سی پیک منصوبہ : قوم کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں !

”مایوسی“ کو دور کرنے کے بارے میں جتنا کام پاکستان میں ہورہا ہے، اتنا شاید ہی کسی اور ملک میں ہو رہا ہو، لیکن تب بھی خوش رہنے والے 150ممالک میں ہمارا نمبر 105واں جبکہ اس سے پہلے ہمارا نمبر102واں تھا، یعنی ہم خوش باش ممالک میں اوپر جانے کے بجائے پستی کی جانب گامزن ہیں، جبکہ یہاں ہر تیسرا شخص”کرئیر کونسلر“ بنا ہوا ہے، جس کے پاس روزگار ہی نہیں وہ کرئیر کونسلر اور ”مثبت سوچ“ پر درجنوں کتابیں لکھ چکاہے! لیکن سرٹیفائیڈ موڈریٹر چند ایک ہی ہیں جو دلائل سے بات کرتے ہیں، اور اُن کی باتیں تجربات اور زندگی کا نچوڑ ہوتی ہیں۔ اس لیے تعلیم کی کمی کے باعث اور مثبت سوچ کو ہمارے نصاب کا حصہ نہ ہونے کے باعث ہماری عادات ایسی بن چکی ہیں کہ دنیا بھر میں ہونے والے ہر غلط کام یا صحیح کام کو اپنے ساتھ جوڑ دیتے ہیں اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے قوم ڈی مورالائز ہو جاتی ہے۔ اور یہ ڈی مورالائز ہونے کی عادت ایسی ہے کہ ہماری اس سے جان چھوٹنا ممکن ہی نہیں لگ رہا۔ مثلاََ گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر طوفان مچا ہوا تھا کہ پاکستان کے برے معاشی حالات کے باعث چین نے پاکستان سے 400ارب ڈالر نکال کر ایران میں انویسٹ کرنے کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں ۔ اور ساتھ ہی چینی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران وہ ملک نہیں جو ایک فون کال پر اپنی سمت تبدیل کر لے وغیرہ۔ خیر اس بات پر تو بعد میں بات کرتے ہیں، لیکن پہلی بات تو یہ ہے کہ چین پاکستان میں سی پیک کو لے کر 62ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے، یہ پراجیکٹ 2030ءمیں مکمل ہوں گے۔ کورونا وباءیا کسی اور وجوہات کی بنا پر اگر ان پراجیکٹس کی قیمت بڑھتی بھی ہے تو یہ 100ارب ڈالر سے آگے نہیں بڑھ سکتی، مگر یہ بات کامن سینس سے اوپر کی ہے، کہ چین نے 400ارب ڈالر پاکستان سے کیسے نکال لیے؟ حالانکہ ایران اور چین کا معاہدہ 25سال پر مشتمل ہے۔ اور ویسے بھی چین کا ”ون بیلٹ ون روڈ“ کا منصوبہ کسی ایک ملک کے لیے نہیں ہے بلکہ دنیا کے 70سے زائد ممالک کے لیے ہے، ”سی پیک“ پاکستان کی نظر میں چاہے یہ کتنا ہی بڑا منصوبہ کیوں نہ ہو مگر چین کی منصوبہ بندی میں یہ بہت چھوٹا پروجیکٹ کہا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ تو پوری دنیا کو اپنی معاشی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کا خواہش مند ہے۔اس منصوبے کے تحت ایشیا، افریقہ، یورپ سمیت دنیا کے 70 ممالک کو وہ ریل کے نظام، بحری اور زمینی راستوں سے جوڑ دینا چاہتا ہے۔اس منصوبے میں زیادہ توجہ انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹیشن اور توانائی پر دی جارہی ہے، چین اسے 2049 تک مکمل کرنے کے لیے پرامید ہے۔پاکستان کے علاوہ کئی ممالک اس کا حصہ بن چکے ہیں، جن میں روس، نیوزی لینڈ، فن لینڈ، برطانیہ اور سمیت دیگر شامل ہیں، یہ سب ممالک مل کر دنیا کے جی ڈی پی کا ایک تہائی حصہ رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اب تک اس پٹی اور شاہراہ کی تشکیل کے لیے 900 منصوبوں کا افتتاح ہوچکا ہے، جن کی لاگت 900 ارب ڈالر (900 کھرب روپے) ہے۔