چانسلر الیکشن اوکسفورڈیونیورسٹی: ہنگامہ ہے کیوں برپا!

دنیاکی بہترین جامعات میں سے ایک برطانیہ کی اوکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کی سیٹ اس وقت خالی ہے، جہاں 28اکتوبر 2024ء کو الیکشن شروع ہورہے ہیں، یہ عہدہ یونیورسٹی کے اولڈ طلبہ کے لیے اعزازی طور پر رکھا گیا ہے، جس میں دنیا بھر سے وہ طلبہ شرکت کر سکتے ہیں جنہوں نے زندگی میں کوئی اعزاز حاصل کیا ہو۔جیسے مذکورہ یونیورسٹی نے آج تک 28 برطانوی وزرائے اعظم پید اکیے، کم سے کم 30 بین الاقوامی لیڈرپیدا کیے، 55 نوبیل انعام یافتگان اور 120 اولمپک میڈل جیتنے والے یہیں سے فارغ التحصیل تھے۔اب پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور بانی تحریک انصاف عمران خان بھی اس عہدے کے لیے موزوں تھے تو اُن کی جانب سے اُن کے پرانے دوست اور تحریک انصاف کے سابق رہنما زلفی بخاری نے آکسفرڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے انتخاب کے لیے ان کی درخواست جمع کروا دی،وہ موزوں اس لیے بھی تھے کیوں کہ عمران خان نے 1972 میں آکسفرڈ یونیورسٹی کے کیبل کالج میں داخلہ لیا اور 1975 میں سیاسیات، فلسفے اور معاشیات میں گریجویشن کی سند حاصل کی۔ اس دوران انھوں نے کرکٹ کے میدان میں یونیوسٹی کے لیے کئی اعزاز جیتے۔ اس دوران بینظیر بھٹو بھی آکسفرڈ میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور عمران خان کے مطابق ان کے درمیان دوستی بھی تھی۔ 71 سالہ عمران خان پاکستان کی ان پانچ شخصیات میں سے ایک ہیں جن کا ذکر برطانیہ کی اس سب سے قدیم اور بین الاقوامی شہرت کی حامل آکسفرڈ یونیورسٹی نے اپنی ’فیمس اوکسونیئنز‘ کی فہرست میں شامل کیا ہے۔دیگر چار شخصیات پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان، سابق وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو، ان کی بیٹی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر فاروق احمد لغاری ہیں۔ اب اگر عمران خان اس عہدے کے لیے منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ 10سال کے لیے منتخب ہوں گے۔ آگے چلنے سے پہلے بتاتا چلوں کہ نئے چانسلر کے انتخاب کے لیے یونیورسٹی کی کونسل ’چانسلر الیکشن کمیٹی‘ تشکیل دیتی ہے جس کا کام قواعد و ضوابط کے مطابق انتخابی عمل کا انعقاد اور نگرانی ہوتا ہے اور وہ کسی طرح بھی اس عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرتی۔عمران خان کے لیے اس مقابلے میں حصہ لینا ووٹنگ سسٹم میں ایک حالیہ ترمیم کے بعد ممکن ہوا جس کے مطابق یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ اور عملے کے موجودہ اور سابقہ ارکان اب اپنا ووٹ آن لائن دے سکیں گے۔ اس حلقہ انتخاب کو کانووکیشن کہتے ہیں۔ اس سے پہلے امیدواروں اور ووٹروں کے لیے کونووکیشن میں ذاتی طور پر حاضری لازمی ہوا کرتی تھی۔یونیورسٹی کے مطابق اب دنیا بھر سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ اہل ووٹر چانسلر کے انتخاب میں حصہ لے سکیں گے۔ انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی حتمی فہرست اکتوبر میں شائع کی جائے گی، اور ووٹنگ کا عمل 28 اکتوبر سے شروع ہوگا۔10 سے کم امیدواروں کی صورت میں انتخاب کا صرف ایک دور ہوگا۔ امیدواروں کی تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں انتخابی عمل کا دوسرا راؤنڈ 18 نومبر کو شروع ہوگا۔