حافظ نعیم الرحمن،جماعت اسلامی میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت!

شہر قائد سے تعلق رکھنے والے حافظ نعیم الرحمان کثرت رائے سے نئے ”امیرِ جماعت اسلامی“ منتخب ہوگئے۔مرکزی شوریٰ ارکان کی جانب سے جماعت کی رہنمائی کیلئے تین نام پیش کئے گئے تھے، ان میں سراج الحق، لیاقت بلوچ اور حافظ نعیم الرحمان شامل تھے، فیصلہ ارکان جماعت اسلامی کی اکثریت نے کیا، جماعت اسلامی میں ہر پانچ سال بعد امیر کا انتخاب ہوتا ہے۔اس مرتبہ امیر جماعت اسلامی کے انتخاب میں 82 فیصد ووٹنگ ہوئی، کل ووٹوں کی تعداد 45 ہزار تھی جس میں چھ ہزار خواتین ارکان بھی شامل ہیں۔جماعت اسلامی سے کئی جگہوں پر اختلافات اپنی جگہ مگر یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ ملک بھر میں تمام سیاسی جماعتوں سے منظم اور موروثی سیاست سے کوسوں دور .... صرف جماعت اسلامی ہی ہے،،، جس میں اس جماعت کا ہر رُکن امیر جماعت اسلامی بن سکتا ہے۔ البتہ جماعت کی ”مرکزی شوریٰ“ رہنمائی کیلئے تین نام دیتی ہے۔اس بارشوریٰ نے ارکان جماعت کی رہنمائی کیلئے سراج الحق، لیاقت بلوچ اور حافظ نعیم الرحمان کے نام پیش کیے تھے۔جن میں سے اکثریت نے حافظ نعیم الرحمن کو جماعت اسلام کا امیر منتخب کیا ہے۔ اس سے پہلے سراج الحق کو 2014 میں جماعت اسلامی کا امیر منتخب کیا گیا تھا، وہ دس سال اس ذمہ داری پر فائز رہے، ان سے پہلے سید منور حسن، قاضی حسین احمد، میاں طفیل محمد اور مولانا سید ابوالاعلی مودودی اس ذمہ داری پر فائز رہے۔ نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن سے میری اکادکا ملاقات ہیں،،، انہوں نے راقم کی کتاب ”انگلیاں قلم ہوئیں“ میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرکے ہمیں شرف بخشا تھا۔ وہ یقینا مخلص اور نفیس شخصیت کے مالک ہیں،،، جنہوں نے کراچی میں جماعت اسلامی کو ایک عرصے سے زندہ رکھا ہوا ہے۔ خیر اس حوالے سے بعد میں بات کرتے ہیں مگر اس سے پہلے جماعت اسلامی کے اُتار چڑھاﺅ کی بات کریں تو اس جماعت کی بنیاد سید ابوالاعلی مودودی نے 1941 میں رکھی تھی۔تبھی یہ سیاسی جماعت اپنے آپ کو پاکستان کی سب سے بڑی ، پرانی اور منظم جماعت سمجھتی ہے، 1941میں ہی اس جماعت کے پہلے امیر بھی مولانا مودودی ہی منتخب ہوئے، جنہوں نے 1972ءتک یہ ذمہ داریاں سنبھالیں،،، لیکن بعد ازاں 1970ء کے انتخابات سے مایوس ہو کر انہوں نے جماعت اسلامی کی امارت سے استعفی دیا،،،، جس کے بعد اُن کے قریبی ساتھ میاں محمد طفیل نے یہ ذمہ داریاں سنبھالیں،،، جن کے بعد 1987میں قاضی حسین احمد نے 22سال تک اس جماعت کی امارت کو سنبھالا۔ مودودی کی زندگی میں 1977 وہ کربناک سال گزرا جس میں سب سے زیادہ ان کو دکھ اور مایوسی جماعت اسلامی کی قیادت نے فوجی آمر جنرل ضیاالحق کا ساتھ دے کر پہنچائی۔جماعت کے اندر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ اس دن سے جماعت اسلامی کی پسپائی اور رسوائی کا ایک نہ رکنے والا سفر شروع ہوا جو تاحال جاری ہے۔ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا سے قبل جماعت اسلامی کا کارکن انتہائی فعال، م±نظم اور حالات حاضرہ پہ نظر رکھنے والا اور اپنی بستی میں احترام پانے والا ہوا کرتا تھا۔ضیا الحق نے بظاہر مذہبی رحجان رکھ کر جماعت اسلامی کے کارکن کو سیاسی جدوجہد سے دور کرنے کی سازش کی جس میں اسے بے حد کامیابی ہوئی۔ نوجوان کارکن ’جہاد افغانستان‘ کی بھینٹ چڑھا دیے گئے اور بقیہ ’جہاد کشمیر‘ کے نام پر اپنی جانوں پہ کھیل گئے۔ سیاسی عمل کو جس تازہ خون کی ضرورت تھی وہ فوج کے سپرد ہو چکا تھا اور سیاسی جدوجہد کے لیے میدانِ مارشل لا لگانے والوں نے اپنی کٹھ پتلیوں کے لیے اسے خالی کروا لیا۔ ’جہادی کلچر‘ جماعت اسلامی میں سر چڑھ کر بولا اور پروفیسر غفور احمد جیسے رہنماﺅں کو نظر انداز کر کے مکمل طور پر غیرسیاسی مگر ’جہادِ افغانستان‘ کے اہم کردار قاضی حسین احمد کو جماعت کا امیر بنوانے کی راہ ہموار کی گئی۔ انھوں نے ہر وہ کام کیا جو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے کہا اور جو سید مودودی کی فکر کے خلاف تھا۔ بہرحال قصہ مختصر کہ مولانا مودودی کی موجودگی میں جماعت کے پاس نظریہ تھا، وہ اپوزیشن کی ایک توانا آواز تھے مرکزی دہارے میں بھی شامل تھے۔مگر جب 1970 میں انتخابات ہوئے تو جماعت کے نتائج مایوس کن تھے جس پر مولانا مودودی پارٹی کی قیادت سے دستبردار ہوگئے۔مودودی کی دستبرداری کے بعد جماعت اسلامی نے اپنا ایک کردار تو متعین کرایا لیکن بطور فوج کی بی ٹیم، خاص طور پر ضیا الحق کے دور میں! جس کی وجہ سے اُن کی جگہ بعد میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے جماعت کی جگہ لے لی۔جماعت اسلامی کا پاکستان کی سیاست میں ایک کردار تھا مگر یہ بہت حد تک کم ہو گیا۔ وہ ایک علاقائی جماعت بن کر رہ گئے۔پھرقاضی حسین کی قیادت میں جماعت اسلامی نے ایک اور شکل اختیار کی اس کے بعد جو بحران پیدا ہوا جماعت اسلامی کو ایک اور چہرے کی تلاش تھی جو منور حسن کی شکل میں آیا۔انھوں نے ایک جارحانہ رویہ دکھایا، جو بات پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو پسند نہیں آئی۔اور وہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے! آج سے حافظ نعیم الرحمن کا دور شروع ہو رہا ہے،،، اس لیے اُنہیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جب جب جماعت اسلامی نے آمریت اور ن لیگ کا ساتھ دینا شروع کیا تو اُس کے بعد جماعت اسلامی بیک فٹ پر چلی گئی، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ انہوں نے جنرل ضیاءالحق کا ساتھ دیا،تو حالات مزید بگڑگئے،، پھر 1988ءمیں ن لیگ کا ساتھ دیا،،،تو حالات پہلے جیسے نہ رہے،،، اور زور تو اُس وقت ٹوٹ گیا جب یہ لوگ بے نظیر کے خلاف آئی جے آئی (اسلامی جمہوریہ اتحاد) کا حصہ بنے۔ خیر پھر جماعت اسلامی 1993میں اتحاد سے الگ تو ہو گئی مگر یہ اُس وقت تک اپنی مقبولیت کھو چکے تھے، عوام ان سے متنفر ہو چکے تھے،،، پھر جماعت اسلامی کے ورکرز نے انہیں چھوڑنا شروع کردیا۔۔۔ جاوید ہاشمی پہلے جماعت اسلامی میں تھے،،، ان کے علاوہ خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، اعجاز چودھری، اسد قیصر، جنرل حمید گل (مرحوم)، سید علی گیلانی، حسین حقانی، میاں عامرمحمود، الطاف شکور، ابصار عالم ، سید مراد علی شاہ وغیرہ بھی جماعت اسلامی کا حصہ تھے،،، پھر یہی نہیں بلکہ معروف صحافی جن میں مظہر عباس ،سلیم صافی ، سلمان غنی، جنید سلیم،اوریا مقبول جان، ظہور نیازی، خالد مسعود خان، ادریس بختیار عبدالرحمن چودھری،کا تعلق بھیجماعت اسلامی کی سیاسی نرسری کاسے تھا۔ الغرض پہلے جماعت اسلامی کا ممبر لاہور سے بھی کھڑا ہوتا تھا تو یہاں سے بھی وہ 30،35ہزار ووٹ حاصل کر لیتا تھا، اور تاریخ گواہ ہے کہ کئی مرتبہ نوازشریف جماعت اسلامی کے ووٹوں کی بدولت ہی جیتے۔ یعنی تقریباََ ہر الیکشن میں انہوں نے ن لیگ کا ساتھ دیا.... لیکن وہ خود کامیاب نہ ہوسکی!جس کے بعد جماعت اسلامی بدلتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر سراج الحق کی صورت میں ایک ماڈریٹ چہرہ لے کر آئی۔ وہ دس سال امیر رہے لیکن جیسے وہ پنجاب اور مرکزی سیاست سے آو¿ٹ ہوگئے تھے اس کے بعد ان کی قیادت میں کبھی واضح نہیں ہو پایا کہ ان کا سیاسی موقف کیا ہے۔اس جدت کی پالیسی نے بھی جماعت اسلامی کو نقصان پہنچایا، نتیجے میں وہ خیبر پختونخوا سے ایک بھی نشست نہیں نکال سکے۔ لہٰذااس وقت جماعت اسلامی کو ایک نئے چہرے کی تلاش تھی،،، اور حافظ نعیم الرحمان بہت بہتر چوائس لگ رہے تھے کیونکہ انھوں نے کراچی میں تنظیم کو منظم کیا ہے۔ اگرچہ تاریخی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جماعت ہمیشہ سے کراچی میں مضبوط پارٹی کے طور پر رہی ہے۔ خاص کر اب جب ایم کیو ایم کمزور ہوئی ہے۔جبکہ اس سے پہلے بھی جماعت اسلامی کراچی کی سیاسی کارکردگی ہمیشہ بہتر رہی ہے۔ 1970ءکے انتخابات میں‘ جب بنگلہ دیش بھی پاکستان تھا‘ جماعت اسلامی نے کل چار نشستیں جیتیں۔ ان میں سے دو کراچی سے تھیں۔ دو مرتبہ کراچی میں جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات جیتے اور جماعت کے رہنما شہر کے میئر بنے۔ میئر بھی ایسے کہ لوگ آج بھی ان کی دیانت اور حسنِ کارکردگی کی گواہی دیتے ہیں۔ ملک کے کسی دوسرے حصے میں جماعت اسلامی اس کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ انتخابات میں بھرپور انتخابی مہم چلانے کے باوجود عوام جماعت کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ جماعت کے امیدوار شخصی اوصاف میں عام طور پر دوسری جماعتوں کے نمائندوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ لوگ اس کا اعتراف کرتے ہیں مگر ووٹ نہیں دیتے۔ اس ناکامی کا بار عوام کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ان کی اخلاقی بے حسی یا سیاسی بے شعوری کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کراچی کے لوگ کیا ان دو معاملات میں دیگر علاقوں کے مکینوں سے مختلف ہیں؟ وہ جماعت کو ووٹ کیوں دیتے ہیں؟ان کے جوابات تو حافظ نعیم صاحب کو تلاش کرنا ہوں گے،،، بہرکیف اگر بات کریں نو منتخب امیر کی تو حافظ نعیم الر حمن 1972 میں حیدرآباد، سندھ میں ایک متوسط طبقے کے گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کے والدین کا آبائی تعلق علی گڑھ سے تھا۔ وہ چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ نارتھ ناظم آباد بلاک A میں ایک کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، دو بیٹے حافظ قرآن بھی ہیں۔ان کی اہلیہ شمائلہ نعیم ڈاکٹر ہیں اور جماعت اسلامی کی فعال رکن ہیں۔حافظ نعیم الرحمن نے ملک کی معروف درس گاہ این ای ڈی یونیورسٹی سے بی ای سول انجینئرنگ میں کیا، بعد ازاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامک ہسٹری میں ماسٹرز کیا۔ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور ایک فعال و متحرک طالبعلم رہنما کے طور پر اپنی شناخت منوانے میں کامیاب ہوئے۔ طلبہ حقوق کیلئے آواز اٹھانے پر وہ گرفتار بھی ہو ئے اور مختلف مواقع پر تین بار جیل کاٹی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کراچی اور پھر صوبہ سندھ جمعیت کے ناظم بھی رہے۔ انہیں 1998 میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ یعنی مرکزی صدر منتخب کیا گیا۔ دو سال اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے فراغت کے بعد انہوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور عملی سیاست میں قدم رکھا۔ 2001 کے شہری حکومتوں کے انتخابات میں انہوں نے ضلع وسطی کراچی کی ایک یونین کونسل سے نائب ناظم کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔ لیاقت آباد زون کے امیر جما عت اسلامی، ضلع وسطی کے نائب امیر، کراچی جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری اور نائب امیر بھی رہے۔ 2013 میں انہیں جماعت اسلامی کراچی کا امیر پہلی مرتبہ منتخب کیا گیا۔ حافظ نعیم الرحمان جماعت اسلامی کراچی کے امیر کیساتھ ساتھ“الخدمت ویلفیئر سوسائٹی کراچی”کے صدر بھی ہیں۔حافظ نعیم الرحمان پیشے کے اعتبار سے انجینئر اور ایک نجی کمپنی سے منسلک ہیں۔اُمید ہے جماعت میں وہی روح پھونکیں گے،،، جوجماعت اسلامی کو اس وقت ملک کے لیے انقلابی اقدامات اُٹھانا ہوں گے، ورنہ آج کی جدید سیاست میں سوشل میڈیا ٹیمیں ہی اُنہیں کھا جائیں گی! بالکل اُسی طرح جس طرح حد سے زیادہ شریف النفس شخصیت سراج الحق کے دور میں ہوتا رہا ہے!