پی ٹی آئی پر پابندی مارشل لاءکے بغیر ممکن نہیں!

آج کل ہمارے نجومی اور ”ویل انفارمڈ“ سیاستدان جن میں فیصل واﺅڈا سرفہرست ہیں، جو اندر کی خبریں لانے کے ماہر ہیں وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف پر پابندی لگنے جارہی ہے، حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے معاملے پر ان کی پارٹی نے اپنے پاو¿ں پر کلہاڑا مارلیا ہے۔یہ بات انہوں نے سپریم کورٹ کے باہر کہی ۔ پھر ایم کیو ایم کے بھی ایسے ہی الفاظ تھے۔ اور پھر سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے بانی پاکستان تحریک انصاف کو صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملنے کا مشورہ دیا ہے۔اُن کا خیال ہے کہ صدر زرداری بانی پی ٹی آئی کیلئے بہت سارے دروازے کھول سکتے ہیں۔ورنہ اُن کا جیل سے نکلنا اور تحریک انصاف کا بچنا ممکن نہیں لگ رہا وغیرہ ۔ بادی النظرمیں سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر قارئین خود بتائیں کہ اب تک تحریک انصاف کے لیے جتنی مشکلات پیدا کی گئیں، کیا وہ غیر قانونی نہیں تھیں؟ اگر ایسا ہے تو میرے خیال میں آپ تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا شوق بھی پورا کر لیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ایسا ہوا تو کیا کل کو اقتدار میں آکر تحریک انصاف ن لیگ یا پیپلزپارٹی پر پابندی نہیں لگائے گی؟ اور پھر اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو کیا یہ روایت نہیں بن جائے گی؟ چلیں پھر بھی یہ زور آزمائی بھی کر لیں،اور پھر جو کٹاکٹی نکلنا ہے، وہ ایک ہی بار نکل جائے۔ پھر اُس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا تحریک انصاف ختم ہو جائے گی؟ نہیں بلکہ چند دنوں میں ہی یہ اقدام چیلنج ہو جائے گا اور پابندی ہوا میں اُڑ جائے گی، فرق صرف یہ پڑے گا کہ عدالتوں کے وقت کا ضیاع ہوگا۔ اور ویسے بھی ہماری عدالتیں آج کل سیاسی مقدمات کو ہی لے کر بیٹھی ہیں،،، اگر یہی عالم رہا تو عام آدمی کے کیسز کا کیا بنے گا؟ اور رہی بات بانی تحریک انصاف کی تو اُنہیں تحریک انصاف پر پابندی لگنے کے بعد کیا فرق پڑے گا؟ وہ تو پہلے ہی جیل میں ہیں۔ وہ مزید ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن ایک بات بتاتا چلوں کہ اب جو بھی ہونا ہے، وہ سب کچھ سامنے ہونا ہے،،، اور قانون کے مطابق ہونا ہے،،، یا تو پہلے یہ کریں کہ قانون کو معطل کردیں،،، پھر پابندی لگائیں ،،، پھر تو بات سمجھ میں آتی ہے،،، لیکن قانون کے ہوتے ہوئے ایسا کرنا صرف وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اور نہیں یقین تو آپ خود یکھ لیں کہ ابھی تک دو سالوں میں تحریک انصاف کے خلاف جتنے بھی طاقت کے بل بوتے پر اقدامات کیے ہیں، وہ کورٹس میں جا کر ختم ہوگئے ہیں،، اور پھر حکومت کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔الیکشن بھی کروانے پڑے، سائفر کیس بھی اُڑ گیا، سب کی ضمانتیں بھی ہو رہی ہیں الغرض سارے مقدمات آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔ یعنی آپ آئین کو روک تو سکتے ہیں مگر کیا اُسے یکسر اور مستقل نظر انداز کیا جا سکتا ۔ لہٰذاایک چیز تو طے ہے کہ آپ جتنے مرضی چاہیں مزید نئے کیسز بنا لیں، لیکن ان نئے کیسز نے بھی عدالتوں میں جا کر کہیں نہ کہیں میرٹ پر ہی کھیلنا ہے۔ اگر اسی طرح بقول فیصل واﺅڈا یا کسی دوسرے کے آپ تحریک انصاف پر پابندی لگانے جا رہے ہیں تو یہ اقدام حکومت کر تو سکتی ہے، مگر وہ تو چیلنج ہو جائے گا۔ حتیٰ کہ جب 1992ءمیں صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی اسمبلی کو تحلیل کیا تھا تو اُس وقت سپریم کورٹ نے اُسے بحال کر دیا تھا، یعنی آپ کوئی اقدام بزور طاقت کر تو سکتے ہیں، مگر اُس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اور پھر اگر آپ 30سال پہلے یہ کام نہیں کر سکے تھے تو آج یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ لہٰذایہ ممکن ہی نہیں کہ اگر آپ کو کوئی پارٹی پسند نہیں ہے تو آپ اُس پر پابندی لگا دیں، اگر بانی تحریک انصاف نے حمود الرحمن کمیشن کو پڑھنے کا کہا ہے تو کیا یہ آئین کے خلاف ہے؟ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کہہ دیں کہ ماڈل ٹاﺅن واقعہ پر کمیشن کی رپورٹ کو بالکل نہ پڑھا جائے تو پھر بندہ پوچھے آپ نے وہ رپورٹ بنائی کیوں تھی؟ پھر کیا فیض آباد دھرنے کی رپورٹ پڑھنا بھی شاید غداری ہوگی؟ لہٰذااگر کسی سپریم کورٹ کے جج نے رپورٹ مرتب کی ہے، اور یہ رپورٹ حقائق بھی بیان کر رہی تو اس میں مسئلہ کیا ہے؟ خدا کے لیے اپنی آنکھیں کھولیں اور وقت کے ساتھ چلیں،،، کیوں کہ دنیامیں جو بھی وقت کے ساتھ نہیں چلتا، وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ نوازشریف، زرداری جیسے لیڈر ز کی مثال آپ کے سامنے ہےبہرحال اب یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ آنکھیں بند کر کے کہیں کہ فلاں چیز پڑھ لو،،، تو لوگ ایسا ہی کریں گے،،، اب سوشل میڈیا کے آنے کے بعد سب کچھ عوام کی Accessمیں آچکا ہے، آپ کسی چیز کو نہیں بھی دیکھنا چاہتے تو وہ آپ کے سامنے آچکی ہوتی ہے۔ اور پھر اگر آپ کے ذہن میں یہ ہے کہ آپ سوشل میڈیا پر مزید پابندیاں لگا دیں گے ، جیسے آپ نے ایک عرصہ سے ”ایکس“ کو بند کیا ہوا ہے،،، تو جناب! اگر آپ کسی ایک ایپ پر پابندی لگاتے ہیں تو اُسے کھولنے کے لیے ہزاروں ایپس موجود ہوتی ہیں۔اگر ان پر پابندی لگانا آسان ہوتا تو یو اے ای ،چائنہ یا سعودی عرب والے اسے مکمل کنٹرول کر چکے ہوتے ۔ یعنی آپ اندازہ لگالیں کہ مذکورہ ممالک میں وٹس ایپ کالنگ پر پابندی ہے،،، لیکن آپ ان ممالک میںVPNکے ذریعے کالنگ کر سکتے ہیں اور ہر وہ شخص کر رہا ہے ، جسے وہاں ضرورت ہے۔ یعنی آپ جتنی پابندیاں لگائیں گے ، پابندیوں سے نکلنے کے بھی اُتنے ہی راستے ہیں۔ لہٰذاسرکار ایسی بے کار چیزوں پر محنت کرنے کے بجائے آپ اپنی گورننس پر محنت کریں، میں آج بھی کہتا ہوں کہ اگر حکومت مہنگائی کو کنٹرول کر لیتی ہے تو عمران خان خود ہی ختم ہو جائے گا۔ بانی تحریک انصاف کو ختم کرنے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ آپ اُس کی جماعت پر پابندی لگا دیں، یا میڈیاپر اُس کی تقاریر پر پابندی لگادیں، یا اُس کا نام لینے پر پابندی لگا دیں، یا سوشل میڈیا ہی بند کر دیں ۔ ایسا کرنے سے تو یہ مزید ہمدردیاں حاصل کر لے گا۔ اور پھر یہی غلطی تو سیاسی پارٹیوں نے دو سال قبل اُس وقت کی تھی جب تحریک انصاف کی حکومت کو ساڑھے تین سال گزر چکے تھے،،، لیکن اگر مزید ڈیڑھ دو سال انہیں حکومت کرنے دی جاتی تو ہو سکتا ہے عوام انہیں کبھی دوبارہ اقتدار میں نہ لاتے۔ جب آپ نے اُس کی ڈیڑھ سال قبل حکومت ختم کر دی تو عوام نے اس چیز کا مائنڈ کیا، اور پھر اُسے ہمدردیاں ملنا شروع ہوگئیں اور وہ مقبول سے مقبول تر ہوتا گیا جس کا خمیازہ یہ بھگتنا پڑا کہ 8فروری کو ہمیں علی الاعلان دھاندلی کروانی پڑی ۔ لہٰذاآپ جس پارٹی کو بھی بزور طاقت دبائیں گے، وہ اُتنی ہی زیادہ مقبول ہوگی، آپ امریکا میں دیکھ لیں، سابق صدر ٹرمپ کو جتنا دبایا جا رہا ہے، اُتنا ہی اُس کا ووٹ بینک مضبوط ہورہا ہے۔ 1977ءسے 1988ءتک ضیاءالحق پیپلزپارٹی کو دباتا رہا ، تو کیا پیپلزپارٹی کمزور ہوگئی؟ یا سرے سے ہی ختم ہوگئی؟ پھر 2002 میں پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگائی۔ ان کی جماعتوں نے الیکشن لڑا لیکن وہ خود انتخابات میں حصہ نہ لے سکے۔ ماضی میں بہت سی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے لیکن یہ محض سیاسی اسٹنٹ ہوتا ہے۔ لیکن یہ سیاسی جماعتوں کے سوچنے کی بات ہے کہ اگر ایک جماعت کے ہاتھوں دوسرے پر پابندی لگے تو یہ سلسلہ کہیں رکنے والا نہیں ہے۔ اگر عمران خان نے جرم کیا ہے تو سزا ہونی چاہیے لیکن ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ ان کی یا ان کی جماعت کی سیاست ختم کردی جائے۔ اگر ممنوعہ فنڈنگ کی ہے تو وہ ضبط ہونی چاہیے، جرمانہ ہونا چاہیے۔اسی طرح ایک پورا معیار سیاست دانوں کو بنانا پڑے گا جس کے مطابق سب سیاست دان چلیں۔ بہرکیف حکومت ایسے اقدام نہ اُٹھائے جس سے اُس کی مزید جگ ہنسائی ہو، بلکہ حکومت میرٹ پر کھیلے ، کرپشن کم کرے، عدالتوں کو اپنا کام کر نے دے، مہنگائی کم کرے، اداروں کی مداخلت کم کردیں، عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں، غریبوں کا خیال کریں، اُنہیں ریلیف دیں، ٹیکس چوری بند کریں، بیوروکریسی میں کرپٹ افسران کا شکنجہ کسیں، ایف بی آر کو مضبوط کریں، بجلی چوری کو روکیں، الیکشن کمیشن کو مضبوط کریں، پولیس کو کھلی چھٹی دینے کے بجائے اُسے سٹریٹ کرائم اور کرائمز کے خاتمے کا ٹاسک دیں، کچے کے ڈاکوﺅں کو ریاست کے اندر ریاست بنانے سے روکیں، دہشت گردی کو روکیں، امن و امان بحال کریں، غیر ملکیوں کو تحفظ دیں، سیاحوں کے لیے اقدامات کریں، ہر سال آنے والے سیلاب کے آگے مستقل بندھ باندیں، ہر سال بڑھنے والی اسموگ کو ختم کریں، ماحول دوست اقدام کریں، بلڈنگ مافیا،پراپرٹی مافیا، ملاوٹ مافیا، اور دیگر مافیاوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کریں، پی آئی اے کی ساکھ بحال کریں، ریلوے کو نقصان سے نکالیں، پاکستان سٹیل مل کو چلائیں، نہیں تو کسی کو دے دیںتاکہ جیب سے پیسے تو نہ جائیں، قرضے مانگنے کے بجائے دوست ممالک سے سرمایہ کاری لائیں، ملکی انڈسٹری کو فروغ دیں تاکہ ایکسپورٹ میں اضافہ ہو۔ الغرض اس قسم کے بیسیوں کام چھوڑ کر اگر سرکار اپنے بھائی بندوں پر پابندی لگانے کے لیے اقدامات کو اہمیت دے گی تو پھر اس ملک اس قوم اور اس کی آنے والی نسلوں کا اللہ ہی حافظ ہے!