ریٹائرڈ افسران کے ”احسانات“ !

یہ ”ٹرینڈ“ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پاکستان جیسے دیگر تیسرے درجے کے ممالک میں عام ہے کہ سرکاری افسران ریٹائرڈ ہونے کے بعد ایسے ایسے انکشافات کرتے ہیں کہ یقین کرنا ناممکن ہوجاتا ہے، اُن کے انکشافات اس طرح کے ہوتے ہیں کہ حکومت نے اُن سے فلاں کام کرنے کے لیے کہا، لیکن انہوں نے نہیں کیا! حکومت نہیں اُنہیں فلاں کام کرنے کے عوض پرکشش عہدہ دینے کے لیے کہا مگر وہ ڈٹے رہے! ان ”آفرز“ کا انکشاف یہ افسران دوران ملازمت نہیں کرتے بلکہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد کرتے ہیں، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اُس وقت ان کا ضمیر نہیں جاگتا، لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد جب اُن کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، یا پروٹوکول اور اہمیت نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے تو وہ ”مخالفین“ اور موقع پرستوں کے ہاتھوں استعمال ہوکر ایسے ایسے انکشافات کرجاتے ہیں کہ جس سے وقتی طور پرساری توجہ اُن کی جانب مبذول ہو جاتی ہے۔ اسی طرح کے انکشافات گزشتہ دنوں سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے کرکے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ ویسے تو انہوں نے میڈیا پر اپنا موقف دیتے ہوئے جو تصویر کھینچی ہے وہ ہمارے سامنے ایک بھیانک صورتحال لے کر آتی ہے اور اس ملک میں معاملات کیسے چلائے جا رہے ہیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی دعوت دیتی ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے افسران کو استعمال کرنے والے بھی کسی مافیا سے کم نہیں ہوں گے۔ خیر بشیر میمن کا کہنا ہے کہ ”مجھے وزیر اعظم ہاﺅس بلا کر کہا گیا کہ آپ ایک قابل افسر ہیں آپ ہمت کریں آپ کر سکتے ہیں، اس وقت مجھے یہ علم نہیں تھا کہ کام کیا ہے؟ شہزاد اکبر کے کمرے میں گئے تو کہا گیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف کیس بنانا ہے اور انکوائری کرنی ہے۔ وہاں سے شہزاد اکبر، اعظم خان اور میں تینوں فروغ نسیم کے کمرے میں گئے، وہاں ڈاکٹر اشفاق بھی موجود تھے اور ای سی ڈی کا ڈیٹا ان کے پاس تھا، فروغ نسیم پہلے ہی کنونسڈ تھے کہ ایف آئی اے یہ کیس بنائے لیکن میں نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے جج کے خلاف انکوئری کرنا ایف آئی اے کا کام نہیں، یہ سپریم جوڈیشل کونسل کا کام ہے، جس کے جواب میں کہا گیا کہ آپ اور ایف بی آر مل کر انکوائری کریں جسے میں نے مسترد کر دیا، مجھے پتا تھا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ سے سپریم کورٹ کے جج تک میں انکوائری نہیں کر سکتا، فروغ نسیم جسٹس فائز عیسیٰ پر منی لانڈرنگ کا کیس بنانا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ منی لانڈرنگ کا کیس بنانا ایف آئی اے کا مینڈیٹ ہے لیکن میرا کہنا تھاکہ حکومت کے کہنے پر کسی جج کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس نہیں بنایا جا سکتا‘ اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کی تو انہوں نے بھی کہا کہ آپ کا موقف بالکل درست ہے۔ ایک ماہ بعد شہزاد اکبر نے پھر مجھ سے جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی فیملی کی ٹریول ہسٹری مانگی جس پر میں نے کہا کہ آپ نے ابھی تک جان نہیں چھوڑی، آپ ایسا نہ کریں، وزیر اعظم کی مجھ سے ناراضی کی ایک وجہ یہ بھی تھی، میں نے ریٹائرمنٹ سے 15 دن پہلے استعفا دیا، مجھے غلط او ایس ڈی بنایا گیا حالانکہ 15 دن پہلے ٹرانسفر بھی نہیں کیا جاتا، مجھے علم تھا کہ میرا نقصان ہوگا۔ میں کیریئر کے جس عروج پر تھا مجھے اس میں توسیع کی ضرورت نہیں تھی“ بادی النظر میں یہ الزامات اس وقت اس قدر اہم ہیں کہ جس نے بھی یہ کھیل کھیلا ہے ، اُس نے عین وقت پر کھیلا ہے، کیوں کہ پہلے ہی حکومت اور عدلیہ کی آپس میں چپقلش جاری ہے اوپر سے یہ مہرہ ، مخالفین کے لیے سونے پر سہاگے کا کام کرے گا۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ان افسران کو ریٹائرڈ ہونے کے بعد ہی الزامات لگانا یاد کیوں آتا ہے، کہیں یہ تو نہیں کہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد یہ افسران بک جاتے ہیں۔ اورکیا یہ مذاق ہے جو یہ افسران اپنے حلف کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں؟ کیا ان پر یہ بات لاگو نہیں ہوتی یا ان کے حلف میں یہ بات درج نہیں ہوتی کہ یہ سیکریسی آﺅٹ نہیں کریں گے۔ کیا ایسے افسران مزید پیسہ کمانے کی غرض سے یا بیرون ملک سیٹلڈ ہونے کے لیے کھیل رچاتے ہیں؟ اور پھر کیا دوران ملازمت جنہوں نے ان افسران پر مہربانیاں کی ہوتی ہیں، یہ اُن کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دینے کے لیے سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔ ان کا حب الوطنی کا جذبہ ریٹائرڈ ہونے کے بعد ہی کیوں جاگتا ہے؟ انہیں اُس وقت ہی کیوں خیال آتا ہے جب ان کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہ جاتی ۔ ویسے بھی پاکستان کی تاریخ ایسے کئی سرکاری افسران سے بھری پڑی ہے۔ جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ”انکشافات“ کی بھرمار کردی۔ ان میں حالیہ دور میں سب سے اہم سابق ایڈیشنل سیکریٹری الیکشن کمیشن محمد افضل خان کے 2013کے الیکشن کے حوالے سے انکشافات تھے، موصوف انکشافات کرکے عمران خان کے کنٹینر پر بھی چڑھے ہوئے نظر آتے تھے، اُن کا کہنا تھا کہ 2013 میں ہونے والی دھاندلی میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی بھی ملوث تھے، الیکشن 2013 میں عوام کا مینڈیٹ چوری کیا گیا، چیف الیکشن کمشنر فخرو الدین جی ابراہیم نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔وہ انکشاف کرتے ہیں کہ انتہائی منظم طریقے سے الیکشن میں کرپشن کی گئی، ریٹرننگ افسران کو الیکشن کمیشن کے بجائے افتخار چوہدری نے تعینات کیا، دھاندلی کی شکایات کے کیسز کو جان بوجھ کر لمبا کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ میں بھی کسی حد تک قوم کا مجرم ہوں، کچھ جماعتوں نے زور دیا تھا کہ انتخابات عدلیہ کی نگرانی میں کروائے جائیں، نواز شریف کو حاصل ہونے والا مینڈیٹ مشکوک ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ باتیں اُنہیں ملازمت چھوڑنے کے 14ماہ بعد یاد آئیں۔ پھر سابق وزیراعظم نواز شریف کے سابق پرنسپل سکریٹری کے انکشافات بھی سب کے سامنے ہیں، انہوں نے آشیانہ اقبال ہاو¿سنگ اسکیم کا ٹھیکہ من پسند افراد کو دے کر مجموعی طور پر خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ۔اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ انہیں دوران ملازمت جو پی ایم یا سی ایم کی جانب سے آرڈر ملتے تھے، وہ من و عن اُن پر عمل درآمد کروانے کے پابند ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد کئی ایک انکشافات کیے جو انہیں دورا ن ملازمت کردینے چاہیے تھے۔ اس کے علاوہ کارگل جنگ کے بارے میں جو انکشافات لیفٹیننٹ جنرل (ر)شاہد عزیز نے کیے اُن سے ہر کوئی واقف ضرور تھا مگر ان پر یقین کرنے کو دل گوارہ نہیں کرتا تھا لیکن جب سے ”معرکہ کارگل“ کے بارے میں موصوف جنرل انکشافات سامنے لائے انہیں سن کر ہر محب وطن پاکستانی تذبذب کا شکار ہوااور ان انکشافات نے مسئلہ کارگل کو بھی ایک بار پھر زندہ کردیا ۔ یہ پہلا موقع تھاکہ ایک فوجی تنظیمی ڈھانچے میں ایک سینئر فوجی افسر جو پاک فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف بھی رہ چکے ہیں نے کسی جھجک کے بغیر کارگل میں ہونے والی مضحکہ خیز شکست پر بات کی ہو۔جنرل شاہد عزیز کارگل جنگ کو پاکستان کی تاریخ کا ایک المناک حادثہ قرار دیا جس کی اصل حقیقت ملٹری کمانڈروں سے پوشیدہ رکھی گئی تھی۔ جنرل شاہد عزیز کے بقول کارگل ایڈونچر جنرل مشرف اور ان کے4 جنرلوں کی ذہنی اختراع تھی، اس منصوبے پر دوسرے کور کمانڈرز اور ملک کی دیگر مسلح افواج مثلاً نیوی اور ایئر فورس کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا جبکہ جنرل شاہد عزیز جواُس وقت آئی ایس آئی کی تجزیاتی ونگ کے ڈائریکٹر جنرل تھے کو بھی کارگل معرکے کے بارے میں اس وقت علم ہوا جب اس منصوبے پر عملدرآمد کیا جاچکا تھا وغیرہ جیسے انکشافات کا کئی بار ذکر ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ پھر عمر کے آخری حصے میں کئی سابق بیوروکریٹس، جج صاحبان، سیاستدان یا سابق جرنیلوں کو کتابیں لکھنے کا خیال آجاتا ہے، جیسے سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان، نے اپنے دور میں وفاقی عدالتی نظام کے بارے میں خاصے انکشافات کیے۔ پھر شیخ رشیداحمد کی آپ بیتی ”لال حویلی سے اقوام متحدہ تک“ میں بہت سے ایسے انکشافات ہیں کہ ضمیر بڑھک جاتے ہیں۔ پھر سابق بیوروکریٹ جیون خان ”کیکر کی چھاو¿ں سے کمشنر ہاو¿س تک“ میں کئی انکشافات ہیں جو اشرافیہ کی پول کھول دینے کے لےے کافی ہیں۔ بہرکیف جو لوگ بھی اپنی لڑائیوں میں سابق افسران کو پلانٹ کرتے ہیں انہیں عقل کے ناخن لینے چاہییں کہ اس سے اداروں کی ساکھ کو ناصرف نقصان پہنچتا ہے بلکہ ادارے کے موجودہ افسران کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حالیہ کیس میں بھی بشیر میمن کو پلانٹ کرنے والوں کو عقل ہونی چاہیے تھی، ایسا کرنے سے بشیر میمن ایگزیکٹو اور عدلیہ کی لڑائی کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو ملک کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ میرے خیال میں یہ تمام افسران سروس کے دوران اچھی پوسٹنگ کے لیے حکمرانوں کی خوشنودی کرتے ہیں، چاپلوسی کرتے ہیں، بوٹ پالش کرتے ہیں، یعنی اُس وقت یہ For Saleہوتے ہیں لیکن بعد میں یہ کہیں اور سے یا حکومت مخالف لوگوں سے پیسے لے کر نا صرف ڈبل منافع کماتے ہیں بلکہ آنے والی حکومت میں جگہ بنانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ قارئین ! میرے خیال میں جو ریٹائرمنٹ کے بعد بولے وہ بے ایمان ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے لڑائی کے بعد یاد آنے والے تھپڑ کو اپنے منہ پر ہی مار لینا چاہیے۔ یعنی جو افسران ریٹائرمنٹ کے بعد انکشافات کرتے ہیں، انہیں کچھ بولنے سے پہلے اپنے ضمیر سے یہ ضرور پوچھ لینا چاہیے کہ جب وہ حاضر سروس تھے، اور جو مراعات انہوں نے دوران سروس حاصل کیں ، کیا وہ اُس کے حقدار تھے؟ کیا انہوں نے جب ملازمت کا حلف اُٹھایا تو اُس کے بعد انہوں نے اس کی پاسداری کی؟ میں اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں کہیں نہ کہیں کھچڑی ضرور پک رہی ہوگی، لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد افسران کو استعمال کرنے کا سلسلہ بند ہو نا چاہیے اور ان افسران کو چاہیے کہ وہ ایسے ”احسانات“ دوران سروس کردیا کریں تاکہ ادارے مضبوط ہوں ، ورنہ یہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکے گا!!!