اس سے قبل چانسلر کرسٹوفر فرانسس پیٹن 2003 سے اس عہدے ہر تعینات تھے جنھوں نے 31 جولائی کو استعفی دیا۔ 80 سالہ لارڈ پیٹن ہانگ کانگ کے آخری گورنر رہے اور اس سے قبل برطانوی کنزرویٹیو پارٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ تو کیا یہ عمران خان کے لیے اعزاز کی بات نہیں ہے،کیا ہمیں تمام مخالفت چھوڑ کراس اعزاز کو انجوائے نہیں کرنا چاہیے؟ کیا ہمیں ایسے اعزاز کو حاصل نہیں کرناچا ہیے جس سے پاکستان کی عزت میں اضافہ ہو؟ کیا ہمیں صرف اُسی چیزکا ساتھ دینا چاہیے جو پاکستان کے لیے نقصان دہ ہو؟ آج اگر خدانخواستہ پاکستان کے خلاف کوئی چیز سامنے آئے تو ہمارے ہی کئی سیاستدان اُٹھ کر دنیا بھر میں اُس کی تشہیر شروع کردیں گے۔ اور پھر کونسا پاکستانی ہے جس میں خوبیاں اور خامیاں موجود نہیں ہیں؟ سب میں خامیاں ہوتی ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ کسی کی خوبیاں بھی خامیوں میں بدل دی جاتی ہیں۔ لیکن صرف پاکستان کے لیے اگر کوئی اس اعزاز تک پہنچ گیا ہے، تو کیا ہمیں اُس کا ساتھ نہیں دینا چاہیے؟ کیاجب کوئی کھلاڑی یا ٹیم اتفاق سے یا محنت کرکے آگے پہنچتی ہے تو لوگ اسے Appriciateنہیں کرتے؟ پچھلے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں افغانستان سیمی فائنل تک پہنچ گیا تھا تو لوگوں نے اس کی تعریف کی تھی، کہ اُس نے یہ اعزاز حاصل تو کیا۔ خیر اس وقت برطانیہ کے تین سابق وزرائے اعظم ٹونی بلیئر، بورس جانسن اور تھریسامے بھی اُمید وار ہیںجبکہ چوتھے پاکستانی سابق وزیر اعظم ہیں۔ اس لیے ہمارے پاکستانی حکمران اور مخالفین بجائے اس اعزاز کو سراہنے کے ، وہ مخالفت کے جھنڈے نہ گاڑیں،،، جیسے ہماری ایک صوبائی وزیر کہتی ہیں کہ عمران خان کو آکسفرڈ یونیورسٹی کا نہیں بلکہ اڈیالہ جیل کے قیدیوں کا الیکشن لڑنا چاہیے، جبکہ ایک دوسرے وزیر بھی اسی قسم کی بیان بازی کرتے نظرآرہے ہیں۔ ویسے سمجھ سے یہ چیز باہر ہے کہ ہم محض سیاسی مخالفت میں ایسا کہہ رہے ہیں۔ کیا ہمیں یہ شرم نہیں آرہی کہ ہم نے اُسے فضول کیسز میں پھنسایا ہواہے، کبھی ہم عدت نکاح کا کیس سامنے لے آتے ہیں، تو کبھی توشہ خانہ1، توشہ خانہ 2اور کبھی اسلامی یونیورسٹی بنانے کا کیس۔ ایک چیز تو کلیئر ہے کہ اگر ایک شخص ایک بچے کی قمیض پر دستخط کردے اور وہ کروڑوں روپے کی بک جائے تو اُسے کرپشن کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور ابھی تک ویسے بھی کونسا کرپشن کا کیس اُس پر ثابت ہوا ہے، ابھی تک اُس نے کوئی غیرقانونی جائیداد نہیں بنائی، زمان پارک والا گھر اُس کے والد کا جبکہ بنی گالہ والا گھر اُس وزیر اعظم بننے سے پہلے کا ہے۔ کیا اُس کی کوئی فیکٹری نکلی؟ کوئی بیرون ملک جائیداد بنائی۔ لہٰذاآپ ایک لمحے کے لیے بھول کیوں نہیں جاتے کہ وہ ایک مخالف سیاستدان ہے، بلکہ یہ یاد رکھیں کہ وہ دنیا کی پانچ بہترین جامعات میں سے ایک کا چانسلر بننے جا رہا ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جس یونیورسٹی کا وہ چانسلر بننے جا رہا ہے وہ 900سال سے تعلیم کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے، دنیا میں اُس نے اتنے سائنسدان پیدا کیے ہیں کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہ یونیورسٹی ادریائے آکس کے کنارے، انگلستان میں واقع ہے، اس کے معنی (دریائے آکس کا گھاٹ) کے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد قدیم زمانے میں رکھی گئی تھی۔ لیکن منظم تدریس کا آغاز 1133ء سے ہوا جب پیرس کے رابرٹ پولین نے یہاں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ اس نے یونیورسٹی کی صورت 1163ء میں اختیار کی۔ اس میں اٹھائیس کالج ہیں جن کی اقامت گاہیں بھی ہیں۔اوکسفرڈ یونیورسٹی کی شہرہ آفاق بوڈیلین لائبریری دنیا بھر کی سب سے بڑی لائبریری ہے۔ یہاں کے طلبہ کے تعلیمی معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس ادارہ سے تعلیم حاصل کرنے والے 98فیصد طلبہ کامیاب اور اپنے ملک کے لیے بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔ خیر آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ عمران خان کے لیے پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ اس سے پہلے 2005 میں بریڈ فورڈ یونیورسٹی کے وی سی بھی رہے ہیں، یہ عہدہ انہوں نے 26فروری 2014ء کو اُس وقت چھوڑا جب وہ سیاست میں مکمل طور پر ’’ان‘‘ ہو چکے تھے۔ بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹی کو پروموٹ کرنے کے علاوہ ان کی ذمہ داریوں میں یہ کام بھی شامل تھا کہ سال میں دو مرتبہ طلباء کو ڈگری سے نوازا۔ یہ تقریب پانچ دن پر مشتمل ہوتی ہے۔یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق اپنی آٹھ سالہ چانسلر شِپ کے دوران انھوں نے یونیورسٹی میں نئے انسٹی ٹیوٹ آف کینسر تھیراپیوٹِکس کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کے بعد سے اس انسٹی ٹیوٹ اور عمران خان کے شوکت خانم میموریل ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سینٹر کے درمیان قریبی رابطے رہے ہیں۔ عمران خان جب اس عہدے سے مستعفی ہوئے تو اس وقت یونیورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر برائن کینٹر، نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا تھا: ’وہ یونیورسٹی کے لیے ایک ممتاز سفیر اور ہمارے طلبہ کے لیے زبردست رول ماڈل رہے ہیں۔‘ بہرکیف ایک پاکستانی آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بن رہا ہے،اور پاکستان میں پہلے جن لوگوں کو عالمی اعزاز ملا ہے کیا پاکستان کو ان سے عزت نہیں ملی، کیا ڈاکٹر عبدالسلام یا ملالہ یوسف کو اعزاز ملنے سے پاکستان کی عزت میں کمی ہوئی یا اضافہ ہوا؟ کیا ارشد ندیم کو گولڈ میڈل ملا، اُس سے پاکستان کی عزت میں اضافہ ہی ہوا ناں،،، اورپھر معذرت کے ساتھ ہمارے سیاستدان تو جی سی یونیورسٹی کے چانسلر بننے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ اور ویسے بھی ہمارے سیاستدانوں کا اخلاقی رویہ دنیا بھر کے 172ممالک میں سے 144ویں نمبر پر آتا ہے، دنیا میں کرپشن کے حوالے سے یعنی ایماندار ممالک میں ہمارا نمبر136واں ہے، انصاف دینے کے حوالے سے ہمارا ملک 142ویں نمبر پر آتا ہے۔ اور کھیلوں کے میدان میں ہم دنیا کے پہلے سو نمبر پر بھی نہیں آتے، تعلیم کی سہولیات دینے کے حوالے سے ہماری رینکنگ انتہائی کم ہے، ریسرچ میں ہم دنیا کے آخری نمبر پر ہیں، بدترین پاسپورٹ رکھنے والے ممالک میں ہمارا نمبر چوتھا ہے۔ دنیا بھر میں فقیر ہم ایکسپورٹ کر رہے ہیں، جگہ جگہ پاکستانیوں کے ویزے پر پابندی لگ رہی ہے، تو ایسے میں اگر کہیں سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نصیب ہونے والا ہے تو اس میں کسی کو تکلیف کیوں ہو رہی ہے؟ لہٰذاہمیں ہمیشہ پاکستان کے لیے یکجا ہونا چاہیے، پاکستان کے بارے میں سوچنا چاہیے، تاکہ ہم آگے بڑھ سکیں!