احتجاج کی سیاست جماعت اسلامی کو فائدہ دے گی!

مہنگائی کے خلاف جماعت اسلامی کا دھرنا اس وقت راولپنڈی میں جاری ہے، جبکہ دوسری جانب ملک کی سب سے بڑی مگر اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں پر مقدمات میں اس قدر کھپا دیا گیا ہے کہ وہ تاریخی مہنگائی اور عوامی مسائل پر بات کرنے کے قابل ہی نہیں رہی۔ ایسے میں جماعت اسلامی کو میدان خالی ملا اور اُس نے وہی کیا جو اُسے کرنا چاہیے تھا۔ مہنگائی، بجلی بلوں اور ٹیکسوں میں اضافے کے خلاف جماعت اسلامی راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔اس دھرنے کی قیادت امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کررہے ہیں۔ بقول اُن کے حکومت اگر ایک گھنٹے میں مطالبات تسلیم کر لیتی ہے تو وہ ایک گھنٹے میں دھرنا ختم کر دیں گے۔ شہرِ اقتدار میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باعث سکیورٹی فورسز نے اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کو دھرنے کی اجازت نہیں دی۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے کارکنان اور قیادت کو روکے جانے کے بعد جماعت اسلامی نے پلان بی کے تحت جڑواں شہروں کے مختلف علاقوں میں دھرنا دیا۔ جمعہ کے روز جڑواں شہروں کی متعدد شاہراہوں پر احتجاج ہوتا رہا، اب راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جماعت اسلامی کا دھرنا جاری ہے۔ دھرنے میں شامل لوگوں کی تعداد سے قطع نظر اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا احتجاج ابھی تک پرامن ہے جس کا کریڈٹ بہر صورت قیادت کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے کارکنوں کو بے مہار نہیں چھوڑا۔یہ حقیقت ہے کہ عوام کی بنیادی ضروریات کا پوری نہ ہونا انہیں احتجاج پر مجبور کرتا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور بنیادی ضرویات سے محرومی جب حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو لوگ اپنی آواز بلند کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے جسے روکا نہیں جا سکتا، کہا جا رہا ہے جماعت اسلامی کے دھرنے میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہے جو جماعت اسلامی سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود مہنگائی کے خلاف اس احتجاج کا حصہ بنے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ خالصتاً عوامی احتجاج دکھائی دیتا ہے۔ خیر اگر ہم ماضی کی بات کریں تو جہاں تک جماعت اسلامی کے سابقہ امرا‘ قاضی حسین احمد‘ جناب سیّد منور حسن‘ محترام سراج الحق اور اب حافظ نعیم الرحمن کا تعلق ہے تو اُن سب کی جماعت اسلامی کے دیانت و امانت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی کرشماتی شخصیات کم و بیش ایک جیسی ہی ہیں۔بقول شخصے قاضی حسین احمد کے بعد صحیح قیادت جماعت اسلامی کو اب نصیب ہوئی ہے، کیوں کہ سراج الحق اور سید منور حسین دھیمے اور دفاعی مزاج کی شخصیات تھیں جبکہ اس کے برعکس قاضی حسین احمد اور حافظ نعیم الرحمن Attackingشخصیات ہیں۔ جو بھلے وقت کا انتظار نہیں کرتے بلکہ حکومت وقت کے لیے کڑے سے کڑا امتحان لانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ اگر مختصراََ حافظ نعیم الرحمن کے جماعت اسلامی میںخدمات کے حوالے سے بات کریں تو حافظ صاحب کی عملی سیاست میں شاندار پرفارمنس ہے۔کبھی کراچی امن کا گہوارا ہوا کرتا تھا۔ یہ جماعت اسلامی کا شہر سمجھا جاتا تھا۔ پھر عروس البلاد کو کسی کی نظر لگ گئی‘ یوں پ±رامن اور غریب پرور بستی مقتل میں بدل گئی۔ گزشتہ ایک دہائی کی شبانہ روز محنت اور خدمتِ خلق کے سچے جذبے نے حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں جماعت اسلامی کو ایک بار پھر شہرِ قائد کی بلدیہ عظمیٰ کے انتخابات میں زبردست کامیابی سے ہمکنار کیا۔ جنوری 2023ءکے بلدیاتی الیکشن میں بھی کئی غیر جانبدار رپورٹوں کے مطابق زبردست دھاندلی ہوئی تھی۔ میئر کارپوریشن کے انتخاب کے موقع پر ک±ل 246 عام سیٹوں کے بلدیاتی ایوان میں پیپلز پارٹی کے پاس 93‘ جماعت اسلامی کے پاس 86 اور پی ٹی آئی کو 40 یونین کونسلوں کی نمائندگی ملی تھی۔ اس موقع پر اگر کراچی کارپوریشن میں پی ٹی آئی کے نمائندے حافظ صاحب سے بے وفائی نہ کرتے تو وہ کراچی میئر منتخب ہو جاتے۔ 1979ءسے لے کر 2005ءتک‘ جماعت اسلامی تین بار بلدیہ عظمیٰ کراچی کی میئر رہی۔ پہلے دو بار عبدالستار افغانی اور پھر 2001ءمیں نعمت اللہ ایڈووکیٹ میئر منتخب ہوئے تھے۔ دونوں صاحبان نے دیانت و امانت اور حسنِ کارکردگی کے وہ چراغ جلائے کہ جن کی روشنی ملک سے باہر بھی دور دور تک پھیل گئی اور عالمی اداروں نے بھی انہیں بہت سراہا۔ لیکن یہ جماعت ملک بھر کے انتخابات میں انتہا کی حد تک مایوس کن کارکردگی دکھاتی رہی ہے، جیسے 2024ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی بشمول پنجاب ہر جگہ انتخابی کارکردگی مایوس کن تھی‘ سوائے کراچی کے۔کراچی میں مختلف ملکی و غیر ملکی رپورٹوں کے مطابق بڑی جارحانہ دھاندلی ہوئی۔ اس دھاندلی میں بعض غیبی طاقتوں نے ایم کیو ایم کی سرعام طرفداری و جانبداری کی اور الیکشن پر مامور عملے سے بھی حسبِ منشا نتائج حاصل کئے اور یوں جماعت کے دعوے کے مطابق ا±ن کی واضح کامیابی سے ایم کیو ایم کی خالی جھولی کو بھر دیا گیا۔ حافظ نعیم الرحمن صاحب کا یہی پہلا بڑا امتحان ہے کہ کیا وہ عوام کو یہ اعتماد دلا سکیں گے کہ اب جماعت اسلامی ہی ان کے مسائل کا حل تلاش کرے گی۔ اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت اوچھے ہتھکنڈوں کے باعث یہ پرتشدد بھی ہو جائے۔ کیوں کہ میری ذاتی طور پر بھی حافظ صاحب سے ملاقات ہوئی ہے تو اُن کے حکومت مخالف عزائم کلیئر پوزیشن پر تھے، وہ عوام کو ہر صورت ریلیف دینا چاہتے ہیں، میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا آپ سیاسی اسٹنٹ تو نہیں کھیل رہے، جیسے ہمارے سیاستدان کھیلا کرتے ہیں، لیکن اُن کی سنجیدگی نے مجھے بھی اُن کی تعریف کرنے پر مجبور کردیا۔ میرے خیال میں وہ جانتے ہیں کہ احتجاج کی اہمیت کیا ہوتی ہے؟ وہ جانتے ہیں کہ احتجاج حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیا کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو اُنہیں Aggressiveہونا پڑے گا۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ موجودہ چور ڈاکو، لٹیرے سیاستدان بغیر احتجاج کے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش میں طلبہ احتجاج کے ساتھ عام عوام بھی شامل ہوگئے اور 7دنوں میں بنگلہ دیشی حکومت کو زمین پر بٹھا دیا۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ بنگلہ دیش کی ”مضبوط “ وزیر اعظم جسے بھارتی آشیر باد حاصل ہے، اقتدار پر بیٹھے ایک دہائی سے زائد عرصہ ہو چکا ہے۔ کو شاید ہی اتنے پرتشدد احتجاج کا سامنا ہوا ہو۔ یعنی جولائی کے تیسرے ہفتے میں ڈھاکہ اور چٹاگانگ سمیت کئی شہروں میں طلبہ کے مظاہروں (بعد ازاں جن میں عام شہری اور سیاسی کارکن بھی شامل ہو گئے) نے ان کی حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ طلبہ کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنے مطالبات کے حق میں پرامن مظاہروں کا اہتمام کیا تھا لیکن یہ مظاہرے پ±رتشدد اور خونریز ہونے میں دیر نہیں لگی۔ طلبہ کی طرف سے اس کی ذمہ داری حکومت پر ڈالی جا رہی ہے جس نے ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کر کے مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کی۔سات دن تک جاری رہنے والے ان مظاہروں کے دوران 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے مگر حسینہ واجد حکومت کے لیے سب سے حیران کن اور صدمہ پہنچانے والا اقدام مظاہرین کا ڈھاکہ میں سرکاری ٹی وی کی عمارت کو نذرِ آتش کرنا اور عمارت کے کئی حصوں کو تہس نہس کرنا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ احتجاج پرتشدد ہو جایا کرتے ہیں، ابھی ہم اسی قسم کا احتجاج فرانس کا نہیں بھولے جو کئی دن تک جا ری رہا، جس کے باعث حکومت کو گھٹنے ٹیکنا پڑے تھے۔ پاکستان میں بھی ایسے ہی کسی احتجاج کی ضرورت ہے جس میں عوام بھرپور حصہ لیں۔ خدانخواستہ میں یہ نہیں کہہ رہاکہ اُس میں چند ہلاکتیں بھی ہوں مگر یہ ضرور کہوں گا کہ احتجاج میں عوام شرکت کرے۔ تبھی اُنہیں ریلیف مل سکتا ہے۔ اور ویسے بھی جب تک بچہ روتا نہیں ہے، ماں بھی اُسے دودھ نہیں دیتی۔ اس لیے ریاست کو بسا اوقات جھنجوڑنا بھی پڑتا ہے، تاکہ وہ عوام کو ریلیف دے ۔ لہٰذاجماعت اسلامی اس میں پل کر کردار ادا کر سکتی ہے۔ جماعت ہی مصائب زدہ عوام کی دستگیری کرکے وہ مقبولیت اور محبوبیت کے نئے سنگِ میل قائم کر سکتی ہے۔ ویسے یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام نے مگر ہماری جملہ سیاسی جماعتوں کے دھرنوں اور احتجاجوں کے نام پر اتنے دھوکے کھائے ہیں کہ اب ہر دھرنے کو سراب ہی سمجھا جاتا ہے۔ آپ باقی دھرنوں احتجاجوں کو چھوڑیں، سابق امیرِ جماعتِ اسلامی، قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور، نے بھی نہائت توانا اور پر جوش دھرنے دیے تھے۔ قاضی صاحب مرحوم کے دَور میں بھی نعرے بلند کیے گئے :” ظالمو، قاضی آ رہا ہے۔“ اس احتجاج میں طلبہ بھی شریک ہوتے تھے اور کارکن بھی۔ اس کااثر یہ ہوتا تھا کہ حکومت پر ایک خوف ضرور ہوتا تھا۔ اوراسی وجہ سے اُس وقت کی حکومت جماعت اسلامی کو اہمیت بھی دیا کرتی تھی ۔ لہٰذامجھے لگ رہا ہے کہ اب جماعت اسلامی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ دوبارہ حاصل کرے گی۔ بہرکیف جماعت کی داخلی سیاست سے جڑے افراد کو حافظ نعیم الرحمن سے بہت سی سیاسی امیدیں ہیں کہ وہ جماعتی داخلی سیاست میں کچھ نئی تبدیلیوں کے ساتھ خود کو بھی اورجماعت کی بھی نئی شکل بنانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی بنیادی طور پر اپنی سیاسی اور بالخصوص انتخابی سیاست سے جڑی بقا کی جنگ لڑرہی ہے۔کیونکہ پچھلے کئی دہائیوں سے جماعت اسلامی انتخابی سیاست میں تنہائی کا شکار ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی کی جو بھی سوچ ہے اور جو کچھ سابق امیر جماعت اسلامی کی حکمت عملی تھی اس میں یقینی طور پر تبدیلی کے امکانات موجود ہیں ۔اور رہی بات عوام کو ریلیف دینے کی تو اس کے سو فیصد امکانات تو موجود نہیں ہیں مگر حکومت وقت کے اوچھے ہتھکنڈوں کو نتھ ڈال کر حافظ صاحب یقینا نہ صرف جماعت اسلامی میں ایک نئی روح پھونکیں گے، بلکہ اُن کے اپنے سیاسی کیرئیر کے لیے بھی یہ دھرنا تاریخی حیثیت رکھے گا!