”تحریک انصاف“ صرف ایک نام ہے اور وہ ہے عمران خان!

اگرچہ آٹھ فروری کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بڑی تعداد میں ووٹ ملے، مگر چاہتے نا چاہتے ہوئے بھی تحریک انصاف کو اقتدارنہ ملا۔ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت سمیت ہزاروں کارکن آج بھی جیلوں میں ہیں اور جیل سے باہر تحریک انصاف کے قائدین کو مبینہ طور پر توڑا جا رہا ہے۔لیکن اس کے برعکس اگر تحریک انصاف کو اقتدار مل جاتا تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔ خیر اس وقت کی صورتحال کے مطابق ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے ایک قسم کے دھڑے بن چکے ہیں، سیاست دانوں اور وکلا کے دھڑے الگ الگ ہیں ،جبکہ وکلا کے اندر کئی گروپ بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ ان دھڑوں اور گروہوں کی ایک دوسرے کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا پر بیان بازی یہ تاثر دیتی ہے کہ اس بانی تحریک انصاف کے بعد کوئی اس جماعت کا کوئی لیڈر نہیں ہے۔ حالیہ آپسی لڑائیوں کی اگر بات کریں تو پارٹی کے سینیئر اراکین آپس میں اُلجھ پڑے ہیں، عمرایوب نے جنرل سیکرٹری کے عہدے استعفیٰ دے دیا ہے۔ پھر پھر شیر افضل مروت نہ صرف بیرسٹر گوہر بلکہ پارٹی کے کئی دیگر افراد کے متعلق کھل کر میڈیا میں بیان بازی کر چکے ہیں۔ اور رہی سہی کسر سابق وفاقی وزیر فواد چودھری کے بیانات سے نکل گئی ہے، وہ کہتے ہیں کہ اُنہیں حامد خان اور رو¿ف حسن پر تنقید سے کچھ دوست روک رہے ہیں، اس لیڈر شپ کے ہوتے امکان نظر نہیں آ رہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان باہر آجائیں، موجوہ پی ٹی آئی قیادت کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔وغیرہ وغیرہ جبکہ بادی النظر میں اس وقت پی ٹی آئی کے اندر پاور پالیٹکس ہو رہی ہے اور یہ مستقبل میں بھی چلتی رہے گی، جب تک بانی تحریک انصاف رہا نہیں ہو جاتے۔ ویسے تو یہ مشکل وقت ہے پارٹی کیلئے ‘ لیڈر اندر ہے ‘ بھونڈے قسم کے کیسوں کا سامنا ہے‘ اَن گنت ورکر جن میں خواتین بھی شامل ہیں وہ پابندِسلاسل ہیں۔ جس قسم کی بھی سرکار ہے اُس کا ٹارگٹ ٹی ٹی پی یا کوئی ا ور نہیں پی ٹی آئی ہے۔ ایسے میں پارٹی کی پہلی ضرورت اتحاد کی ہے، یہ نہیں کہ ہرکوئی اوٹ پٹانگ کے بیان دیتا پھرے۔ مشکل وقت میں پارٹی کی قیادت بیرسٹر گوہر کے ہاتھوں میں دی گئی۔ ظاہر ہے یہ ایک عارضی بندوبست ہے‘ اس پر کسی کا اعتراض اٹھنا بالکل بے جواز ہے۔ عمرایوب کو سیکرٹری جنرل بنایا گیا تھااور نامساعد حالات میں اُنہوں نے بھی اپنا کردار بھرپور انداز سے ادا کیا۔ان کا استعفیٰ قبول ہوا یا نہیں یہاں بات ختم ہوجانی چاہیے۔ جس قسم کے حالات سے پارٹی گزر رہی ہے اُس میں فضول کی بیان بازی قطعاً نہیں جچتی۔ظاہر ہے لیڈر کا اندر رہنا ورکروں پر بھاری گزرتا ہے لیکن جن حالات سے پارٹی گزر رہی ہے وہ کسی ایک چابی کے گھمانے سے نہیں بدلیں گے۔ جس استقامت سے لیڈر جیل کاٹ رہا ہے ا±س کے کچھ حصے کی استقامت سے باہر والوں کو رہنا چاہیے۔ اتنا تو کریں کہ جو کچھ کہنا ہوپارٹی کی میٹنگوں کے اندر کہیں۔ اتنا کچھ برداشت کرنے کے بعد پارٹی زعما کو اتنا ڈسپلن تو اپنے میں پیدا کرنا چاہیے۔ لیکن یہ ساری باتیں ایک طرف مگر میں ایک بات بتاتا چلوں کہ کسی کی کوئی اہمیت نہیں ہے،،، تحریک انصاف میں اہمیت صرف عمران خان کی ہے۔ جب ساری پی ٹی آئی عمران خان سے علیحدگی کا اعلان کردے گی تو اُس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میرے خیال میں یہ اسٹیبلشمنٹ کی آخری گیم ہے، اورویسے بھی پاکستانی اسٹیبشلمنٹ کو اس حوالے سے خاصی پریکٹس ہے،،، بلکہ اُس کا 70سال سے سیاستدانوں پر اور اُن کے خاندانوں پر کنٹرول ہے۔ اُس سے نکلنا مزاق نہیں ہے۔ اور پھر بادی النظر میں عمر ایوب، شاہ محمود قریشی ، افضل مروت یا فواد چوہدری کی کیا مجال ہے کہ وہ تحریک انصاف کو توڑنے کی سازش کرے ۔ عوام آج بھی بانی تحریک انصاف کے ساتھ ہے۔ ہاں اس بات میں بھی سچائی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں ایسے ادوار پہلے بھی آئے ہیں اورسیاسی عناصر زیرعتاب رہے ہیں لیکن ماضی کودیکھیں تواحتجاج کی فضا تب ہی پیدا ہوئی جب حالات اُس کیلئے موافق ہوئے۔ نہیں تو لمبی انتظار کی گھڑیاں گزارنی پڑیں۔ سیاسی جماعتیں مواقعوں کی تلاش میں رہتیں کہ وہ کچھ کرسکیں۔البتہ جبر کی فضا میں بھی حتی الوسع کارروائیاں سیاسی پارٹیاں جاری رکھتیں۔ایوب خان اور ضیا الحق کے ادوار طویل دورانیے کے تھے۔ کئی کئی سال گزر جاتے جب ایسا معلوم ہوتا کہ پتہ بھی نہیں ہلا، نہ ہل سکتا ہے۔موقعے آئے تو غبار اُٹھا اوربظاہر مضبوط حکومتوں کو احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔1977ءسے 1988ءتک 90فیصد پیپلزپارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی، لیکن اُس سے کیا فرق پڑا تھا ؟ کیا پارٹی بے نظیر سے الگ ہوگئی تھی؟ پھر ن لیگ کے لیے یہ لوگ بندے نہیں توڑ سکے تو تحریک انصاف کا شیرازہ کیسے بکھیریں گے؟ اس لیے سمجھ نہیں آتی کہ اسٹیبلشمنٹ ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیوں کرتی ہے؟ لہٰذاعوام کے ساتھ چلیں، اشرافیہ کے ساتھ نہیں ،،، ابھی تک اشرافیہ کے ہی ناز نخرے اُٹھائے جا رہے ہیں۔ اب تو یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ جو بھی ریٹائرڈ یا حاضر سروس جج ، جرنیل یا بیوروکریٹ ہوگا ،،، وہ پلاٹ بیچے یا سیل کرے اُس پر ٹیکس نہیں ہوگا۔ جبکہ عوام کو ٹیکس دینا پڑے گا۔ یہ تو کلیئرلی پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ اس لیے اس وقت ملک میں اشرافیہ کے بجائے عوامی حکومت کی سخت ضرورت ہے، اور وہ عوام حکومت 8فروری کے الیکشن کی مکمل چھان بین کے بعد وجود میں آسکتی ہے۔ اور رہی بات تحریک انصاف کے درمیان آپسی اختلافات کی تو اس حوالے سے یہ چیز ذہن سے نکال دیں کہ تحریک انصاف کو کچھ ہوگا، آج الیکشن ہوں، کل ہوں یا دس سال بعد ہوں تحریک انصاف میں جتنے بھی اختلافات ہوں، اگر عمران خان ہے تو اس جماعت کا ہی ڈنکا بجے گا۔ خیر ان باتوں سے بظاہر تویہی لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر دراڑ ڈالنے کی انتھک کوششیں ہو رہی ہیں،،،یہ بالکل وہی ماڈل استعمال ہو رہا ہے ، جو ایم کیو ایم کے لیے استعمال کیا گیا ،،، نہیں یقین تو خود دیکھ لیں کہ 2018ءکے انتخابات قریب تھے، ایم کیو ایم بکھر چکی تھی،،، تین کے قریب دھڑے بن چکے تھے،،، جن میں سے ایک بالکل الگ جبکہ دو دھڑے فاروق ستار اور خالد محمود صدیقی کی شکل میں آمنے سامنے تھے،،، لیکن پھر الیکشن سے ایک ماہ قبل دونوں دھڑے آپس میں مل گئے یا ملا دیے گئے اور چند سیٹیں دے کر انہیں اپوزیشن میں بٹھا دیا گیا۔ حالانکہ اُس سے پہلے کراچی کے عوام ایک آواز پر گھروں سے باہر نکل آتے تھے،،، اور وجہ بعد میں پوچھتے تھے کہ کیوں نکلے ہیں۔ پھر پیپلزپارٹی کو دیکھ لیں،،، جو تحریک انصاف کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے،،، وہ 1977ءسے لے کر 1988تک پیپلزپارٹی کے ساتھ کیا گیا،،، آپ نے غلام مصطفی جتوئی توڑ لیا،،، آپ نے غلام مصطفی کھر کو توڑ لیا،،، آپ نے جام صادق کو توڑ لیا،،، اور بھی بہت سے بڑے سیاستدانوں کو توڑا لیکن کیا پیپلزپارٹی ختم ہوگئی ؟ لیکن اس کے برعکس یہ جو کچھ مرضی کر لیں،،، تحریک انصاف صرف اور صرف بانی تحریک انصاف کے گرد گھومتی ہے،،، حکمران اس جماعت کے جتنے مرضی دھڑے بنا لیں،،، حالانکہ اس میں ابھی تک یہ کامیاب نہیں ہوئے،،، انہوں نے 70فیصد قیادت سے پریس کانفرنسیں کروا کر تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اعلان کروایا ہے،،،جہانگیر ترین، علیم خان، فیاض چوہان، فردوس عاشق اعوان، فواد چوہدری، اسد عمر، جمشید اقبال چیمہ، فیض اللہ کموکا، اقبال وزیر، اجمل وزیر، علی زیدی، جے پرکاش، محمود مولوی سمیت 220سے زائد قائدین نے تحریک انصاف کو خیر آباد کہا،،، لیکن جو چھوڑ کر گئے ، اُن کی سیاست کا کیا بنا؟ جہانگیر ترین کی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کا احوال پوچھ لیں کہ کیا ہے؟ 90فیصد اُمیدوار اپنی سیٹیں ہار گئے،،، بلکہ خود جہانگیر ترین نے بھی سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا۔ اس پرمیں تو یہ کہتا ہوں کہ تمام تحریک انصاف کے دیگر قائدین بھی چھوڑ جائیں لیکن آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے جماعت کو یا اُس کے کارکنوں کو،،، یا اس جماعت کے ووٹرز کو کوئی فرق نہیں پڑتا،بانی تحریک انصاف کے لیے محبت آج بھی اُتنی ہے جتنی پہلے تھی۔ بلکہ آپ آج الیکشن کروا لیں ، اس جماعت کو پہلے سے زیادہ ووٹ ملیں گے،،، اس کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن پاکستان میں ہمدردی کے ووٹ کی اپنی ایک اہمیت رہی ہے،، آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ 88ءکے الیکشن میں پیپلزپارٹی کو دبانے پر ہمدردی کا ووٹ ملا، پھر 2008ءمیں پی پی پی کو بے نظیر کی شہادت کا ووٹ ملا،،، پھر یہی نہیں بلکہ حالیہ الیکشن 2024میں تحریک انصاف کو عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے ہمدردی کا ووٹ ملا۔ بقول شاعر کیا بتائیں کیا سنائیں کیا پڑھیں اکبر غزل کوئی دنیا میں سخن کا قدرداں ملتا نہیں بہرکیف اب جب بھی پاکستان کا الیکشن ہو گا، تحریک انصاف ہی جیتے گی،،، ہو سکتا ہے، اُس کے بعد وہ اپنی پرفارمنس کی وجہ سے مار کھا جائیں ،،، لیکن ملک میں استحکام اُسی صورت آئے گا جب آپ اصل قیادت سے مذاکرات کریں گے،،، ورنہ آپ یونہی گھومتے رہیں گے اور ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