آپ پھر بھی ”ووٹ“ کاسٹ کرنے ضرور جائیں!

جو کچھ اس وقت ملک میں ہو رہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،،، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پر کوئی لب کشائی کرنے کو بھی تیار نہیں۔ میں فیملی کے ہمراہ خبریں دیکھتا ہوں، تو میں منہ چھپاتا ہوں کہ میرے ملک میں حقیقت میں کیا ہو رہا ہے اور دکھایا کیا جا رہا ہے؟ سب دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے مقبول لیڈر کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اُس سے شاید بھول چوک میں چند غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی مگر اُسے سزائیں دینے کا اور اُس کی کردار کشی کا جو سلسلہ جاری و ساری وہ نہ تو تھےم رہا ہے اور نہ کہیں مڑ رہا ہے۔ کہیں اُس کے حامی کارنر میٹنگ کرتے نظر آ جائیں تو دھر لیے جاتے ہیں۔ کہیں جلسے جلوس کی تھوڑی سی بھی بھنک پڑ جائے تو پولیس اور ادارے چکر لگانا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ووٹر تو مایوس ہو ہی رہے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ملک کا دانشور طبقہ بھی مایوسی کے عالم میں انگشت بہ دندنان ہے۔ بلکہ یہ تمام صورتحال دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ کرپشن‘ ناانصافی‘ ظلم اور زیادتی کی فضا کو چھوڑ کر کسی صحرا‘ جنگل یا پہاڑی وادی میں پناہ لے لی جائے۔ نہ یہ سب کچھ ہوتا دیکھیں‘ نہ سنیں اور نہ ہم سے کوئی بات کرے اور نہ ہم کسی سے رابطہ کریں۔ سوچتے ہیں تو یہ بھی ایک خواب معلوم ہوتا ہے۔ عملی طور پر کوئی جائے مفر باقی نہیں۔ ہم جیسے حالات کے قیدیوں کے ہاتھ اور پاﺅں بندھے ہوتے ہیں۔ ذہن آزادی پسند ہو تو حساسیت زندہ درگور کر دیتی ہے۔ کئی سَمتوں سے ڈستی اذیت کو برداشت کرنا آسان نہیں۔ خیر بات الیکشن کی ہو رہی تھی تو ان دنوں ہر طرف الیکشن کا ہنگامہ ہے‘ شور ہے‘ کہیں کہیں انتخابی امیدواروں کو دہشت گردی کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ ہزاروں امیدوار‘ پارٹیوں کے نشانات‘ اسمبلیوں میں قدم رکھنے کے خوابوں میں کھوئے افراد۔ ان سب کی باتیں سنیں‘ ماضی کی کارکردگی کا جائزہ لیں اور ان کے گماشتوں کو ان کی صفائی دیتے اور ایمانداری کی قسمیں اٹھاتے بڑے اور چھوٹے کرداروں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے سب سیاسی گھرانے‘ اکابرین اور بار بار منتخب ہونے والے اراکینِ اسمبلی ہم سے کوئی افضل مخلوق ہیں۔ دنیا کے سیاست دانوں کے مقابلے میں باکردار اور ملک و قوم کا درد رکھنے میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔ لیکن حقیقت 180کے زاویے کی طرح بالکل مختلف ہے۔ بہرحال الیکشن تو ہو رہے ہیں، اور مخصوص پارٹیوں کے لیے میدان بھی صاف کر دیا گیا ہے، رہی سہی کسر حالیہ عدالتی فیصلوں نے کر دی ہے۔ لیکن پھر بھی ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ اپنے آپ کو عادت ڈالنی چاہیے کہ ووٹ ضرور کاسٹ کریں، کیوں کہ دنیا بھر میں قوموں نے اگر ترقی کی ہے تو وہ صرف ووٹ کے صحیح استعمال کے باعث کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں ووٹر گھر سے نہیں نکلتا ۔ اُس کی وجہ شاید یہاں کے سیاسی حالات ہیں۔ سب کو علم ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ یعنی گزشتہ انتخابات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو اوور آل ٹرن آﺅٹ 50فیصد رہا۔ بلوچستان ووٹر ٹرن آﺅٹ کے حوالے سے سب سے پیچھے رہا ہے۔دوہزار 18 کے انتخابات میں ٹرن آو¿ٹ 55 فیصد رہا۔ سب سے زیادہ 62 فیصد ٹرن آو¿ٹ اسلام آباد کا تھا، جہاں 3 لاکھ ووٹ کاسٹ ہوا۔ دوسرے نمبر پر پنجاب رہا۔ 60 فیصد ووٹرز نے اپنا حق استعمال کیا جو 2 کروڑ، 87 لاکھ، 60 ہزار 265 بنتے ہیں۔ سندھ میں یہ تناسب 54 فیصد رہا، ووٹوں کی تعداد 97 لاکھ 82 ہزار 599 تھی۔خیبر پختونخواہ میں 45 فیصد رہا، جہاں 54 لاکھ 76 ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے۔ بلوچستان میں ٹرن آو¿ٹ 42.5 فیصد رہا اور 13 لاکھ سے زائد ووٹ کاسٹ ہوئے۔ فاٹا میں 5 لاکھ 8 ہزار لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ یہ تناسب 36 فیصد بنتا ہے۔ اس کے برعکس دنیا بھر میںانتخابات کا ٹرن آﺅٹ اگر دیکھا جائے تو بیشتر یورپی ممالک میں ووٹر ٹرن آﺅٹ 70فیصد سے زائد رہتا ہے۔ اور حالیہ سالوںمیں ہونے والے عام انتخابات جن ملکوں میں ہوئے ان میں ترکی ، ملائشیا، میکسیکو وغیرہ شامل ہیں وہاں کا ٹرن آﺅٹ حوصلہ افزاءرہا اور نتائج بھی بہترین میسر آئے۔ دنیا بھر میں ووٹرز کو ”پکڑنے “ اور ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ووٹ نہ ڈالنے والوں کو بھاری جرمانے، قید یا دونوں سزائیںبیک وقت دی جاتی ہیںلیکن ہمیں ان ممالک کے نقوشِ قدم پر نہیں چلنا۔ ہمیں ان لوگوں کو بھی ووٹ ڈالنے پر مائل اور قائل کرنا چاہیے جو کندھے اُچکا کر کہتے ہیں: ہم توووٹ کسی کو بھی نہیں دیں گے،اِس روئیے اور سوچ کو بدلنے کا وقت ہے۔ جو شخص ووٹ نہیں ڈالتا، وہ اپنا قومی تشخص بھی کھو دیتا ہے۔ ابراہام لنکن نے خوبصورت بات کہی تھی: جو شہری ووٹ نہیں ڈالتا،اُسے یہ بھی حق نہیں ہے کہ وہ منتخب حکومت پر تنقید کرے۔ آپ ڈنمارک، کروشیا اور ناروے جیسے ملکوں کی مثال لے لیں وہاں جو لوگ ووٹ کاسٹ نہیں کرتے ان کی فہرستیں مرتب کی جاتیں ہیں۔ وہ لوگ بینکوں سے قرضے نہیں لے سکتے، انہیں حکومتی سہولیات نہیں دی جاتیں اور ان کے لیے بہت سی مشکلات جان بوجھ کر پیدا کر دی جاتی ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات میں لازمی اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔ اسی سلسلے میں ووٹرز کو سہولیات دی جاتی ہیں۔ مثلاََ جرمنی میں پارلمیانی انتخابات میں ووٹرز کو اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے الیکشن کی مختص شدہ تاریخ کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ہے بلکہ اپنی سہولت کے حساب سے جرمن باشندے الیکشن سے ہفتوں پہلے بھی ووٹنگ دفاتر میں جاکر اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں۔جس دن الیکشن ہو، آپ اُس دن ملک سے باہر ہیں یا کسی اور وجہ سے آپ الیکشن کے دن ووٹ نہیں ڈال سکتے۔ ایسی صورت میں آپ کا ووٹ ضائع ہونے سے بچایا جانا چاہیے۔ جرمنی میں ہر ووٹ کی غیر معمولی اہمیت ہے اور ووٹرز بھی اپنے اس جمہوری حق کا پوری طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنے کی چیز ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی آزادی رائے کا گلا گھونٹا گیا ہے‘ ڈر اور خوف کی فضا طاری ہوئی ہے‘ انتخابات میں مداخلت اور جانبداری کے اثرات ملے ہیں‘ وہاں سچائی اور انصاف کو صرف ایک ہی رُخ میں چلتے دیکھا ہے یعنی طاقت کے مراکز کی طرف۔ عجیب صورتحال ہے کہ ایک طرف امیدواروں کی ہر حلقے میں ایک لمبی فہرست‘ درجنوں سیاسی جماعتیں اور چھوٹے بڑے سیاسی دھڑوں کی نمائندگی کے خواب ہیں تو دوسری طرف خوف‘ خدشات اور شکو ک و شبہات کے گہرے سائے ہیں۔ بہت کچھ اس ماحول میں انوکھا‘ نرالا اور عجیب وغریب محسوس ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بہت کچھ آنکھوں کے سامنے سے گزر رہا ہے....کیا ہوگا اور کیا نہیں ہو گا‘ کا بہت سوں کو ادراک ہے مگر ضابطے کی سب کارروائی مکمل کرنے کے لیے اربوں روپے لگ چکے ہیں۔ اس دوران کیا کیا نعرے سن رہے ہیں کہ ملک کو خوشحالی کی راہ پر ڈالیں گے‘ استحکام آئے گا‘ سرمایہ کاری آئے گی‘ بے روزگاری اور مہنگائی کم ہوگی‘ ملک اور خلقِ خدا سکھ اور چین کی بانسری بجانا شروع کردیں گے۔ خواہش تو ہماری بھی یہی ہے کہ ایسا ہی ہو مگر جب دیکھتے ہیں تو وہی لوگ ہیں جو کئی بار آزمائے جا چکے ہیں‘ بار بار اقتدار کی کرسی پر بیٹھ چکے ہیں اور ان کے درمیان کوئی مقابلہ تھا تو وہ کارکردگی کا نہیں بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر لوٹ مار کرنے کا‘ تو اس ساری مشق کے اصل مقاصد کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ کسی عقل مند سے پوچھ لیا کہ کیا یہ سب لوگ محب ِ وطن نہیں اور انہیں ملک کا مفاد عزیز نہیں تو انہوں نے وہی کہا جو ہم سنتے آئے ہیں کہ آپ کس دنیا میں رہتے ہیں؟ شکر کریں‘ جمہوریت بچ گئی ہے۔ بہرکیف اگر اس ووٹ کی اہمیت کا اندازہ پاکستان میں ہو جائے تو یقینا یہاں بھی خوشحالی آسکتی ہے۔ اس وقت جنرل الیکشن کے لیے ملک کے اہل ووٹروں میں سے ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے، جن کی عمریں 18 اور 35 سال کے درمیان ہیں، جن کی تعداد سب سے زیادہ 44فیصد ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی آفیشل ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 11 ستمبر، 2023 تک رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ، 75 لاکھ، 27 ہزار، 87 ہے۔ ان میں خواتین ووٹرز کی تعداد پانچ کروڑ، 87 لاکھ، 40 ہزار، 453 جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد چھ کروڑ، 87 لاکھ، 86 ہزار، 634 ہے۔ لہٰذاحالات جیسے بھی ہوں ووٹ ضرور کاسٹ کرنے جائیں اسی سے شفاف قیادت میسر آسکتی ہے۔ لہٰذااداروں کو بھی چاہیے کہ وہ ووٹر کا اعتماد بحال کرے۔اور ان 12 کروڑ ووٹوں میں 44فیصد نوجوانوں کے ووٹ ہیں ،جن کی تعداد ساڑھے 5کروڑ سے زیادہ ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت اب اپنے ووٹ کی قوت سے ملک و قوم کی تقدیر بدلنے کا عزم رکھتی ہے۔ اسے مایوس ہونے سے بچایا جائے۔ کیوں کہ انہوں نے ہی مستقبل میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، اور نئے پاکستان کی بنیاد رکھنی ہے۔ اس لیے بہتر مستقبل لیے ایسے حالات میں بھی اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور ووٹ کاسٹ کرنے ضرور جائیں!