بلوچستان کی آگ : ہم کہیں تو غلط ہیں؟

دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی لوگ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، مجھے اُن سے دلی لگاﺅ رہتا ہے، میرے دل میں اُن کے لیے ہمیشہ ہمدردی رہتی ہے، ایک وقت تھا جب میں بلوچ تحریک کو بھی درست سمجھتا تھا، کیوں کہ ان لوگوں کو وہ حقوق نہیں ملے جو ملنے چاہیے تھے، پھر وہاں مذاکرات کے بجائے قوت کا استعمال کرکے معاملات کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے بڑھاوا دیا گیا۔ پھر یہ لوگ سرکار کے مخالف ہوگئے اور سکیورٹی فورسز پر حملے شروع کردیے۔ جس میں درجنوں اہلکار اور افسران بھی شہید ہوئے ۔ جبکہ جواب میں بلوچستان کے باغی افراد بھی ہلاک کیے گئے، خصوصاََ یہ باغی افراد بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ نامی کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں جس کا ذکر بعد میں کروں گا ۔ بظاہر تو اس تنظیم کا مقصد اپنے حقوق کی جنگ لڑنا ہے لیکن اس نام نہاد جنگ میں انہوں نے نہتے افراد کو خاص طور پر جن کا تعلق پنجاب سے ہے کو چن چن کر قتل کرنا شروع کردیا ہے۔ لہٰذاکوئی بھی ذی شعور شخص جو دنیا میں اپنے حقوق کے لیے جنگ لڑنے والوں کے بارے میں جانتا ہے، وہ کبھی بھی بلوچ موومنٹ کے حالیہ کردارکی تعریف نہیں کر سکتا۔یعنی آپ خود دیکھ لیں کہ دو روز قبل نواب اکبر بگٹی کی 18 ویں برسی پر بلوچستان میں جس طرح سے دہشت گردی کی قیامت برپا ہوئی ، اس نے سب کو سہما کے رکھ دیا ساتھ ہی پچھلے دو عشروں میں سیکورٹی نظام کی تباہی یا چلیئے ، کمزوری کو بھی آشکار کر دیا۔ دہشت گردوں نے ایک جگہ 23 شہری شناختی کارڈ دیکھ کے یعنی یہ یقینی بنا کر کہ پنجابی ہیں، شہید اور دس زخمی کر دیئے، درجنوں گاڑیاں، بسیں نذر آتش کر دیں۔ ایک جگہ گھات لگا کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 14 ارکان شہید کر دئیے ، ایک جگہ 6 لاشیں لٹکا دیں، ایک جگہ 5 شہری شہید کئے، دو جگہ سے ریلوے کے پل آڑا دئیے، دو مقامات پر تھانے اپنے قبضے میں لے لئے ، کوہ سلیمان میں پنجاب بلوچستان کو ملانے والی شاہراہ اپنے قبضے میں لے لی۔ پھر یہی نہیں بلکہ کچے کے ڈاکوﺅں کو دیکھ لیں، وہ بھی اپنے تئیں ”حقوق“ کی جنگ لڑ رہے ہیں، لیکن وہ بھی اپنی نام نہاد جنگ میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ نہتے شہریوں کو نشانہ بناتے نظر آتے ہیں، پھر آپ کے پی کے میں دیکھ لیں، وہاں بھی طالبان موجود ہیں، بلکہ منظم طالبان موجود ہیں جو کسی بھی اشارے کے منتظر ہیں۔ یعنی اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ اس وقت ملک میں سکیورٹی کی کیا صورتحال ہے، جو تنظیم شخصیت یا بیرونی طاقتیں جب چاہیں، عام شہریوں کو نشانہ بناتی ہیں، بیرون ملک سے آئے انجینئرز پر برستی ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان کو رسوا کرتی ہیں۔ کیا ایسے میں کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں امن کا بول بالا ہے؟ چلیں مان لیا کہ بلوچستان میں بھارت سمیت دنیا کی 20سے زائد خفیہ ایجنسیاں اپنے اپنے مفاد کے لیے پاکستان کے لوگوں کو ہی پاکستان کے خلاف کام کرنے کے لیے اُکسا رہی ہیں اور اربوں ڈالر خر چ کر رہی ہیں۔ تو کیا ہماری دنیا کی نمبر ون سکیورٹی ایجنسیاں صرف کیمرہ پوزنگ کر رہی ہیں؟ یا محض یاحملوں کی پیشگی اطلاع دے کر خود کو بری الذمہ قرار دے دیتی ہیں۔اگر انہیں علم ہو جاتا ہے کہ دہشت گرد حملے متوقع ہیں تو انہیں جگہ اور تنظیموں کی مکمل جانکاری بھی ہونی چاہیے تاکہ بروقت اقدامات کرکے معصوم شہریوں کی جانوں کو بچایا جا سکے۔ ہمیں کم از کم یہ تو دیکھنا چاہیے کہ دشمن کا کام ہی آپ کو اندر سے کھوکھلا کرنا ہے، لیکن بدلے میں آپ اپنے دفاع میں کیا کر رہے ہیں؟ فائر وال لگا رہے ہیں؟ اپنے لوگوں کو پکڑ کر جیلوں میں ڈال رہے ہیں تاکہ لوگ مزید متنفر ہوں،،، خیر بات ہو رہی تھی حالیہ حملوں کی تو اس میں یقینا بلوچستان لبریشن آرمی کا ہی ہاتھ ہے، اور انہوں نے اس کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ اگر اس تنظیم کی تاریخ پر روشنی ڈالیں تو یہ پہلی مرتبہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں وجود میں آئی تھی جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی گئی تھی۔تاہم فوجی آمر ضیاالحق کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے نتیجے میں بلوچ قوم پرست رہنماﺅں سے مذاکرات کے نتیجے میں مسلح بغاوت کے خاتمے کے بعد بی ایل اے بھی پس منظر میں چلی گئی۔ پھر سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار میں بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کی گرفتاری کے بعد 2000 سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیات اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان حملوں میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ ان کا دائرہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پھیل گیا۔ان حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری بی ایل اے کی جانب سے قبول کی جاتی رہی۔ 2006 میں حکومتِ پاکستان نے بلوچ لبریشن آرمی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا اور حکام کی جانب سے نواب خیر بخش مری کے بیٹے نوابزادہ بالاچ مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا جاتا رہا۔جبکہ اسی سال اس وقت کے فوجی آمر پرویز مشرف کی حکومت کے ساتھ نواب اکبر بگٹی کا ٹکراو¿ ہوا اور 2006 میں ایک فوجی آپریشن میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت ہوئی۔اس کے بعد ریاست مخالف جذبات میں اضافہ دیکھا گیا اور رد عمل میں بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ تیز ہو گیا۔پھر نومبر 2007 میں بالاچ مری کی ہلاکت کی خبر آئی اور کالعدم بی ایل اے کی جانب سے کہا گیا کہ وہ افغانستان کی سرحد کے قریب سکیورٹی فورسز سے ایک جھڑپ میں ماراگیا۔ نوابزادہ بالاچ مری کی ہلاکت کے بعد بی ایل اے کی قیادت میں جو نام ابھر کر سامنے آیا وہ اسلم بلوچ تھا۔ ان کا شمار تنظیم کے مرکزی کمانڈروں میں کیا جانے لگا۔اسلم بلوچ کے دور میں ہی بی ایل اے میں ان کے زیر اثر گروپ کی جانب سے خود کش حملے بھی شروع کر دیے گئے جن کو تنظیم کی جانب سے فدائی حملے قرار دیا جاتا رہا۔ یہ تنظیم چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی بھی مخالفت کرتی رہی ہے اور اس نے اپنی حالیہ کارروائیوں میں پاکستان میں چینی اہداف کو بھی نشانہ بنایا ۔ بی ایل اے کی جانب سے اگست 2018 میں سب سے پہلے جس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی وہ خود اسلم بلوچ کے بیٹے نے ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین کے قریب کیا تھا۔