شہباز شریف کیسز: حکومت کو مفاہمتی پالیسی اپنانی چاہیے!

میکسیکو سپرپاور امریکا کا ہمسایہ ملک ضرور ہے، مگر اُس کے سیاسی و معاشی حالات پاکستان سے مختلف نہیں ہیں، وہاں بھی کئی سیاستدانوں نے ملک سے بھاگ کر امریکا و برطانیہ میں پناہ لے رکھی ہے، وہاں کا عدالتی نظام بھی ہماری طرح ڈبل سٹینڈرڈ ہے، یعنی غریب کے لیے کچھ اور نظام اور امیر کے لیے کچھ اور نظام۔پھر سب سے زیادہ میل کھانے والی بات یہ ہے کہ اگر پاکستان کا کرپشن کے حوالے سے 124واں نمبر ہے تو میکسیکو بھی اسی نمبر پر موجودہ ہے، لیکن اُن کا احتسابی نظام پاکستان سے بہتر ہے، ایسا کیوں ہے؟ اس پر سب سے پہلے غور کرنا ضروری ہے۔ لہٰذاجس طرح پاکستان میں کرپشن کو روکنے کے لیے نیب کام کر رہی ہے، اسی طرح نیشنل اینٹی کرپشن سسٹم NASکام کر رہا ہے۔ NASایک آزاد اور نسبتاََ بہتر ادارہ ہے، اس ادارے کو اپوزیشن اور حکومت نے 2010میں بہتر بنانے کے لیے اقدامات اُٹھائے، جس پر انہیں خاصی کامیابی بھی نصیب ہوئی۔ اس ادارے کو بہتر اس لیے کہا کہ گزشتہ 11سالوں میں میکسیکو میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی ہے اور 138ویں نمبر سے 124تک کا سفر بھی اسی ادارے کی مرہون منت ہے۔ پھر اس ادارے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جو فیصلہ NASکی عدالتیں کریں گی اُسے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اور عموماََ وہاں کسی کو اس کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، کیوں ادارے نے اپنا خاص اعتماد بنا رکھا ہے۔ لیکن یہاں پاکستان میں کسی ملزم کے بارے میں جو فیصلہ ”نیب“ کرتی ہے، اُسے ناصرف کسی بھی عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے بلکہ Out of the way آپ کو ریلیف بھی مل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بادی النظر میں نیب اتنا مضبوط نہیں ہے جتنا اسے ہونا چاہیے اور کہا جاتا ہے کہ نیب کے دونوں ہاتھ کمر کے ساتھ باندھ دیے گئے ہیں تاکہ وہ مرضی کے فیصلے نہ کر سکے۔ اسی لیے موجودہ حکومت کے دور میں نیب ڈھائی تین سال گزرنے کے باوجود کسی ملزم پر کرپشن ثابت نہیں کرسکی۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ الگ بحث ہے، فی الوقت ہمارا موضوع شہباز شریف ہیں، کہ جب نیب نے شہباز شریف یا دیگر سیاستدانوں کو کرپشن کے الزام میں اتنی دیر زیر تفتیش رکھ کر بھی کچھ حاصل نہ کیا تو پھر ادارہ کہاں کھڑا ہے ! اس پر عوام ہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذااب اگر شہباز شریف رہا ہو کر باہر جانا چاہتے ہیں تو پھر اُن کے باہر جانے میں حکومت کو کیا مسئلہ ہے؟ اور پھر وہ بطور اپوزیشن لیڈر مختلف اور اہم ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں ، اور کئی معاملات بھی طے ہو رہے ہیں، جیسے چینی سفیر کے ساتھ شہبازصاحب کی ملاقات حیران کن نہیں تھی۔برطانوی سفیر سے ملاقات مگر موجودہ حالات میں اہم تر تھی۔برطانیہ نے کرونا کی وجہ سے پاکستانیوں کو ”ریڈلسٹ“ میں ڈال رکھا ہے۔لیکن شہباز شریف کو جو ہماری قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی ہیں مگر لندن جانا لازمی ہو تو کوئی راستہ ڈھونڈنا پڑتا ہے۔نظر بظاہر برطانوی سفیر سے ملاقات کے دوران طے یہ ہوا کہ براہِ راست لندن پہنچنے کے بجائے اگر شہباز صاحب کچھ دن قطر کے شہر دوحہ میں ”قرنطینہ“ کو یقینی بنالیں تو ان کا برطانیہ میں داخل ہونا ممکن ہوجائے گا۔جب اس لیول پر بات چیت ہو رہی ہے، اور ضمانت ملنے سے پہلے ٹکٹیں بھی بک کروائی جا چکی تھیں تو پھر حکومت جان بوجھ کر روڑے اٹکانے میں کیوں مصروف ہے؟ کیا اُسے علم نہیں کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے؟ میرے خیال میں ایسے اقدامات سے حکومت اپنے حامیوں کو یہ باور کروانا چاہتی ہے کہ ابھی کرپشن کے خلاف جنگ میں آخری سانسیں باقی ہیں، اور خان ایک بار پھر ڈٹ کر کھڑا ہو گیا ہے! بھئی! اب حکومت کے پاس صرف اور صرف 2سال بچے ہیں، 2018ءمیں مئی کے مہینے ہی میں نگران سیٹ آیا اور جولائی میں تحریک انصاف کو حکومت ملی تھی، اس لیے اب خان کے ڈٹ جانے کا وقت نہیں بچا بلکہ کچھ کرنے کا تھوڑا سا وقت ہی بچا ہے! حالانکہ عمران خان صاحب اپنی کابینہ کے اراکین کو کابینہ اجلاسوں میں چار بار خبردار کر چکے ہیں کہ ”کارکردگی دکھائیں، ورنہ گھر جائیں“۔کیوں کہ یہ صرف حکومت کیلئے نہیں بلکہ سب کے لئے تشویشناک بات ہے۔ اگر اس سیاسی جماعت یعنی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی بہتر نہ ہوئی تو تحریک انصاف سمیت سب سیاسی جماعتیں، سیاست دان اور خود سیاست گالی بن جائیں گے اور یہ پاکستان کے عوام کا اپنی تاریخ میں سب سے بڑا نقصان ہوگا، جو پاکستان میں جمہوری، منصفانہ اور اعلی سیاسی اقدار والا معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے یہ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت کو مفاہمتی پالیسی کی طرف آنا چاہیے، ابھی تک کوئی قابل ذکر قانون سازی نہیں ہوئی، انتخابی اصلاحات ابھی تک راستے میں ہیں، احتسابی اصلاحات ابھی تک ٹیبل ٹو ٹیبل گھوم رہی ہیں، لیکن اس دوران جس شخصیت کو بھی جیل میں ڈالتے ہیں وہ رہائی کے وقت وکٹری کا نشان بناتے ہوئے باہر نکلتا اور عوام کو بتاتا ہے کہ دیکھا ، حکومت ایک روپے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکی یعنی وہ اُلٹا ہیرو بن جاتا ہے۔ لہٰذا”بے سُرے رونے سے نہ رونا بہتر ہوتا ہے“ ۔ اس لیے جو تشویش اس وقت سنجیدہ حلقوں میں دوڑ رہی ہے حکومت کو اُس کی فکر کرنی چاہیے کہ اگر حالات یوں ہی چلتے رہے، اور سب کچھ حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو گیا تو دوبارہ اگر وہی کرپٹ حکمران آگئے تو پھر پاکستان کے پاس کیا بچے گا؟ ٹھیک ہے کرپشن کو روکنا اچھی بات ہے، لیکن حکومت کی پرفارمنس ایسی ہونی چاہیے کہ یہ دوبارہ نہ آسکیں۔ اور ویسے بھی اگر حکومت شہباز شریف کو جانے بھی دیتی تو کیا ہو جانا تھا، نوازشریف بھی تو باہر بیٹھے ہوئے ہیں اُس کا کیا کر لیا؟ بانی ایم کیو ایم بھی تو باہر بیٹھے ہیں، اُس کا کیا کر لیا؟اسحاق ڈار باہر ہیں اُن کا کیا کر لیا، بڑے دعوے کیے گئے تھے کہ لندن کی حکومت کے ساتھ انہیں واپس لانے کے لیے معاہدے ہو چکے ہیں وغیرہ لیکن نتیجہ صفر! اور پھر آپ اُنہیں ملک میں لے بھی آئیں تو کیا پاکستان کا عدالتی نظام اس قدر مضبوط ہے کہ اُنہیں سزا دے سکے؟ ہمارا عدالتی نظام تو جرائم پیشہ افراد کو سزا نہیں دے پایا جس کے مجرموں کو عوام تک جانتے ہیں۔ الغرض کیا ہمارا عدالتی نظام سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کے ملزمان کو سزا دے پایا ہے؟ کیا سانحہ ماڈل ٹاﺅن یا سانحہ ساہیوال کے ذمہ داران کو سزا مل گئی؟ یہ تو کریمنل کیسز ہیں، جب ان میں سزا نہیں مل سکی تو کیسے ممکن ہے کہ سیاسی کیسوں میںکسی کو سزا مل سکے گی!بقول شاعر یہ منصف بھی تو قیدی ہیں ہمیں انصاف کیا دیں گے لکھا ہے ان کے چہروں پر جو ہم کو فیصلہ دیں گے معذرت کے ساتھ حالت تو یہ ہے کہ حکومت کے اپنے سپاہی ایک کالعدم جماعت کے ہاتھوں مارے گئے، حکومت اُنہیں سزا دینے سے اب تک قاصر اور مفلوج دکھائی دیتی ہے۔اس لیے جب تک عدالتی نظام میں اصلاحات نہیں ہوتیں اُس وقت تک میرے خیال میں حکومت کو گڈ گوررنس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سی پیک پر مکمل توجہ دینے کی ضرورت ہے، اداروں سے کرپشن کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، مکمل میں تعلیمی انقلاب لانے کی ضرورت ہے، صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، خارجہ و داخلہ اُمور کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، کورونا سے نمٹنے کی ضرورت ہے، معیشت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ آپ اگلے الیکشن میں 2/3اکثریت کے ساتھ میدان میں آئیں۔ کیوں کہ آپ اتنی کم سیