ن لیگ کی شہباز شریف کے بغیر سیاست!

کورونا کی تیسری لہر نے جب سے اس خطے(برصغیر) میں قدم جمائے ہیں، تب سے ملکی سیاست میں بھی ٹھہراﺅ آگیا ہے، اسی ٹھہراﺅ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مسلم لیگی رہنما اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی اپنی ضمانت کروا لی، حالانکہ جس ”نکتے“ پر انہوں نے ضمانت کروائی ہے، وہ تو پہلے دن سے ہی موجود تھا، جن دنوں سیاسی افراتفری، لانگ مارچ ، سینیٹ الیکشن اور استعفوں کا شور تھا، حکومت گرانے کی باتیں کی جارہی تھیں، حکومت کے خلاف بڑے بڑے منصوبے بن رہے تھے، شہباز شریف ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے تھے۔اس دوران کیا کچھ نہیں ہوا۔ پی ڈی ایم کی جماعتوں میں کیسی کیسی پیار کی پینگیں نہیں بڑھائی گئیں۔ خاص طور پر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مفاہمت کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری بہن بھائی بن گئے۔ مریم نواز نے گڑھی خدا بخش جا کر شریف فیملی کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا، لیکن یہ چار دن کی چاندنی تھی،جو اب اندھیری رات میں ڈھل چکی ہے۔ جب یہ سارا غبار بیٹھ گیااور حالات مواقف ہوئے تو انہوں نے فوری ضمانت کروا کے موجودہ حکومت کے دور میں ضمانت پر رہائی کی ہیٹ ٹرک مکمل کر لی۔ویسے یہ بات بھی اپنی جگہ پر قائم ہے کہ ابھی تک انہیں کسی مقدمے میں کوئی سزا نہیں ہوئی البتہ وہ تین سو دن نیب کی حراست میں ضرور گزارے۔ آگے چلنے سے پہلے یہ بات واضح کرتا چلوں کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا آجکل جو توتی بول رہا ہے ،یا اسٹیبلشمنٹ کے رُخ تبدیل ہونے کی جو باتیں ہو رہی ہیں اور یا پیپلزپارٹی جو دونوں ایوانوں میں پیش پیش نظر آرہی ہے وہ پی ٹی آئی کی ”مثالی کارکردگی“ کی بدولت ہے، یاتحریک انصاف نے جو دعوے کیے تھے، اُس کا 30فیصد بھی کیا ہوتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔الغرض ن لیگ اور پیپلزپارٹی اگر آج قائم ہیں تو پی ٹی آئی کی غلطیوں، ناتجربہ کاریوں اور بلنڈرز کی وجہ سے قائم ہے، کیوں کہ ان جماعتوں کی سیاست ماضی میں ایسی مثالی نہیں رہی کہ ہم اُسے ڈسکس کر سکیں۔ اورخاص طور پر لوگوں کو شہباز شریف کی حکومت اسی لیے یاد آتی ہے کہ لوگ تو مسئلوں میں ہیں، لہٰذااگر یہ کہا جائے کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ ن کی سیاست کا آکسیجن ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے ۔ اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر پی ٹی آئی توقعات کے مطابق کارکردگی دکھاتی تو آج ن لیگ نے نظر بھی نہیں آنا تھا۔ لہٰذاپی ٹی آئی کی اس بری کارکردگی کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلزپارٹی کو ہوا، انہیں سینیٹ اور ایوان میں جگہ ”پکی“ کرنے کے مواقع ملے جسے اُس نے ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اس کے لیے اُس نے اپنی ساتھی پارٹی ن لیگ کو بھی ناراض کر لیااورایک سمت پکڑ کر وہ اُسی کی جانب گامزن ہو گئی۔ جبکہ دوسری طرف ن لیگ کا بیانیہ راستے میں کہیں رہ گیا ”ووٹ کو عزت “دینے کے چکرمیںاور مریم نواز کی بے ڈھنگی سیاست اور ٹکراﺅ کی سیاست کی وجہ سے ن لیگ بالکل سائیڈ لائن ہوگئی ، جس کا نقصان ن لیگ کو یہ ہوا کہ اُس کا شیرازہ مزید بکھر گیا اور اگلے الیکشن میں اُس کے لیے چند سیٹیں حاصل کرنا بھی مشکل نظر آنے لگا۔ ایسی صورتحال میں شہباز شریف کا ضمانت کروانا اور سیاسی اُفق پر ”ن“ ”ش“ ”م“لیگ کی باتیں زبان زد عام ہونا ، واقعی سیاست کے میدان میں ایک اہم مہرہ ثابت ہوگا۔ خیر حالات کچھ بھی ہوں،لیکن یہ بات تو طے ہے کہ شہباز شریف کے آنے سے مسلم لیگ کی پالیسیوں میں ٹھہراﺅ آجائے گا، وہ بہتر ہو جائیں گی، مستقبل کی پالیسیوں سے بچپنا نکل جائے گا، تھوڑی میچور سیاست دیکھنے کو ملے گی۔ ٹکراﺅ کی سیاست سے ن لیگ گریز کرے گی، کیوں کہ اُسے یہ بات کلیئر ہو چکی ہے کہ نہ تو ٹکراﺅ کی سیاست میں اب فائدہ رہا ہے اور نہ ہی ن لیگ میں مقابلے کی سکت باقی رہی ہے۔ اور نواز شریف کو اُن کی آمد پر اس بات کا ثبوت بھی مل چکا ہے کہ گنے چنے کارکنوں کے علاوہ عام عوام اُن کے لیے مرمٹنے ، یا کم از کم سڑکوں پرآنے کو تیار نہیں ہے۔ اس بات کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ جب نوازشریف حالیہ سالوں میں جب پاکستان واپس آئے تو کم و بیش اُن کے استقبال کے لیے 10لاکھ افراد کو تو ائیر پورٹ جانا چاہیے تھا، لیکن سب نے دیکھا کہ محض چند ہزار کارکنوں نے اُن کا استقبال کیا ۔ اس لیے اگر انہیں نیلسن منڈیا، چی گوئیرا، یا طیب اردگان بننا ہے تو عوام کے دلوں میں گھر کرنا ہوگا، کیوں کہ ان قائدین کے پیچھے چند ہزار افراد نہیں کئی لاکھ افراد باہر نکل سکتے تھے، جس وجہ سے وہاں کے اداروں کا ذہن اور رُخ بھی یکسر بدل جاتا۔ لہٰذااب صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف آپ ٹکراﺅ کی سیاست کر رہے ہیں، دوسری طرف آپ ڈیل کرکے باہر جاتے ہیں، ڈیل کرکے ضمانتیں کرواتے ہیں، سچے جھوٹے میڈیکل سرٹیفیکیٹ سامنے رکھ کر بیرون ملک سفر کرتے ہیں ، صبح کچھ اور شام کو کچھ ہوتے ہیں ، اس لیے میرے خیال میں اب مسلم لیگ ن کی سیاست شہباز شریف کو کرنی چاہیے ۔ اس سے ہو سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کے تنِ مردہ میں جان پڑجائے، یا پھر وہ مزید ہچکیاں لینے لگ جائے۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ شہباز شریف جارحانہ سیاست کے قائل نہیں، وہ قدم پھونک پھونک کر رکھنے کے عادی ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ وہ لانگ مارچ یا استعفوں کی حمایت کریں گے۔ وہ حکومت کے خلاف کسی نئی حکمتِ عملی کو متعارف کرائیں گے۔ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ اسٹیبلشمنٹ اُن سے ناراض ہو جائے۔ اور ویسے بھی آج تک جتنی بار بھی ن لیگ کو اقتدار ملا ہے ، شہباز شریف ہی اسٹیبلشمنٹ کے لیے فرنٹ مین کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ لہٰذ اب اس تناظر میں شہباز شریف کا باہر آنا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔یہ بھی امکان ہے کہ وہ پیپلزپارٹی اور اے این پی کو پی ڈی ایم میں واپس لانے کی کوشش کریں۔ ان کے اس بیانیئے کو تسلیم کر لیں کہ حکومت کو ہدف بنایا جائے اداروں کو نہیں۔ وہ چونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں اس لئے یہ چاہیں گے کہ مضبوط اپوزیشن کی نمائندگی کریں۔ وگرنہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر پی ڈی ایم سینٹ میں یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر تسلیم نہیں کرتی تو پیپلزپارٹی اور اے این پی بھی قومی اسمبلی میں اپنے لئے علیحدہ نشستوں کی درخواست کر دیں اور یوں اپوزیشن تقسیم ہو کر کمزور ہو جائے۔یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ اب مریم نواز کی پوزیشن کیا ہو گی۔ وہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر ہیں شہباز شریف کی عدم موجودگی میں وہی سب سے اہم تھیں مگر اب چونکہ شہباز شریف باہر آ چکے ہیں، وہ مسلم لیگ (ن) کے صدر ہیں اس لئے ہر فورم پر نمائندگی وہی کریں گے، یہ حکومتی وزراءکی خواہش تو ہو سکتی ہے کہ ان دونوں میں ٹھن جائے۔ ن اور ش کا جھگڑا کھڑا ہو جائے۔ مگر ایسا ہوگا نہیں شہباز شریف کو بائی پاس کرنا ہوتا تو نوازشریف مریم نواز کو نائب صدر کی بجائے صدر بنا دیتے۔ شہباز شریف کے باہر آنے سے مسلم لیگ (ن) کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ سیاست کو سمجھنے اور مخالفین کی چالوں پر نظر رکھنے والا ایک سیاستدان اُن کو مل جائے گا اور شہباز شریف کو یہ فائدہ ہوگا کہ اُن پر چلنے والے مختلف نوعیت کے درجنوں کیسز سے اُن کی جان چھوٹ جائے گی، بقول شاعر شاید کبھی خلوص کو منزل نہ مل سکے گی وابستہ ہے مفاد ہر ایک کے ساتھ بہرکیف راقم ماضی میں شہباز شریف کے کاسمیٹکس پراجیکٹس اور اُن کی پالیسیوں کا سخت مخالف رہا ہے لیکن ن لیگ کی حد تک شہباز شریف باقیوں سے بہتر ہیں، کیوں کہ وہ ٹکراﺅ کی سیاست سے زیادہ مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیںاور اُن کی یہی پالیسی ن لیگ کے بکھرے ہوئے شیرازے کو اکٹھا کر سکتی ہے ورنہ ن لیگ مزید سکڑ کر چند سیٹوں کے برابر رہ جائے گی ۔