اشرافیہ کے سخت فیصلے بھی غریبوں کیلئے !

موجود حکومت کے پہلے تین ماہ میں مہنگائی قدرے کم ہوئی تو ایک دوست نے کہا دیکھا ،،، حکمران بہتر ی کی طرف جا رہے ہیں! میں نے برملا کہا کہ آپ شاید ن لیگ کو جانتے نہیں،،، یہ آغاز کے دو تین مہینے اور آخری چھ مہینے عوام کو ریلیف دینے پر غور کرتے ہیں جبکہ درمیانی چار ساڑھے چار سال اگر نصیب میں ہوں تو عوام کا ایسا بھرکس نکالتے ہیں کہ آپ حیران رہ جائیں! اور پھر ایسا ہی ہوا کہ مئی کے آغاز ہی میں ہمارے وزیر خزانہ اور وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ معیشت کی بہتر ی کے لیے سخت فیصلے کرنا پڑیں گے۔ ہم نے پھر سوچا کہ یہ شاید اشرافیہ پر کوئی نیاٹیکس لگانے کا کہہ رہے ہیں،،، لیکن ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ عام آدمی کو ہی لتاڑنے کے چکر میں ہیں۔ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں یک مشت تقریباً 51 فیصد تک اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ 200 روپے سے 1000 روپے تک فکسڈ چارجز بھی وصول کیے جائیں گے۔ ایک طرف حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ 200 یونٹ تک استعمال کرنے والے صارفین کو تحفظ دیا جائے گا اور ان پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا جبکہ حالیہ اضافہ 100 اور 200 یونٹ استعمال کرنے والوں پر بھی لاگو ہے۔ ماضی میں جب 200 یونٹس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے ریٹس بڑھائے گئے تو اس وقت بھی ان خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ جلد ہی 200 سے کم یونٹس استعمال کرنے والوں پر بھی بجلی گرائی جائے گی۔ وہ خدشات اب درست ثابت ہو رہے ہیں۔ سرکاری افسران کے مطابق یہ اضافہ اس لیے کیا گیا کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے 200 سے کم یونٹس استعمال کرنے والوں کے لیے ریٹس نہیں بڑھائے گئے۔ تقریباً سوا تین کروڑ صارفین اس اضافے سے براہ راست متاثر ہوں گے۔ ان میں 80 فیصد سے زیادہ وہ لوگ ہیں جو یا تو بہت غریب ہیں اور یا متوسط طبقے کے نچلے درجے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اس فیصلے سے تقریباً 580 ارب روپے زیادہ وصول کر ے گی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس اضافی رقم کو وصول کرنے کے بعد بجلی کے شعبے کے معاشی مسائل حل ہو جائیں گے؟پچھلے تین سالوں سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن ابھی تک نقصانات پورے نہیں ہوئے‘ کیونکہ مسئلہ بجلی چوری کا ہے نہ کہ بجلی کے ٹیرف کا۔ اگر بجلی چوری نہیں روکی جائے گی تو بجلی مہنگی کرنے سے فائدے کے بجائے نقصان زیادہ ہو گا۔ جتنی بجلی مہنگی ہو گی اتنی ہی چوری بڑھے گی۔ حقائق عوام کے سامنے رکھنے کے بجائے سرکار نے اس کا ذمہ دار بھی آئی ایم ایف کو قرار دے دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف توانائی کے شعبے میں نقصانات کو منافع میں بدلنے پر زور دے رہا ہے۔ سرکار بجلی کی چوری روکنے اور بیورو کریسی کے شاہانہ اخراجات کو کم کرنے کے لیے تیار نہیں‘ جس کی قیمت عوام ادا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے صنعتکاروں کو دس روپے فی یونٹ بجلی سستی مہیا کرنے کے لیے 200 ارب روپے کا پیکیج دیا تھا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے اسے بھی منظور نہیں کیا گیا‘ جس کی وجہ سے ریلیف میں تقریباً دو روپے فی یونٹ تک کمی کی گئی ہے۔ اگر حکومت نے اپنی سمت درست نہ کی تو جو تھوڑا بہت ریلیف بچ گیا ہے اسے بھی ختم کرنا پڑ سکتا ہے۔ مسئلہ صرف توانائی کے شعبے میں بدترین کارکردگی کا نہیں بلکہ سرکار تقریباً تمام سرکاری اداروں میں اصلاحات میں ناکام رہی ہے۔ پبلک سیکٹر انٹر پرائزز کا بوجھ بھی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ پبلک سیکٹر انٹر پرائزز کا مجموعی قرض 17 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ملک کے سرکاری ادارے اگر 17 کھرب کے نقصانات کر چکے ہیں تو فی الفور ان اداروں کو بند کر دینا یا نجی سیکٹر کے حوالے کر دینا چاہیے۔ جو عوام اپنی استعمال کردہ بجلی کے بل ادا نہیں کر پا رہے وہ سرکاری بابوﺅں کی ناکامیوں کی قیمت کیونکر ادا کریں؟ عام آدمی کے لیے سبسڈی اور گرانٹس کے لیے سرکار کے پاس فنڈز نہیں تو پھر ان اداروں کی امداد گرانٹس اور سبسڈیز سے کیسے کی جا رہی ہے؟ یعنی وہی بات کی بات کہ سخت فیصلے صرف غریبوں کے لیے رہ گئے ہیں؟ کیا اشرافیہ کی بھی مراعات کم کی گئی ہیں؟ اس حوالے سے کیا کسی نے کوئی پریس کانفرنس کیں۔ پوری دنیا میں ایک قانون ہے کہ جوں جوں آپ کی آمدنی بڑھتی ہے، آپ ویسے ویسے ٹیکس بھی زیادہ دیتے ہیں۔ آپ ابھی تک یہ بتادیں کہ یہاں چوٹی کے امیر افراد پر کتنا اضافی ٹیکس لگا۔ لیکن یہاں آمدنی بڑھانے والوں کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ کیا جعلی ہاﺅسنگ سوسائٹیز بنانے والوں پر بھی شکنجہ کسا گیا ؟ کہیں نہیں ایسا ہوا، کیوں کہ یہاں اشرافیہ کی اپنی اپنی ہاﺅسنگ سوسائیٹیاں ہیں۔ کیا شوگر ملوں پر بھی کوئی ٹیکس بڑھایا گیا ہے؟ کہیں ایسا نہیں ہوا۔ کیوں کہ تمام شوگر ملیں اشرافیہ کی اپنی ہیں۔ کیا فلور ملوں پر بھی کوئی ٹیکس بڑھایا گیا ہے؟ نہیں! کیوں کہ تمام شوگر ملیں اشرافیہ کی اپنی ہیں۔ اور پھر کیا آئی پی پیز مالکان کی آمدنی پر بھی ٹیکس لگا ہے؟ چلیں معاہدے توڑے نہیں جا سکتے، لیکن اُن کمپنیوں پر ٹیکس تو لگایا جا سکتا ہے ناں! بتائیں کتنا ٹیکس لگا ہے؟ الغرض کسی ایسی چیز پر انہوں نے ٹیکس نہیں بڑھایا جس سے اشرافیہ کو کوئی فرق پڑ سکے! یا پھر سارا بوجھ ان غریبوں پر ڈالنا ہے، جو پہلے ہی پسے ہوئے ہیں۔ جو پہلے ہی خودکشیاں کر رہے ہیں۔ اب اگر تمام لوگ بجلی کے بلوں کی وحشت کو دیکھتے ہوئے سولر سسٹم پر چلے گئے ہیں تو اس میں قصور کس کا ہے؟ اب ایسے فیصلے حکومت ہی غلط کر رہی ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اب اگر آئی پی پیز کو پیسے انہوں نے دینے ہی دینے ہیں تو کیا یہ غریبوں سے لے کر دینے ہیں؟ بہرحال یہ بات تو طے ہے کہ یہ حکمران عوام کو ایک انقلاب کی طرف دھکیل رہے ہیں، اور انقلاب تبھی آتے ہیں جب آپ کی آمدنی آپ کے اخراجات پر ہاوی ہو جائے۔ الغرض یہاں کوئی سسٹم نہیں ہے کہ کس طرح اس ملک کو چلایا جا ئے! آپ خود دیکھ لیں کہ ہمارا عدالتی نظام بہت بہتر انداز میں چلایا جا رہا تھا کہ سینئر ترین جج متعلقہ عدالت کا چیف جسٹس بنے گا لیکن لاہور ہائیکورٹ میں اس کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کردی گئی۔ جسٹس عالیہ نیلم سینیارٹی کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر تھیں ، لیکن ہماری جوڈیشل کونسل جس کی سربراہی چیف جسٹس سپریم کورٹ کر رہے تھے نے جسٹس عالیہ نیلم کو چیف جسٹس ہائیکورٹ لگا دیا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ 1996 کے الجہاد کیس میں یہ طے ہوا تھا کہ سب سے سینیئر جج ہی ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر ہوگا اور اس معاملے میں سینیارٹی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ 1996 کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں کسی جج کا تقرر سینیارٹی کے اصول سے ہٹ کر کیا گیا ہے۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں جسٹس فخرالنسا کھوکھر کو سینیارٹی کے اصول کے تحت نظر انداز کیا گیا اور ان کی جگہ جسٹس افتخار حسین چودھری کو چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ 1996 میں اسی فیصلے کی بنیاد پر اُس وقت کے سب سے سینیئر جج جسٹس خلیل الرحمان خان، جنھیں وفاقی شرعی عدالت بھیج دیا گیا تھا، کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مقرر کیا گیا۔مارچ 2024 کے دوران جسٹس ملک شہزاد احمد خان لاہور ہائیکورٹ کے وہ آخری چیف جسٹس تھے جن کا تقرر سینیارٹی کی بنیاد پر ہوا تھا۔ خیر انہوں نے اپنے مفادات کے لیے سسٹم کو بھی مولڈ کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ جیسے ہی اختیارات ان کے پاس آئیں یہ لوگ سسٹم دھرم بھرم کر کے رکھ دیں۔ آپ یہ دیکھیں کہ اگر اوباما امریکا کا صدر بنتا ہے تو کیا وہ وہاں کے سسٹم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا رہا؟کیا اُس نے کالے امریکیوں کے لیے کوئی نئے قوانین پاس کروائے؟ نہیں ناں؟ اُس نے جو بھی کیا سسٹم میں رہتے ہوئے کیا۔ پھر برطانیہ کا وزیر اعظم ہندو ہوا، تو کیا وہاں پر اُس نے ہندو ازم کو فروغ دیا؟ یا میئر لندن صادق خان مسلمان ہوا تو کیا اُس نے وہاں اسلام کو فروغ دیا؟ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا، ہر ملک ایک سسٹم کے تحت چلتا ہے، لیکن یہاں کسی فرد واحد کے پاس جیسے ہی اختیارات آتے ہیں تو وہ سسٹم کا ”باپ“ بن جاتا ہے۔ وہ سسٹم کو کچھ نہیں سمجھتا، بلکہ سب کو حقیر جانتا ہے۔ یہاں آپ سابقہ آرمی چیف کی کارکردگی کو دیکھ لیں، یا سابقہ چیف جسٹس صاحبان کو دیکھ لیں، جن کے پاس اختیارات آئے اُس نے پھر رحم نہیں کیا۔ الغرض اس ملک کو کیا بنا کر رکھ دیا ہے، بلکہ اس ملک میں تو آرمی چیف بھی موسٹ سینئر افسر ہونا چاہیے، پسند نا پسند کا چکر ہی ختم کر دینا چاہیے۔ تبھی ہم میرٹ کی بات کر سکتے ہیں، ورنہ اس ملک میں آئندہ بھی ایسے ایسے فیصلے ہوں گے کہ ہم حیران رہ جائیں گے،،، یقین مانیں ہمیں اُن فیصلوں کے بعد آج کا دور اچھا لگنا شروع ہو جائے گا اور پھر انقلاب آنے میں دیر نہیں لگے گی اور ہم یا ہمارے بچے اس انقلاب کا حصہ ہوں گے،،، بقول شاعر ساحر لدھیانوی ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف اگر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی