ہر چیز کا بنیادی حل ”پابندی“!

چند دن پہلے ایک نجی تعلیمی ادارے میں ایک لڑکی نے اپنے ساتھی طالب علم کو باقاعدہ فلمی پوز بنا تے ہوئے گھٹنا زمین پر رکھ کر پروپوز کیا اور پھول پیش کئے، جواب میں لڑکا جوش میں آ کر لڑکی سے بغل گیر ہوگیا۔یہ کام سب کے سامنے کیا گیا اور درجنوں لڑکے لڑکیاںگھیرا ڈالے خوشی خوشی تصویریں اور ویڈیوز بنا رہے تھے۔ ویڈیو اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔یونیورسٹی نے دونوں طلبہ کو نہ صرف جامع سے نکال دیا بلکہ یہ آرڈر بھی جاری کیے کہ وہ اُسی جامع کے کسی ذیلی ادارے میں داخلہ نہیں لے سکیں گے، ان پر بحث مباحثے ہوتے رہے، زیادہ تر نے مخالفت میں اور کچھ نے نوجوان جوڑے کے حق میں پوسٹیں کیں۔یہ بحث سوشل میڈیا سے نکل کر نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا پر چھا گئی۔اور برطانوی میڈیا نے یہ سرخی جوڑی کہ ”میاں بیوی راضی، مگر قاضی کو لڑکے اور لڑکی کا راضی ہونا پسند نہیں آیا“ وغیرہ۔ درحقیقت اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی بڑی ”برائی“ والی بات بھی نہیں تھی،جس پر طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال کر تماشا بنایا گیا، مگر دوسرے زاویے سے اس عمل کا کسی طرح سے بھی دفاع نہیںکیا جا سکتا ۔ یہ دونوں زاویے اس وقت ہمارے ذہنوں، ہمارے معاشرے اور ہمارے انفرادی ذہنوں میں سرائیت کر چکے ہیں۔ مثلااس واقعہ کو درست کہنے والوں کی بات بھی درست ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے بچوں کو جامع سے نکال کر اس بات کی روایت ڈالی ہے کہ چھپ کر جو مرضی کرو مگر کسی کے سامنے نہیں! جبکہ اس واقعہ کو برا بھلا کہنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ اس قسم کے واقعات ہزاروں بچیوں کی تعلیم کی راہ میں اصل رکاوٹ ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ دونوں مخصوص دلائل اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں اور اپنے اپنے سکول آف تھاٹ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات جس کی طرف کسی کی توجہ نہیں گئی کہ کیا آج ہم وہی نہیں کاٹ رہے جو بیج ہم نے بویا تھا، مثلافی الوقت جو کلچر ہم اپنے طلباءکو دکھا رہے ہیں، ردعمل میں طلبہ بھی ویسا ہی بننے کی کوشش کریں گے، مثال کے طور پر ہم نے میرا سلطان، عشق ممنوع اور دیگر نیم مغربی کلچر قسم کے ڈراموں کو دکھانے کی اپنے ملک میں اجازت دی، بلکہ یہ ڈرامے ہم نے سرکاری سطح پر پورے پاکستان کو دکھائے، اُس میں کیا سین تھے؟ اُس کا تو سینسر بھی کوئی نہیں تھا، تو کیا اُس کا اثر نہیں ہونا تھا؟ اور پھر جو پاکستانی فلمیں جو ہم سینیما گھروں میں دکھاتے ہیں، یا ہالی ووڈ، یا بالی ووڈ کی فلمیں انٹرنیٹ پر آسانی سے دستیاب ہیں تو ان فلموں میں کون سا ہیرو ،ہیروئین کو گلے نہیں لگاتا۔ پھر آپ دور نہ جائیں پاکستانی ڈراموں کو دیکھ لیں، کس ڈرامہ میں عشقیہ داستانیں نہیں ہوتیں؟ کس ڈرامہ میں پیار سے ہاتھ نہیں پکڑا جاتا یا گلے نہیں لگایا جاتا، یا عشقیہ ڈائیلاگ کا تبادلہ نہیں ہوتا ؟ آپ یہ سب بھی چھوڑیں، یہ والے اکا دکا سالوں کو چھوڑ کر کیا ہم بھارتی کلچر کی یلغار کی زد میں نہیں رہے؟ ضرور رہے ہیں، ہر بھارتی ڈرامہ پاکستان میں دیکھا جاتا رہا ہے، بلکہ سونیاگاندھی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا تھا کہ ہم نے پاکستان کو ثقافتی طور پر فتح کر لیا ہے، اگر حالات یہ ہیں تو ہم کیسے طلبہ کو اس قسم کے عملیات سے روک سکتے ہیں؟ لہٰذامیرے خیال میں اس میں بچوں کا قصور نہیں ہے، جن کا قصور ہے وہ تسلیم کریں، ہم پھر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ کیوں کہ غلطی کرنا آسان ہوتا ہے جبکہ غلطی کرکے مان جانا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ اور پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارا پورا معاشرہ لو سٹوریز سے بھرا پڑا ہے، ہمارے اس ہندﺅوانا معاشرے میں رام سیتا، رادھا کشن جیسی لو سٹوریز موجود ہیں، ہندوستانی و پاکستانی سیاستدانوں میں سے بیشتر لو میریج کا شکار رہے، اندرا گاندھی کی اپنی لو میریج تھی، بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کی لومیرج تھی، پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کی لو میریج تھی، ممتاز دولتانہ ، فیروز حیات نون، ذوالفقار علی بھٹو، مصطفی کھر، حفیظ پیرزادہ، وزیر اعظم عمران خان، اپوزیشن لیڈرشہباز شریف ، حمزہ شہباز،مریم نواز، سعد رفیق، عامر لیاقت، وغیرہ سب کی لو میرج ہے۔ چلیں یہ بھی چھوڑ دیتے ہیں ہم جو تاریخ پڑھا رہے ہیں یا ہم جو ناول، شارٹ سٹوریز وغیرہ پڑھاتے ہیں تواُن میں کیا یہی داستانیں رقم نہیں ہوتیں؟ رضیہ بٹ،منٹو، نسیم حجازی کے ناول وغیرہ دیکھ لیں، ایک سے بڑھ کر ایک عشقیہ داستان یا کہانی سننے کو ملے گی۔ لہٰذایہ کیسے ممکن ہے کہ اُس کا اثر نہ ہو!اور پھر اہم بات یہ کہ بانو قدسیہ، اشفاق احمد کی اپنی لو میریج تھی۔ اورپھر جو حلف اُٹھا کر جھوٹ بولتے ہیں ،غداری کرتے ہیں،اس معاشرے میں اُن کی پکڑ اگر نہیں ہے توپھر پیار کا اظہار کرنے والوں کو سزا کیوں دی گئی ؟ حالانکہ ”غداروں“ کو ہر کوئی قبول کیے بیٹھا ہے، مگر جو سچ بول رہے ہیں ہم اُن پر پابندیاں لگا رہے ہیں، الغرض پہلے چراغ تلے اندھیرا ہوتا تھا اب چراغ کے اوپر اندھیرا ہے، یعنی ہمیں تعلیمی ادارے بھی سکھا رہے ہیں کہ جو کرنا ہے چھپ کر کرو۔ یا جو بہتر کام کرے وہ سرعام نہ کرے، مثلاََ بھٹو نے شراب پر پابندی لگائی، لیکن اس کے انسانی جسم پر منفی اثرات بارے آگاہ نہ کیا، جس وجہ سے آج وہی شراب ہر گلی محلے میں بلیک میں فروخت ہو رہی ہے، جس سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان بھی ہو رہا ہے اور شراب کا استعمال بھی 10گنا بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح جنرل ضیاءنے شاہی محلہ بند کردیا، لیکن اُس کے روکنے کے اسباب پر روشنی نہیں ڈالی اس لیے یہ کام وہاں سے نکل کر لاہور شہر کے ہر محلے میں پھیل گیا۔ لہٰذا پابندی ہر چیز کو حل نہیں ہوتا، بلکہ اُس کے نقصانات کے بارے میں بتانا اہم ہوتا ہے۔ اور پھر میرے خیال میں جن سیاستدانوں کی خواتین کے ساتھ ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں، جنہیں ”تنظیم سازی“ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا گیا، جنہیں گلے لگ احتساب کرتے دیکھا گیا ہے، جن کی شرٹس کے ”بٹن “ بند کرتے تصاویر وائرل ہوئیں ہیں انہیں تو ہم کچھ نہیں کہہ رہے ، پھر ایک وزیر پر ہر دور میں ہم جنس پرستی کا الزام لگتا ہے، اُسے تو ہم کچھ نہیں کہہ رہے، پھر جمشید دستی ایم این اے ہاسٹل سے درجنوں شراب کی بوتلیں نکال کرمنظر عام پر لائے انہیں بھی ہم کچھ نہیں کہہ رہے۔ دور نہ جائیں ہماری یونیورسٹیوں کا تو یہ عالم ہے کہ یہاں پروفیسرز کو مارنے والے آزادی سے دندناتے پھرتے ہیں مگر ہم انہیں بھی کچھ نہیں کہہ پاتے لیکن اس قسم کی سختیاں ہمارے معاشرے میں ڈبل سٹینڈرڈ کو جنم دے رہی ہیں! اور رہی بات مذکورہ واقعہ کی تو پیار، محبت انسانی جذبے ہیں، جمالیاتی ذوق فطری ہے۔ انسان خوبصورت مناظر، شخصیات اوررویوں سے متاثر ہوتا ہے۔ محبت ایک ایسی کونپل ہے جو سخت دل میں بھی پھوٹ آتی ہے۔ پیار کرنے، چاہنے، اپنی پسند سے شادی کرنے پر قدغن نہیں۔ ہمارا دین پسند کا حق خاتون کو بھی دیتا ہے، افسوس کہ ہمارے سماج میں کئی بار عملاً یہ حق نہیں دیا جاتا اور والدین تصور کرتے ہیں کہ ہمارا فیصلہ بیٹیاں آنکھیں بند کر کے قبول کریں۔ظاہر ہے یہ غلط اور غیر شرعی روش ہے۔اسلامی تہذیب کے دو تین بنیادی جوہر ہیں، ان میں سب سے اہم حیا ہے۔ اور مذکورہ واقعہ میں بھی طلبہ سے اکا دکا غلطی ضرور ہوئی ہے جیسے حیا کا بنیادی تقاضا بری طرح مجروح کیا گیا۔ ایک ہی تعلیمی ادارے میں پڑھنے والے لڑکے ، لڑکی کا ایک دوسرے کو پسند کرنا کوئی انوکھی بات نہیں، مگر کہا جا سکتا ہے کہ طریقہ غلط تھا۔ ایک اور غلطی یہ بھی سمجھ لیجیے کہ اس سے تعلیمی ادارے کا تقدس پامال ہوا ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے علاقوں میں ابھی تک لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹی بھیجنے کی مزاحمت ہوتی ہے کہ وہاں مخلوط ماحول میں بگڑنے کا خدشہ ہے۔ یہ اس جوڑے کو قطعی اندازہ نہیں۔ لہٰذا یونیورسٹی کا ان طلبہ سے رویہ اور فوری طور پر انہیں یونیورسٹی سے نکال دینے سے ان کی آنے والی زندگی پر گہرا اثر پڑے گا، اس سے اس جوڑے پر اثر تو پڑے گا ہی مگر برائی والے کاموں کو چھپا کر کرنے کا فروغ زیادہ بڑھے گا۔ کیوںکہ ایک چیز جو ہماری سوسائٹی میں رچ بس گئی ہے، ہم اُسے اپنے آپ سے الگ کیسے کر سکتے ہیں؟ اس لیے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم اسے ایک اچھا موڑ دے دیں، وہ کیسے؟ ہم ان چیزوں کو جامعات کی سطح پر اجاگر کریں، اپنے طلبہ کی تربیت کریں، اور انہیں اخلاقیات کے اضافی لیکچر دے اور اپنے کلچر سے روشناس کروائیں، پھر ہم انہیں بتائیں کہ یہاں پر کس قسم کے کلچرل فیسٹیول ہوا کرتے تھے، بیساکھی کا میلہ آﺅٹ ڈور ایکٹی ویٹی کا بہترین مسکن تھا، رکھشہ بندھن جیسے تہوار مضبوط فیملی سسٹم کو جنم دیتے تھے۔ اس میں علماءدین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا، اس میں پروفیسرز حضرات کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ لیکن فی الوقت تو حالات یہ ہیں کہ جو ہم دکھائیں گے وہی سب کے سامنے آئے گا۔ لہٰذاہمارے اس معاشرے میں اسے ایک اچھا موڑ دینا چاہیے، اس پر سیمینارز منعقد کروانے چاہیئں، جامعات میں اخلاقیات پر لیکچر ہونے چاہیئں، ہمیں اس چیز کی پرواہ ہی نہیں ہے، اور نہ ہی ہم اپنے کلچر کو پروموٹ کرنے کے لیے اقدامات اٹھاتے ہیں،لیکن اس کے برعکس پابندیاں لگانے میں ہم سب سے آگے ہوتے ہیں کیوں کہ ہمارے ہاں ہر چیز کا بنیادی حل ”پابندی“ لگانا رہ گیا ہے، بقول شاعر لب پہ پابندی تو ہے احساس پر پہرا تو ہے پھر بھی اہل دل کو احوال بشر کہنا تو ہے الغرض ہمیں سماج کی تہذیبی تربیت کرنا ہوگی۔ اپنے بچوں کو اعتماد دینے کے ساتھ ان کی شعوری تربیت کرنا ہوگی۔ ہمیں ان میں حقیقی سمجھ دینا پڑے گی۔ جبر، سختی اور تشدد کے بجائے سلیقے اور قرینے کے ساتھ مدلل بیانیہ درکار ہوگا۔جامعات میں بھی اس قسم کے واقعات میں سدھار پیدا کرنے کے بجائے اخلاقی تربیت کو بہتر بنانا ہوگا، بچوں پر ناروا پابندیاں نہیں لگنا چاہیئں، انہیں جائز حقوق اور سپیس دیں۔ جس بات سے منع کریں، اس کے بارے میں پہلے سمجھائیں اور دلیل دیں۔ یہ سیلف سینسر کا دور ہے۔ بچوں کو قائل کریں کہ کن باتوں سے دور رہنا اور کن چیزوں پر استقامت سے قائم رہنے کی ضرورت ہے۔ایسے معاملات میں عموماََپیکیج ڈیل ہوتی ہے۔لیکن پابندی کا مظہر بنانے سے اگر کوئی چیز حل ہوتی تو پھر یہ تاثر عام کیوں ہوتا کہ جس چیز پر پابندی لگتی ہے اُس کا استعمال دوگنا بڑھ جاتا ہے!