ ہو چکا ہے۔ حالانکہ بلاول بھٹو نے تو اپنا دس نکاتی عوامی ایجنڈا چند دن پہلے ہی دیا تھا ، تحریک انصاف اور اسکی مرکزی قیادت کو انتہائی نا مساعد حالات کا سامنا ہے۔ انہیں انتخابی مہم کی آزادی ہے، نہ کوئی مساوی مواقع میسر ہیں۔ اسکا منشور بس ایک نکاتی ہے اور وہ عمران خان کی ذات سے منسلک ہے۔ پنجاب میں تو پی ٹی آئی کو زبردست سرکاری مخاصمت کا سامنا ہے، جبکہ اسکی حریف ن لیگ انتخاب لڑے بنا کامیابی کے پرچم لہراتی نظر آتی ہے۔ خیر بات منشور تک ہی رہے تو اچھا ہے! کیوں کہ یہ بھی ایک اہم ترین مسئلہ ہے، یعنی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے منشور پر محض 10فیصد بھی عمل نہیں کرتیں۔ حالانکہ دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں الیکشن شروع ہونے سے کم و بیش 6ماہ پہلے تک اپنا منشور پیش کر چکی ہوتی ہیں۔ اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنے ووٹرز کا اعتماد قائم رکھنے پر اپنے منشور پر 80سے 90فیصد تک عمل کرتی ہیں تاکہ وہ دوبارہ عوام کے پاس جا سکے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں میرے خیال میں موروثی سیاست ہی سب سے بڑا منشور ہے۔ ایک ایک سیاسی گھرانے کی دس دس سیاسی شخصیات الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ آپ ن لیگ کو ہی دیکھ لیں، کہیں سے نواز شریف کھڑے ہیں تو کہیں سے شہباز شریف، کہیں سے مریم نواز اور کہیں سے حمزہ شہباز۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کو دیکھ لیں۔ ۔پھر آپ گیلانی خاندان کو دیکھ لیں، آئندہ ماہ ہونے والے انتخابات میں ملتان کے تین حلقوں سے گیلانی خاندان الیکشن لڑ رہا ہے۔ این اے 148 میں یوسف رضا گیلانی، این اے 151 میں علی موسیٰ گیلانی اور این اے 152 سے سید عبدالقادر گیلانی میدان میں اتریں گے،،، شاہ محمود قریشی خاندان کو دیکھ لیں۔قریشی خاندان کے سرپرست مُرید حسین کے بیٹا سجاد حسین قریشی قیامِ پاکستان سے چند ماہ قبل مسلم لیگ میں شامل ہوئے، اس سے قبل وہ یونینسٹ پارٹی کا حصہ تھے۔ سجاد حسین قریشی کے بیٹے شاہ محمود قریشی ماضی میں پاکستان کے وزیر خارجہ رہ چکے ہیں تاہم اس وقت وہ الیکشن سے باہر ہو کر جیل میں ہیں۔شاہ محمود قریشی کے بیٹے مخدوم زین قریشی 2018 کے انتخابات میں ملتان کے حلقہ این اے 157 سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ بعد ازاں 2022 کے ضمنی الیکشن میں اسی حلقہ سے شاہ محمود قریشی کی بیٹی مہربانو نے الیکشن لڑا تھا۔ 8 فروری کو ہونے والے الیکشن میں زین قریشی ملتان کے حلقہ این اے 150 اور مہر بانو قریشی حلقہ این اے 151 سے آزاد اُمیدوار کے طور پر الیکشن لڑیں گے پھر آپ بلور خاندان کو دیکھ لیں،،، پھر آپ اے این پی کو دیکھ لیں۔ الغرض پاکستان میں موروثی یا خاندانی سیاست کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ تین دہائیوں سے پنجاب کے تقریباً 400 خاندان ہیں جو مسلسل ایسی پالیسیاں بناتے اور قانون سازیاں کرتے چلے آ رہے ہیں جن کی وجہ سے قومی وسائل اور نجی شعبوں میں ان کی طاقت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اور بظاہر تاحال یہ حالات آج بھی نہیں بدلے ۔ قصہ مختصر کہ یہاں ایک جماعت نے موروثی سیاسی کو ختم کرنے کا منشور دیا تھا،،، لیکن بدقسمتی سے اُسے اوچھے ہتھکنڈوں سے اقتدار سے ہی الگ کر دیا گیا۔ اور ایسا کرنے سے یقینا حالات سدھرنے والے نہیں بلکہ الیکشن کے بعد حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو منشور پر پابندکرنے کے حوالے سے کام کیا جائے اور اس کی اصل تعریف کے حوالے سے لوگوں کہ ایجوکیٹ کیا جائے کہ سیاسی جماعت کا منشور ایک دستاویز ہے جو پارٹی کے وژن، اہداف، پالیسیوں اور ملک کے لیے منصوبوں کا خاکہ پیش کرتی ہے۔ یہ ووٹروں کو یہ بتانے کا ایک طریقہ ہے کہ پارٹی کس کے لیے کھڑی ہے اور اگر وہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرتی ہے تو وہ کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایک منشور ایک سیاسی جماعت، جمہوریت اور عوام کے لیے کئی وجوہات کی بنا پر ضروری ہوتا ہے، کیونکہ یہ پارٹی کو اپنی شناخت، نظریے اور ایجنڈے کی وضاحت کرنے اور خود کو دوسری جماعتوں سے ممتاز کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ ووٹروں کو پارٹی کے وعدوں اور تجاویز کی بنیاد پر باخبر انتخاب کرنے اور پارٹی کو اس کی کارکردگی کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ مختلف جماعتوں اور شہریوں کے درمیان بحث، مسابقت اور شرکت کو فروغ دے کر جمہوریت کو م¶ثر طریقے سے کام کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔ یہ لوگوں کو پارٹی کی پالیسیوں اور پروگراموں سے فائدہ اٹھانے کی بھی اجازت دیتا ہے جن کا مقصد ان کی زندگیوں کو بہتر بنانا اور ان کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ تاہم، ایک منشور میں کچھ حدود اور چیلنجز بھی ہوتے ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ یہ پارٹی کی پالیسیوں اور منصوبوں کی حقیقت اورپائیداری کی عکاسی نہیں کرسکتا اور اس میں غیر حقیقی یا مبہم وعدے ہوسکتے ہیں جن پر عمل درآمد یا پیمائش مشکل ہے۔ یہ ملک اور عوام کے کچھ مسائل اور ضروریات کو حل کر سکتا ہے اور کچھ اہم شعبوں یا گروہوں کو نظر انداز کر سکتا ہے۔ مزید برآں، ہو سکتا ہے کہ یہ پارٹی کے اعمال اور رویے سے مطابقت نہ رکھتا ہو اور پارٹی کے لیڈروں یا اراکین کی طرف سے اس کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ یہ تمام ووٹرز کے لیے قابل رسائی یا قابل فہم نہیں ہو سکتا ہے اور پارٹی کے مفادات سے متاثر ہو سکتا ہے۔ایسا کرنے سے یہ بیماری بھی ختم ہو جائے گی کہ ہمارے ہاں زیادہ تر ووٹ شخصی پسند، ذاتی، فکری، مسلکی، لسانی اور سیاسی تعصب کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ اگر ووٹ دینے والے اپنے امیدوار سے پچھلی کارکردگی اور نئے منشور کی بنیاد پر بات کرنے لگیں تو سیاسی جماعتیں بھی منشور کو وہ اہمیت دیں گی جو انتخابی سیاست میں دی جانی چاہیے!