لہٰذاہمیں چین اور ایران کے بڑھتے تعلقات سے پشیمان نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ اس سے تو ہمیں خوش ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ چین جتنا ایران کے نزدیک ہوگا، اتنا ہی ایران بھارت سے دور ہوگا، جو شاید پاکستان کے مفاد میں بھی ہے اور گوادر جس کے نزدیک ترین ایرانی بندر گاہ چاہ بہار ہے اس کی اہمیت بھی کم ہو جائے گی۔ اور رہی بات پاکستان کے سی پیک کی تو الحمد اللہ سی پیک کے تحت کل 88 منصوبوں میں سے 19 مکمل ہوچکے ہیں جبکہ 28 پر کام جاری ہے اور 41 پائپ لائن میں پڑے ہیں۔ 2030ءتک ان منصوبوں سے ملازمت کے 50لاکھ مواقع پیدا ہوں گے۔ لہٰذااگر کسی کو اس میں شک و شبہ ہے تو وہ دور کر لے ، کیوں کہ چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ دنیا کے 70ممالک کی طرح پاکستان میں بھی جاری و ساری ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلی حکومتیں اس منصوبے کو اپنے نام اور تصاویر کے ساتھ منصوب کر کے تشہیری مہم جاری رکھتی تھیں جبکہ موجودہ حکومت ایسا فعل کرنے سے عاری نظر آتی ہے۔ پھر اگر ہم ایران اور چین کے مابین طے پانے والے 25 سالہ اقتصادی اور اسٹرٹیجک اشتراک کے معاہدے پر نظر ڈالیں تو معاہدے کے تحت چین ایران کے قدرتی وسائل اور تیل کے ذخائر کو ڈیویلپ کرے گا۔ جواب میں ایران چین کو تیل اور گیس پر رعایتی نرخ اور ادائیگیوں میں تاخیر کرنے اور مقامی کرنسی میں ادائیگی جیسی چھوٹ دے گا۔ قارئین کو مطلع کر تا چلوں کہ چین اور ایران دنیا کے اُن چند ایک ممالک میں شامل ہیں جو ہمیشہ امریکا کے زیر اعتاب رہتے ہیں اور متعدد اقتصادی پابندیاں جھیلتے رہتے ہیں اس لیے ان کا آپس میں تجارت کرنا کسی کے لیے حیرت کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔ اور دوسری طرف ایران میں کساد بازاری کا یہ حال ہے کہ کرنسی کی قیمت آدھی رہ گئی ہے اور گرانی سے شہری بے حال ہیں۔ایرانی صدر کہتے ہیں کہ ان کا ملک تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزررہاہے۔ ایران کا خیال تھا کہ بھارت اس کی مدد کو آئے گا۔دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں سے گہرے اسٹرٹیجک تعلقات قائم تھے۔ بھارت نے ایران کے اہم دفاعی اور انفرسڑکچر کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری بھی کی۔ ایران نے پاکستان کے خدشات کو بالاطاق رکھتے ہوئے بھارت کے ساتھ غیرمعمولی طور پر سرگرم تعلقات استوار کیے۔تبھی تو بھارتی جاسوس کلبوشن یادیو ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوا۔ لیکن فی الوقت ایران کے برے حالات میں بھارت مدد کو نہ آیا ، اور یہ جو چینی وزیر خارجہ نے ”ایک فون کال پر پوزیشن بدل لینے“ والی بات کہی یہ بھی بادی النظر میں بھارت کی طرف اشارہ تھا کہ بھارت امریکا کے کہنے پر ایران کی مدد کو نہ پہنچا۔ اس بات کے دلائل میں مزید یہ بات بھی نوٹ کر لیں کہ ماضی میں ایران سے 4 لاکھ 25 ہزار بیرل تیل روزانہ بھارت جاتا رہا ہے۔ آج بھی بھارت کو تیل فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک ایران ہے اور ایران میں تیل اور گیس کی صنعت میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک بھارت ہے۔چاہ بہار کی بندرگاہ میں 20 ارب ڈالر تک سرمایہ کاری کے بھارتی منصوبے بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔چاہ بہارکو دیگر علاقوں سے ملانے کے لیے ہائی ویز کے بہت بڑے منصوبوں میں بھی بھارتی معاونت اور سرمایہ کاری شامل ہے۔اس کے علاوہ بھارت اور ایران کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ بھی موجود ہے، اس دفاعی معاہدے کے بعد دونوں ملک بہت قریب آئے اور ایران کو یقین دلایا گیا کہ اب بھارت بین الاقوامی فورمز پر ایران کے موقف کے خلاف نہیں جائے گا۔ دو ہی سال بعد انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی میں ایران کے خلاف معاملہ پیش ہوا۔ایران کو یقین تھا کہ نئی دوستی کے احترام میں بھارت ایران کے خلاف ووٹ نہیں دے گا کیونکہ بھارت ویسے بھی دنیا کے ان پانچ ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے ا بھی این پی ٹی ( نان پرولیفریشن ٹریٹی) پر دستخط نہیں کیے ہوئے۔ لیکن ہوا کیا۔ بھارت کو ایک فون کال آئی اور راتوں رات بھارت کا موقف تبدیل ہو گیا۔آخر وقت تک ایران کو تسلی دی جاتی رہے کہ بھارت آپ کے خلاف ووٹ نہیں دے گا اور پھرایران پر یہ جان کر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا کہ بھارت نے اس کے خلاف ووٹ دے دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب بھارت ایران کو یقین دہانی کرا چکا تھا کہ وہ ا س کے خلاف نہیں جائے گا تو پھر اس نے یہ ووٹ ایران کے خلاف کیوں دیا ؟ کیا یہ بھارت کا اصولی اور دیرینہ موقف تھا یا کسی ایک فون کال پر دھمکی ملی اور بھارت نے پوزیشن بدل لی؟ بہرکیف ہم تاریخ سے ہمیشہ نابلد رہتے ہیں اور اُڑتے تیروں کو چھیڑنے کے ماہر ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ ہم ہمیشہ مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ہمیشہ رہتے ہیں تو ہمارے متعدد دانشوروں کو ایسے ہی لگا کہ چینی وزیر خارجہ کے بیان کو ہم نے اپنے اوپر تھوپ لیا۔ میرے خیال میں ہمیں یہاں بھی کامن سینس سے کام لینا چاہیے تھا کہ کیا پاکستان اور چین کے تعلقات اتنے خراب ہو چکے ہیں؟ کہ وہ کسی دوسرے ملک میں جا کر پاکستان کے خلاف بیان داغ دے؟ ہاں بھارت اور ایران کے تعلقات کا دنیا کو علم ہے کہ کس قدر خراب ہو چکے ہیں۔ لہٰذاہمیں ہر حال میں مثبت سوچنا چاہیے، ہمیں ہر وقت اپنے آپ کو ڈی مورالائز کرنے کی عادت کو بھی ترک کرنا چاہیے، کیونکہ ہمارا اتنا بھی براحال نہیں ہے، جتنا برا حال ہمارے سوشل میڈیا ہاﺅسز اور ہمارے بعض میڈیائی ادارے دکھا رہے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر کچھ بری چیزیں ہو رہی ہیں، تو کچھ اچھی بھی ہو رہی ہیں، آج ڈالر دو سال کی کم ترین سطح پر آچکا ہے، ڈالر کے 168سے 155روپے تک کے سفر کو کسی نے ڈسکس نہیں کیا۔پھر عمران خان صاحب کی کابینہ ایک بار پھر بدل رہی ہے، حماد اظہر نئے وزیر خزانہ بن چکے ہیں، یقینا وہ نوجوان اور خالص پاکستانی ہیں، اُن پر آئی ایم ایف کی مہر بھی ثبت نہیں ہے، یقینا وہ گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دیں گے، مہنگائی ختم کریں گے، یقینا وہ اسٹیٹ بنک کو بھی آئی ایم ایف سے آزاد کروا لیں گے، یقینا اُن کے لیے چیلنجز بہت بڑے ہیں مگر مثبت سوچ یہی ہونی چاہیے کہ وہ تمام مسائل کو ایک بار میں ہی نہیں بلکہ ایک ایک کرکے حل کریں گے۔ اس لیے فی الوقت ایک ہی گزارش ہے کہ قوم مایوس نہ ہو، اُمید اچھے کی ہوگی تو سب اچھا ہوگا! ورنہ!!!