پاکستان پریشر گروپوں کا ملک!

میانمار (پرانا نام برما) کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ وہاںکا کنٹرول نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی کی آنگ سانگ سوچی کے ہاتھوں سے نکل کر آج کل فوج کے ہاتھ میں چلا گیا ہے، جس کے خلاف مظاہرے بھی ہورہے ہیں اور سینکڑوں ہلاکتیں بھی ہو چکی ہیں، مگر فوج ہے کہ اقتدار چھوڑنے اور سوچی کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ میانمارنے 1948ءمیں برطانیہ سے آزادی حاصل کی، تب سے 2011ءتک وہاں اقتدار فوج ہی کے قبضے میں رہا، حالانکہ1951، 1952، 1956اور 1960میں انتخابات بھی ہوئے لیکن زیادہ عرصے کے لیے اقتدار عوام کو منتقل ہونے سے قاصر رہا ، یہاں تک کہ بدامنی نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔اس کے بعد پھر وہاں 30سال بعد 1990ءمیں انتخابات ہوئے، جس سے عوام کو ووٹ ڈالنے کی سہولت ملی ، یہ نظام 2011 تک قائم رہا، اس نظام کو آپ نیم فوجی نظام کہہ سکتے تھے، جس میں عام سیاسی پارٹیوں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کے بعد انتخابات ہوئے اورنوبل انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی میدان میں آئیں اور اقتدار سنبھالا، لیکن وہ بھی زیادہ دیر نہ چل سکا اور اب ایک بار پھر میانمار میں جمہوریت ختم ہو چکی ہے۔ میانمار اس وقت تعلیم، صحت، اور رہن سہن میں پاکستان سے بھی پیچھے ہے، حتیٰ کہ صحت کی سہولیات میں جہاں پاکستان کا نمبر 122واں ہے وہیں 190ملکوں میں برما کا آخری نمبر آتا ہے۔ وہاں بھی ہماری طرح ہر طرف کرپشن کا بول بالا ہے۔ یعنی ہمارا اصل ”برادر“ ملک میانمار ہی لگتا ہے۔ کیوں کہ دونوں کی صورتحال ایک جیسی ہے، دونوں کی ”عمر“ میں محض ایک سال کا فرق ہے، دونوں ملکوں میں اقتدار کے لیے جنگ جاری رہتی ہے، دونوں ملکوں میں مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں حکومتیں مجبور نظر آتی ہیں، دونوں ملکوں میں سیاستدانوں کے ہاتھ کرپشن میں دھنسے ہوئے ہیں، اور پھر سب سے اہم یہ کہ دونوں ملکوں میں حکومتیں پریشر گروپوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے اور فوج کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ الغرض حکومتیں اس قدر کمزور ہےں کہ کوئی بھی مخصوص پریشر گروپ بنا کر حکومت کو بلیک میل کر سکتا ہے، ملک بند کر سکتا ہے اور انتظامیہ کو مفلوج بنانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ میانمار اور پاکستان میں ایک اورقدر مشترک بھی ہے، جس کے حوالے سے آگے چل کر بات کریں گے لیکن یہاں یہ کہنا مقصود ہے کہ جب حکومتیں بات بات پہ ڈرنے لگیں تو انہیں بخشا نہیں جاتا۔ بے جا ڈیمانڈیں ماننا پڑتی ہیں، اصولوں پہ کمپرومائز کرنا پڑتا ہے اور نتیجتاً ریاست نام کی چیز کہیں کی نہیں رہتی۔ حکومتوں کا یہ حال ہو تو کسی سے کیا گلہ۔ کوئی بھی ہمیں گھروں میں محصور کردے، ہم اُسے سر خم تسلیم کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے!یہی حال ہمارا گزشتہ چند روز سے ہے جب ایک مذہبی سیاسی جماعت نے ایک بار پھر ملک کا جام کرکے رکھ دیا، ہم اس بحث میں نہیں جاتے کہ اس اقدام کی کیا وجوہات تھیں، لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ حالیہ سالوں(2017، 2018، 2019، 2020 اور2021) میں اسی جماعت کی جانب سے پانچ بار ملک کو بند کیا گیا۔ جس کے بعد موجودہ حکومت نے ایک احسن اقدام اُٹھایا اور مذکورہ جماعت پر پابندی لگادی جسے ہمیں نہ صرف سپورٹ کرنی چاہیے ، بلکہ بادی النظر میں ایسی شدت پسند جماعت کو سیاسی جماعت بننے کی اجازت دینے کی بھی مذمت کرنی چاہیے۔ جو بعد میں ملک کی رٹ کو چیلنج کرکے ریاست کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لے۔ ملک کے ہر چوک میںاسلام کے نام پر 10،10بندے کھڑے کرکے عوام کو تنگ کیا جائے، اور ان کی عام زندگی میں خلل ڈالا جائے۔ ایسے میں ریاست کہاں ہے؟ ریاست کی طاقت کہاں ہے؟ ریاست کی رٹ کہاں ہے؟ اگر یہی کچھ رہ جانا تھا تو پھر ریاست کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ کیا ایسی صورتحال میں ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے اُسے سختی نہیں کرنی چاہیے؟ کیا یہ لوگ ریاست سے زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں؟ کہ انہیں عام عوام کو تنگ کرنے اور پولیس پر حملوں کی اجازت دے دی جائے اور خود حکومت منظر عام سے غائب ہو جائے؟ کیا عوام سرکار کو اسی چیز کا ٹیکس ادا کرتے ہیں کہ انہیں راستوں میں روک کر ذلیل و خوار کیا جائے؟ آج پاکستان کے عام عوام جتنا ٹیکس بھر رہے ہیں، دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا ملک ہوگا جو اس قدر ٹیکس بھر رہا ہوگا۔ اگر آپ کی لاکھ روپے تنخواہ ہے تو 40ہزار روپے آپ کو ٹیکس کی شکل میں مختلف جگہوں پر ادا کرنا پڑتا ہے، مثلا، جب آپ کو ایک لاکھ تنخواہ ملتی ہے تو اُس میں سے 6،7ہزار روپے ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے ، پھرآپ گاڑی میں پٹرول ڈلواتے ہیں ، اُس کی صورت میں آپ کو ماہانہ 4،5ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، پھر آپ کو بجلی ، گیس، پانی ، موبائل بلز، گراسری، الیکٹرونک اشیائ، ریسٹورنٹ، کپڑوں اور روز مرہ کی اشیاءوغیرہ میں ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ جبکہ بدلے میں انہیں کیا ملتا ہے؟ ذلت؟ ن لیگ کے دور میں اسی جماعت نے جب پنڈی فیض آباد میں دھرنا دیا تھا، تو میں بذات خود اسلام آباد میں 4دن کے لیے پھنس گیا تھا، اُس وقت بھی آپ نہ تو شہر سے باہر جا سکتے تھے، نہ شہر میں داخل ہو سکتے تھے، مجھ سمیت کئی دوستوں نے اپنے رشتے داروں کے گھر میں پناہ لے رکھی تھی، اور اُس وقت جو لوگ موٹروے پر سفر کر رہے تھے، انہیں کئی کئی گھنٹے تو سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ وہ جائیں کہاں؟ کیا ابھی بھی کچھ ایسی ہی صورتحال نہیں ہے؟۔ آپ لاہور یا کسی بڑے شہر سے باہر نکل کر دکھائیں، آپ کا خاندان آپ کی واپسی تک دعائیں کرتا رہے گا، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ بارڈر پر لڑنے گئے ہوں اور آپ کا خاندان آپ کے غازی بننے کی دعائیں کر رہا ہو!اور پھر جب واپس آئیں تو علم ہو کہ آپ کے شہر پر ”قبضہ“ ہو چکا ہے؟آپ کے شہر میں دین کے نام پر آگ لگائی جا رہی ہے، پولیس، ادارے اور اسٹیٹ ناکارہ بن چکے ہیں تو سوچیں آپ کے خاندان پر کیا گزرے گی؟ خدارا! معذرت کے ساتھ اس ملک میں رہ کیا گیا ہے؟ صرف آزادی سے سانس لینے کی سہولت؟ اگر وہ بھی چھین لی گئی اور اس ملک میں پریشر گروپس مزید طاقتور ہو گئے اور ریاست کی رٹ مزید کمزور ہو گئی تو خاکم بدہن آنے والے دنوں میں ہمارا ا سانس لینا بھی محال ہو جائے گا! لہٰذامیرے خیال میں حکومت اور بڑے فیصلے کرنے والی بڑی طاقتوں کو سنجیدگی سے اس بارے میں سوچنا ہوگا، وقتی مفادات حاصل کرنے کے بجائے لانگ ٹرم پالیسیاں بنانا ہوں گی، کیوں کہ اس سے پہلے بھی ہم پریشر گروپوں کی شکل میں بننے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں جن میں سپہ صحابہ ؓ، سپہ محمد، ایم کیوایم، لشکر طیبہ، اہل سنت والجماعت نمایاں ہیں جن کے ہاتھوں ہم یرغمال بن چکے ہیں۔ ان تنظیموں کو بنانے والے بھی وقتی فائدے حاصل کرنے کے لیے ایسی تنظیمیں ہم عوام پر مسلط کردیتے ہیں جن سے بعد میں جان چھڑانی مشکل ہوجاتی ہے۔ اس لیے فیصلے سوچ سمجھ کر کرنے سے ہی ہماری بقاءہے ورنہ بے ڈھنگے اور غیر موزوں فیصلے ہمارے بڑوں کی سرداری کو بچانے کے لیے بھی کارآمد نہیں ہیں بقول شاعر کاندھے پہ تو ہر شخص لئے پھرتا ہے سرکو سردار وہی ہے کہ جو سر،دار پہ لائے بہرکیف کہاں گئی وہ ”اینٹی رائیوٹ فورس“ جس نے فسادات کو روکنے کے لیے میدان میں آناتھا؟ جس پر موجودہ حکومت اربوں روپے کا جدید سامان بھی مہیا کر چکی ہے اور اربوں روپے کے فنڈز بھی ریلیز کروائے جا رہے ہیں، اگر عام آدمی سے اس قدر ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے تو اُس کے جان و مال کی حفاظت کون کرے گا؟ کون آکر اس فورس کو متحرک کرنے کی ذمہ داری لے گا؟ کون عوام کو سہولیات دے گا؟ کل کلاں کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ اسی طرح کے پریشر گروپ کی حکومت وجود میں آجائے اور ہم اُن کے زیر انتظام چلنے والی ریاست میں رہ رہے ہوں؟ کیوں کہ فی الوقت تو موجودہ حکومت کے انتظامی معاملات کی حالت یہ ہے کہ ہم کورونا ویکسین کے لیے بھی کشکول لے کر ایک کونے میں بیٹھے ہیں کہ شاید کسی ملک کو ہم پر رحم آجائے اور وہ ہمیں مفت ویکسین فراہم کر دے۔ حد تو یہ ہے کہ اب تو وفاقی وزیر اسد عمر نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ ہم بھارت سے ایک کروڑ 40لاکھ کورونا ویکسین بطور امداد لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ یعنی ہم ”دشمنوں“ سے بھی امداد لینے کو اپنا فرض عین سمجھ رہے ہیں،ہم اُن سے امداد لینے میں قباحت محسوس نہیں کر رہے جنہیں سڑک پر کھڑے کروڑوں گالیاں نکالتے ہیں، اور یہی ایک آخری قدر مشترک ہے پاکستان اور میانمار میں کہ وہ اور ہم دونوں ممالک اُن ریاستوں میں شمار ہوتے ہیں جنہیں دنیا ویکسین لگانے آئے گی، کیوں کہ ہم نے خود سے کچھ نہیں کیا ہے! اور پھر ہماری کم ظرفی کی انتہا یہ ہے کہ ہمارے پاس پیسے ہی نہیں ہیں کہ ہم ویکسین کو خرید سکیں۔ اور ویسے بھی ابھی تک جتنی بھی ویکسین پاکستان آئی ہے یا تووہ ہمیں چین نے بطور تحفہ دی ہے یا روس نے۔ جبکہ دوسری جانب حکومتی عیاشیاں بدستوں جاری و ساری ہیں، جس پر ہم ”کمپرومائز“ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ بہرحال پاکستان میں روایتی ڈیرہ داری اور سیاست کا آج بھی بول بالا ہے، ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں کی حیثیت پریشر گروپس کی سی ہے جنکی قیادت ہنگامی ہے اور وہ محض عارضی ایجنڈا اور ریلیف چاہتے ہیں،ہماری طاقتوں اور فیصلہ سازوں کی بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے ، جس پر ہمیں کنٹرول رکھنا ہوگا ورنہ یہ ملک ان پریشر گروپوں کی ایسی لپیٹ میں آجائے گا کہ جہاں سے پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا! آخر میں اے پروردگار! تیرے نام کو استعمال کر کے جو زیادتیاں ہم انسان دوسرے انسانوں پہ کرتے ہیں ا±س کے لئے ہمیں معاف فرما۔(آمین)