اختر مینگل کو ہی سنجیدگی سے لے لیں!

بلوچستان کا مسائل اتنے گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں کہ درست سمت میں جانے کا نام ہی نہیں لے رہے، کبھی وہاں قتل عام تو کبھی بدلے میں فوجی آپریشن، کبھی جبری گمشدگیاں تو کبھی لانگ مارچ کے اعلانات۔ آپ حالیہ دہشت گردی کے واقعات کو ہی دیکھ لیں، جس کے بعد فورسز نے آپریشن کیااور ملوث بلوچ انتہا پسندوں میں سے چند ایک کو مار گرایا تو بدلے میں دونوں اطراف کی شورش کو دیکھتے ہوئے رُکن قومی اسمبلی اوربلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اپنی سیٹ سے استعفیٰ دے دیا ۔ اُن کا استعفیٰ آتے ہی قومی سطح پر بحث کے لیے ایک بھرپور موضوع مل گیا، اختر مینگل کے استعفے کو اس لیے بھی اہمیت ملی کہ وہ اور اچگزئی کم و بیش واحد سردار رہ گئے ہیں جو قومی اسمبلی میں بلوچیوں کی نمائندگی کر رہے ہیں ورنہ تمام بلوچ رہنما یا تو حکومت اور فیصلہ کرنے والوں سے ناراض ہیں یا بیرون ملک بیٹھے ہیں۔ خیر اختر مینگل کے اسعتفے کی بات کریں تو انہوں نے ایک دبنگ سی پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے کہا کہ میں اپنے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکا، میں ریاست، صدر، وزیرِ اعظم پر عدم اعتماد کا اعلان کرتا ہوں، انہوں نے کہا کہ بڑی مدت کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ پارلیمنٹ آو¿ں گا، بلوچستان پر اپنا اٹل فیصلہ سناو¿ں گا، بلوچستان کے مسئلے پر سیر حاصل بحث ہونی چاہیے۔بلوچستان کے معاملے پر لوگوں کی دلچسپی نہیں، جب بھی اس مسئلے پر بات کرو تو بلیک آو¿ٹ کر دیا جاتا ہے، ملک میں صرف نام کی حکومت رہ گئی ہے، اس سیاست سے بہتر ہے میں پکوڑے کی دکان کھول لوں۔اس فیصلے کے بعد65 ہزار ووٹرز مجھ سے ناراض ہوں گے ان سے معافی مانگتا ہوں، قومی اسمبلی اجلاس میں آج میری تقریر سن لی جاتی تو استعفیٰ وہاں پیش کرتا مگر افسوس وہاں اظہارِ خیال نہیں کرنے دیا گیا، یہ اسمبلی ہماری آواز نہیں سنتی اس میں بیٹھنے کا کیا فائدہ؟اڈیالہ جیل بھیج دیں، کوٹ لکھپت بھیج دیں یا مچ بھیج دیں ان کی مرضی ہے، یہ میرے ضمیر کا فیصلہ ہے، واپسی کے راستے انہوں نے سب بند کر دیے ہیں، انہوں نے اس سے بھی زیادہ اہم ترین باتیں کیں وہ یہ تھیں کہ بلوچستان ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے، میں کہتا ہوں بلوچستان آپ کے ہاتھوں سے نکل نہیں رہا بلکہ نکل چکا ہے، بلوچستان میں بہت سے لوگوں کا خون بہہ چکا ہے، اس مسئلے پر سب کو اکٹھا ہونا چاہیے اس مسئلے پر ایک اجلاس بلانا چاہیے تھا جس میں اس مسئلے پر بات ہوتی۔میری باتوں پر اگر آپ کو اختلاف ہے تو آپ میری باتیں تحمل سے سنیں، اگر پھر بھی میری باتیں غلط لگیں تو مجھے ہر سزا قبول ہے، مجھے بے شک پارلیمنٹ کے باہر انکاو¿نٹر کردیں یا مار دیں لیکن بات تو سنیں ہمارے ساتھ کوئی بھی نہیں اور نہ کوئی بات سنتا ہے، وغیرہ ۔ بہرحال سردار اختر مینگل ہمارے لیے بہت اہم ہیں، ہماری سیاست کے لیے اہم ہیں، بلوچستان کی سلامتی اور امن کے لیے بہت ہیں، بلوچوں کے لیے بہت اہم ہیں، حکومتی امن پسند قوتوں کے لیے بھی وہ اہم ہیں، تبھی حکومت کی جانب سے اُن کے ساتھ مذاکرات کیے جا رہے ہیں، کہ وہ اپنا استعفیٰ واپس لیں، لیکن ابھی تک تادم تحریر سردار صاحب اپنے فیصلے پر اٹل ہیں۔ وہ اٹل ہوں بھی کیوں ناں! اُن کے بقول ایک عرصے سے اُن کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، اگر ہم اس حوالے سے تاریخ کا مطالعہ کریں تو سردار اختر مینگل اور ان کے والد عطاءاللہ مینگل (مرحوم) بلوچستان میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں، وہ بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ ہیں، اُن کے والد سردار عطاءاللہ خان مینگل بھی پاکستانی سیاست کا اہم ترین حصہ رہے انہوں نے 1962 میں قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کرکے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ انھیں بلوچستان کے سب سے پہلے وزیر اعلیٰٰ منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔اُن کی راہ پر چلتے ہوئے سردار اختر مینگل بھی متعدد بار رکن قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہر حال میں پاکستان کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، انہوں نے کبھی دوسرے بلوچ رہنماﺅں کی طرح الگ ہونے کا مطالبہ نہیں کیا۔ اگر اُن کے مطالبات تسلیم نہ کیے جا رہے ہوں تو وہ بجائے پہاڑوں پر چڑھنے یا باغیوں والا راستہ اپنانے کرنے کے بجائے اپنی سیٹ سے مستعفی ہو جاتے ہیں، جیسے حال ہی میں ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ 1997سے 1998 تک وزیر اعلیٰ بلو چستان کے عہدے پر فائز رہے لیکن پھر ن لیگ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئی تھی جس پر انہوں نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا تاہم صوبائی اسمبلی کی رکنیت سے دستبردار نہیں ہوئے تھے۔پھر انہوں نے 2006 میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے خلاف احتجاجاً قومی اورصوبائی اسمبلیوں سمیت سینیٹ کی رکنیت سے مستعفی ہو نے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت سردار اختر مینگل رکن صوبائی اسمبلی تھے جنہوں نے اپنی نشست چھوڑ دی تھی۔عمران خان کے دور حکومت میں سردار اختر مینگل نے عمران خان کی حمایت کا اعلان کیا تھا تاہم اس کے لیے انہوں نے اپنے 6 مطالبات رکھے تھے۔ پھر سال 2019 تک ان مطالبات پر عملدر آمد نہ ہونے پر عمران خان اور سر دار اختر مینگل کے درمیان دوریاں بڑھنے لگیںاور انہوں نے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ جس کے بعد 2022 میں ہی پی ڈی ایم اور بی این پی مینگل کے درمیان بھی اختلافات کی خبریں سامنے آنے لگیں اور پھر سال 2024 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد سردار اختر مینگل نے حزب اختلاف کی بینچز پر بیٹھنے کو ترجیح دی اور اب وہ مستعفی ہو گئے۔ بہرحال بقول سردار اختر مینگل کے کہ اُن پر ہونے والے ظلم کی داستانیں لمبی ہیں، لیکن سننے والا کوئی نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ اُن کے بھائی اسد اللہ مینگل کے قاتلوں کو آج تک نہیں ڈھونڈا گیا، حالانکہ آپ بھٹو کی کتاب ”افواہیں اور حقیقت“ پڑھ لیں، جسے الطاف احمد قریشی نے مرتب کیا ہے۔آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ کس نے اُسے مارا اور کہاں بغیر کفن کے اُس پر مٹی ڈال دی گئی، اسد مینگل بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار عطااللہ مینگل کے بڑے فرزند اور سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل کے بڑے بھائی تھے، جن کی عمر 19 سال تھی وہ کراچی میں نیشنل کالج میں زیر تعلیم تھے۔ اسد مینگل کو سیاسی بنیادوں پر بلوچستان کا پہلا جبری لاپتہ نوجوان قرار دیا جاتا ہے۔مختصرا اس کیس کے بارے میں بتاتا چلوں کہ بھٹو دور میں انہیں بلخ شیر مزاری کے گھر سے اُٹھایا گیا، اُن پر الزام تھا کہ وہ سکیورٹی فورسز کے خلاف لوگوں کو اُکسا رہے ہیں، اور بعد ازاں مزاحمت پر اُسے قتل کر دیا گیا۔ جبکہ بھٹو اس حوالے سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُن پر بھی دباﺅ ڈالا گیا کہ اس کیس کو دبا دیں اور کہہ دیں کہ اسد اللہ اور اُن کا دوست افغانستان بھاگ گئے ہیں وغیرہ لیکن بھٹو نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ کوئی عام اور معمولی واقعہ نہیں ہے، جسے گڑھا جائے اور لوگ اس پر یقین بھی کر لیں۔ حالانکہ سردار اختر مینگل بتاتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے ٹی وی پر ان کے ساتھ ایک پروگرام میں اعتراف کیا تھا کہ وہ اسد کو زخمی حالت میں مظفر آباد کشمیر میں جلالی کیمپ لائے تھے اور تشدد میں اس کی ہلاکت ہوئی۔خیر یہ الگ بحث ہے مگر عطاءاللہ مینگل کا جوان بیٹا قتل ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی غیر قومی کام نہیں کیا اور نہ ہی ایسا کرنے کے لیے لوگوں کو ترغیب دی۔ بہرحال ایک ایسے وقت میں جب صوبہ بلوچستان میں سکیورٹی صورتحال خراب ہو رہی ہے تو اختر مینگل جیسے رہنما کا پارلیمان سے باہر جانا تشویش ناک ہے، یہ استعفیٰ میرے خیال میں سُرخ جھنڈی ہے، اُن لوگوں کے لیے جو بلوچستان کے فیصلہ ساز ہیں، اور ویسے بھی اس حکومت کو ایس ایچ او سے آگے کا سوچنا چاہیے اور بلوچستان کے سیاست دانوں کے ساتھ معنی خیز بات چیت کرنی چاہیے۔ انہیں بلوچوں اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں فرق کرنا چاہیے۔ حکومت بلوچستان کے مسئلے کا حل صوبے کے تمام سیاست دانوں کے ساتھ مشاورت سے کر سکتی ہے اور اس سلسلے میں اختر مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ ان کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ اب ماہ رنگ بلوچ کے بارے میں کوئی یہ نہ کہے کہ وہ دنیا کی ایجنسیوں کے لیے کام کر رہی ہیں، بلکہ یہ دیکھا جائے کہ اُس نے خود کو تشدد سے الگ رکھا ہوا ہے اور وہ پرامن ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں سے جڑ رہی ہیں اور ان کو خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے۔اور ان کی اکثریت پڑھے لکھے لوگوں پر مشتمل ہے۔ بہرکیف اختر مینگل کے پارلیمانی نظام سے باہر آنے سے عسکریت بڑھ سکتی ہے، کیوں کہ اگر آگے جا کر اختر مینگل ’ری ایکشنری‘ ہو جائیں یا صرف یہ کہہ دیں کہ وہ اپنے کارکنوں کو اپنی جدوجہد کا من چاہا رستہ منتخب کرنے کے لیے آزاد چھوڑتے ہیں تو حالات مزید خراب ہوں گے۔اور پھرہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس وقت سی پیک کی بحالی اور تکمیل کو روکنے کیلئے فارن پاورز پوری طرح سرگرم ہیں، تشدد اور دہشت گردی کی نئی لہریں اسی کا شاخسانہ ہیں مگر اسکے توڑ کیلئے قابل عمل مشترکہ سیاسی و عسکری حکمت عملی کا فقدان نظر آتا ہے۔تو ایسے میں اگر اختر مینگل بھی پیچھے ہٹ گئے تو ہم عالمی برادری میں کیا منہ دکھائیں گے؟ اگر مینگل یہ کہہ رہے ہیں کہ بلوچستان میں اجتماعی قبروں اور لاپتا افراد کے مسائل کو حل کیا جائے تو اس میں قباحت کیا ہے؟ اور پھر اگر آپ بات نہیں سنتے تو یہی لوگ جب بین الاقوامی پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں تو پھر اُنہیں غدار قرار دیا جاتا ہے، اور پھر اختر مینگل جیسے سیاستدانوں نے تو کبھی ایسی بات نہیں کی وہ تو کہتے ہیں کہ ہونا تو یہ چاہئے کہ بلوچستان کے مسائل ملکی سطح پر حل ہوں اور جب ہم نے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی تو یہ آواز اب پھیل کر باہر چلی جائے تو اس میں ہمارا کیا قصور۔ لہٰذامقتدرہ اس مسئلے کو پیار سے ہینڈل کرے، کیوں کہ پہلے ہی ہمارے حالات ایسے ہیں کہ بلوچستان کی آدھی سے زیادہ قیادت بیرون ملک خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہے، جبکہ باقی ماندہ کو نہ تو ہم اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی اُنہیں پارلیمان میں بات کرنے دی جاتی ہے، اور اگر وہ چکنی چوپڑی باتیں کرتے ہیں تو اُسے میڈیا پر سے بلیک آﺅٹ کر دیا جاتا ہے، میرے خیال میں اگر آپ کسی مسئلے کو ڈسکس ہی نہیں کریں گے، اُسے موضوع بحث ہی نہیں بنائیں گے تو کیسے ممکن ہے کہ آپ اُس کا حل تلاش کر پائیں گے؟ اور رہی سردار اختر مینگل کی بات تو آپ اُنہیں ہاتھ پاﺅں جوڑ کر منا لیں تاکہ ہم مزید تباہی کی طرف نہ بڑھیں! یہ وقت کا تقاضا ہے اور اسی میں سب کی بھلائی ہے!