اس حملے میں سیندک منصوبے پر کام کرنے والے افراد کی جس بس کو نشانہ بنایا گیا تھا اس پر چینی انجینیئر بھی سوار تھے۔اس کے بعد کالعدم بی ایل اے نے نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ حملہ تین خود کش حملہ آوروں نے کیا تھا۔جبکہ گزشتہ سال نومبر 2023ءمیں بلوچستان میں تشدد پسند تنظیموں کے حوالے سے ایک بڑی خبر سامنے آئی کہ وہاں موجود متحرک بلوچ عسکریت پسند تنظیموں میں انضمام کے لیے مذاکرات جاری ہیں ان میں سے دو بڑی تنظیموں بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچستان لبریشن آرمی میں اتفاق ہو ا۔ ویسے تو بلوچستان میں اس وقت متعددعسکریت پسند تنظیمیں سرگرم ہیں جن میں بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ریپبلکن گارڈ ، بلوچ لبریشن ٹائیگرز، بلوچ نیشنلسٹ آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی ، بلوچ ریپبلکن آرمی نمایاں ہیں۔لیکن ان سب کا مقصد بیرونی ایجنڈے پر رہ کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ بہرکیف ہمارے سکیورٹی اداروں کو یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کہیں تو غلط ہیں، ہم سے کہیں تو کوئی کوتاہی ہو رہی ہے، ہم بطور قوم سوچنے کے بجائے کیوں اپنے انفرادی فائدوں کو سوچ رہے ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ ان سب کو مار دیں، طاقت استعمال کرنے سے اگر کسی تنظیم کا یا گروہ کا قلع قمہ ہونا ہوتا تو آج یہودیوں کا دنیا بھر سے نام و نشان ختم ہو چکا ہوتا، یا فلسطینیوں کا جو حشر ایک سال میں ہوا ہے، وہ بھی ختم ہو چکے ہوتے۔ لہٰذایہ چیزیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان تنظیموں کو مذاکرات کی میز پر کیسے لانا ہے، یا ان سے کیسے نمٹنا ہے، ظاہر ہے یہ ان کی جاب ہے، اور میرے خیال میں جو عام شہری جاں بحق ہوتے ہیں ان کی ذمہ داری بھی ہمارے سکیورٹی اداروں پر ہی جاتی ہے۔ لہٰذاہمارے حکمرانوں اور فیصلہ کرنے والی قوتوں کو یہ بات سوچنا ہوگی کہ بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیمیں اس وقت بھی بڑے چیلنج کے طور پر موجود ہیں۔حالیہ جو بڑے حملے ہوئے ہیں وہ بی ایل ایف اور بی ایل اے نے کیے ہیں۔ ان میں تعاون تو کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے بس اب وہ اس کو ایک ڈھانچے میں ڈال رہے ہیں، یہ ریاست کے لیے چیلنج ہو گا۔ریاست کو یہ بھی ذہن نشین کرنا ہوگا کہ یہ سارے گروہ یکجا ہو چکے ہیں، ان کے لیے ردعمل دینا آسان ہے کیونکہ جب مختلف لوگ ایک ہی خیالات کے ہوں تو پھر ریاست کی کوشش ہوتی ہے سیاسی طریقے سے بھی اور تیکنکی اعتبار سے اس کو دیکھے اور اختلافات سے فائدہ اٹھائیں۔ماضی میں تنظیمیں اکیلے کارروائیاں کرتی تھیں جو اتنی موئڑ نہیں تھیں لیکن ان کے اتحاد کے بعد ان کی کارروائیوں میں زیادہ کوآرڈینیشن نظر آتی ہے۔ اس اتحاد کا مقصد بنیادی طور پر وسائل کا اشتراک کرنا تھا، سیاسی طور پر ہم آہنگی نہیں، جس نے اس کے اثرات کو محدود کیا۔حکومت پاکستان کو بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کو مزید متحد کرنے کی جاری کوششوں پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ورنہ آپ خدانخواستہ حالیہ حملوں سے بھی بڑے حملوں کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھیں!