الیکشن ڈے یا سلیکشن ڈے؟

اللہ خیر کرے اس الیکشن پر! کہ ابھی تازہ تازہ اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں الیکشن کیمپوں کے باہر دو بڑے دھماکے ہوئے ہیں، جس میں کم و بیش 30افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ پھر ”مائنس “ تحریک انصاف الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ آدھے سے زیادہ ووٹرز الیکشن سے پہلے ہی مایوسی کا شکار ہیں۔ الیکشن ”فورکاسٹ“ کے مطابق 8 فروری کے انتخابات میں ن لیگ بآسانی 100 سے 110 نشستیں جبکہ پیپلز پارٹی 50سے 55 نشستیں لے گی۔نواز شریف وزیراعظم ہونگے شہباز شریف بھی وفاق میں ہی اپنے بھائی کی معاونت کریں گے ۔اس الیکشن میں پھر تحریک انصاف کو 30،35سیٹوں تک محدود کرنے کی خبریں آرہی ہیں۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کو بھی نصف درجن کے قریب سیٹیں ملیں گی۔ اور ایم کیوں کو بھی 15سیٹوں تک محدود کیا جائے گا۔ اور پھر بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ نئی بننے والی حکومت کسی ایک پارٹی کی نہیں بلکہ چند ایک پارٹیوں کا مجموعہ ہوگی۔ دوسری جانب سب کو علم ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی اکثریت ہوگی اور جبکہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ مریم نواز کو ملنے کے بھی امکانات موجود ہیں۔ اور پھر بلوچستان بھی ن لیگ کے حصے میں آسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کے پی کے تحریک انصاف کو ملے گا۔ تحریک انصاف کو بھی کے پی کے اُسی صورت میں ملے گا جب اُس کا رویہ اچھے بچوں جیسا ہوگا۔ لیکن اگر اُس نے مزاحمتی اور ضدی بچوں والا رویہ اپنایا تو اُسے کے پی کے بھی نہیں دیا جائے گا۔ لہٰذاپاکستان کے 90فیصد تجزیہ کار مذکورہ بالا ”ونڈ“ سے متفق نظر آرہے ہیں۔ تو ایسے میں یہ الیکشن تو ہر گز نہ ہوئے بلکہ اسے اگر سلیکشن کہہ دیا جائے تو یہ زیادہ مناسب ہوگا۔ تبھی پاکستان کے لیے ہمارا ناصرف دل اداس ہے، بلکہ طبیعت میں بھی عجیب سی بے چینی اور اضطراب ہے۔تو ایسے میں نوحہ لکھنے کو ہی دل چاہتا ہے لیکن پھر سوچتا ہوں کہ یہ نوحہ کس کے لیے لکھوں؟ مقتدرہ کی حکمت عملیوں کا قصیدہ لکھوں، تضادستان کے زوال کا نوحہ لکھوں، مقتدرہ اور اہل سیاست کے مشترکہ کارناموں کی ہجولکھوں، دوسروں کی طرح اپنے ناپسندیدہ لوگوں کی ہزل لکھوں یا پھر ’سب اچھا ہے‘ کے اصول کے تحت حسن و جمال سے بھری غزل لکھ ڈالوں۔ لیکن پھر دل نے یہی فیصلہ کیا کہ جب رہنا بھی یہیں ہے، جینا بھی یہیں ہے تو پھر کیوں نہ مثبت ہی لکھا جائے کہ آج الیکشن کا دن ہے، ووٹ ڈالنے کے لیے ضرور نکلا جائے ۔ کیوں کہ آپ کے ایک ووٹ سے سب کچھ بدل سکتا ہے۔ اور پھر سب جانتے ہیں کہ یہ ووٹ (جن حالات میں بھی ہو) جمہوری ملکوں کا حُسن ہوتا ہے۔ جس کی اہمیت و افادیت سے پورا مغرب مستفید ہو رہا ہے مگر ہم اسے نظریہ ضرورت کے تحت استعمال کر رہے ہیں، اس ووٹ کے بدلے بڑے بڑے برج اُلٹ گئے، بڑی بڑی امپائرز بدل گئیں پھر اسی ووٹ کی اہمیت کے پیش نظر برطانیہ یورپ سے الگ ہوا، جرمنی یورپ میں شامل ہوا، اور سکاٹ لینڈ الگ ملک بنا۔ دنیا بھر میں اگر ایک سنگل ووٹ کی اہمیت جاننی ہو تو چند دہائیاں قبل برطانیہ کی پوری پارلیمنٹ صرف ایک ووٹ پر کئی سال کھڑی رہی یعنی ہاﺅس آف کامن نے صرف ایک ووٹ (4776کے مقابلے میں 4777ووٹوں) پر پانچ سال حکومت کی۔ اسی طرح 2008ءمیں بھارتی صوبے راجستھان میں جی پی جوشی ایک ووٹ سے ہارے انہیں 62216ووٹ کے مقابلے میں 62215ووٹ پڑے، پھر 2013میں فلپائن کے صوبے منڈرو میں دو اُمیدواروںکے درمیان 2013ءمیں مقابلہ ٹائی ہوگیا، جو بعد میں الیکشن کمیشن نے ٹاس پر فیصلہ کر کے ایک اُمیدوار کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ پھر کیوبا میں 2013ءاور 2003ءمیں دو بڑی پارٹیاں ایک ایک ووٹ کے مارجن سے جیتیں۔ پھر1994ءمیں صرف 7ووٹوں کی اکثریت سے بھارتی گجرات میں وڈورا سے لوک سبھا کے لئے ایک نوجوان نے جیت حاصل کی اور اسی طرح 1989ءمیں بھی صرف 9ووٹوں سے اُمیدوار کو آندھرا پردیش میں انکا پلی سے لوک سبھا کے لئے منتخب کیا گیا۔ دہلی میں مشہور فلمی اداکار آنجہانی راجیش کھنہ سے مشہور بی جے پی لیڈر لال کرشن اڈوانی نے صرف5ووٹوں سے جیت حاصل کی تھی۔پھر پاکستان میں بھی بہت سے Closeالیکشن ہوئے جن میں تاریخ کا سب سے بڑا اور پیسے والا ضمنی الیکشن یعنی ایاز صادق اور علیم خان کے درمیان ہونے والے الیکشن میں محض چند سو ووٹ کا فرق تھا، پھر بہت سے امریکی الیکشن ایسے ہوئے ہیں جہاں ایک ایک ووٹ کے فرق سے چار چار سال تک حکومتیں قائم رہیں۔ اسی لیے یہ حقیقت ہے کہ جمہوری نظام میں ووٹ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ جنرل الیکشن ہوں، سینیٹ الیکشن ہوں یا اسمبلیوں کے اندر ووٹنگ ہو، ایک ایک ووٹ بہت زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور ایک ووٹ ہی قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کےلیے اہم ہے۔ جمہوری نظام میں تو فیصلے فقط اکثریت کی بنا پر ہوتے ہیں۔ لیکن ایک ووٹ کی ہیرپھیر پورے انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کےلیے کافی ہوسکتی ہے۔ اس لیے اپنے ووٹ کا درست استعمال قوم کے مستقبل کےلئے بہت ضروری ہے۔ اس لیے میرے خیال میں ووٹ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر اور چھان پھٹک کر کرنا چاہیے کہ کہیں ایسے شخص کو ووٹ نہ دے بیٹھیں جو بعد میں ملک و قوم کےلیے نقصان دہ ثابت ہو اور ہم اس کے تمام غلط کاموں میں برابر کے گناہ گار ٹھہریں۔ووٹ دینے کےلئے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچنا چاہیے۔ اپنے ایک کلو گوشت کے لیے پوری بھینس ذبح نہیں کرنی چاہیے، چھوٹے چھوٹے مفادات کو بڑے بڑے قومی مفادات پر ترجیح دینے سے معاشرے میں تباہی آتی ہے۔فی الوقت تو کسی رکن نے 5،5ہزار روپے دے کر ووٹ خرید لیے مگر اس کے دورس نتائج اس قدر خطرناک ہوتے ہیں کہ آنے والی کئی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتتی رہیں گی، آپ دور نہ جائیں پچھلی اسمبلی کو ہی دیکھ لیں ایک رپورٹ کے مطابق 88فیصد ممبران قومی و صوبائی اسمبلی محض ڈیسک بجانے یا حاضری لگانے اسمبلیوں میں آتے رہے، یہ حضرات تو اپنے حلقے کے عوام کی بات کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ لہٰذا کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟ میرے خیال میں ایسا صرف اسی لیے ہے کہ ہم ایک بریانی کی پلیٹ پر ووٹ دے دیتے ہیں، ہم محض پانچ پانچ ہزار روپے میں بک جاتے ہیں۔ یعنی ہمارا ریٹ روزانہ کے حساب سے اگر دیکھیں تو محض ڈھائی تین روپے ہے۔ پھر ہمیں کوئی امیدوار سائیکل لے دے یا فقط وعدہ ہی کر لے تو ہم ووٹ دے دیتے ہیں۔ ہم وڈیروں اور چوہدریوں کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں۔ یہ تو کہیں کہیں ہوتا ہے لیکن گلیاں نالیاں پختہ کرنے پر ووٹ دینے کی وبا تو پورے ملک میں عام ہے۔پھر اگر آپ قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبر بن جاتے ہیں تو پھر بات لاکھوں، کروڑوں روپے کی بولی تک پہنچ جاتی ہے، لیکن ووٹ کا احترام، ووٹ کا تقدس، ووٹ کی افادیت، اہمیت اور ووٹ کی جمہوری طاقت کھڈے میں چلی جاتی ہے۔ بہرکیف اگر ہم اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اہل اور دیانتدار امیدواروں کو ووٹ دیں گے تو ہمارا کوئی کام بھی نہیں رکے گا۔ دیانتدار امیدوار ہماری تمام ضروریات کا خیال رکھیں گے۔ وہ کوئی کام کریں گے تو عوام پر احسان نہیں جتائیں گے بلکہ اپنا فرض سمجھ کر کریں گے۔اس لیے خدارا! اپنے اندر سیاسی شعور پیدا کیجئے۔ اپنے ووٹ کی اہمیت کو جانیے اور اتنی معمولی چیزوں پر ووٹ کو فروخت نہ کیجئے۔ کیوں کہ جب یہ لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو ان کے کرنے کاکام تو انہیں آتا نہیں ہے لہٰذایہ لوگ سازشیںشروع کردیتے ہیں، مال بنانے کے ہنر سیکھنا شروع کر دیتے ہیں، مقروض ملک میں ایسے ایسے پراجیکٹ کا آغاز کردیتے ہیں کہ ٹکریں مارنے کا جی چاہتا ہے۔ پھر یہ سندھی، پختون کا ڈرامہ رچا کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں یہ جمہوریت نہیں بے ایمانہ نظام ہے ، آج آپ صرف یہ سوچ لیں کہ سیاست کے دو بڑے خاندانوں کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟ یہ ہمارے سیاستدانوں کی کمزوری ہے تو لہٰذا آج جس طرح ملازمت دینے کے لئے امید وار کا این ٹی ایس ٹیسٹ لیا جاتا ہے با لکل اسی طرح ہر سیاسی امیدوار کو الیکشن سے پہلے پرکھ لیں، خواہ اُمیدوار سینیٹ الیکشن کے لیے کھڑا ہو یا جنرل الیکشن کے لیے، خواہ وزارت عظمیٰ کے لیے یا قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے یا کونسلر جنرل کونسلر یا ناظم و میئر کے الیکشن کے لیے ان کی مکمل جائیدادیں ،کاروبار، تعلیم،خیالات کا جائزہ لیا جائے، آج امریکا امریکا کیوں ہے صرف اپنے نظام کی وجہ سے ہمیں بھی اپنے موجودہ نظام کو تبدیل کرنا چاہیے تاکہ ملک کی تقدیر بدل سکے۔بقول شاعر یوں تو پتھر کی بھی تقدیر بدل جاتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ اپنے آپ کو تھوڑا سا ہی سہی ،مگر بدلا جائے آخر میں عرض ہے کہ سیاسی استحکا م کیلئے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو الیکشن کے بعد ہی سہی ریلیف ملے اور ان کے لاکھوں کروڑوں ووٹوں کی نمائندگی بھی پارلیمان میں ہو۔تحریک انصاف کو بھی بیرسٹر گوہر علی کے اعتدال پسند رویے کی پیروی کرتے ہوئے اینٹی ریاست بیانیے کو ختم کرنا چاہئے۔ تحریک انصاف ریاست اور فوج کی اسٹیک ہولڈر ہے، گالیوں،نفرت اور بغاوت کی پالیسیوں سے اس کا اپنا نقصان ہو رہا ہے۔ قصہ مختصر کہ نفرت کی سیاست کو ختم ہونا چاہیے ،،، ورنہ ہر بار ہم الیکشن نہیں سلیکشن کروائیں گے اور ہمارے ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی !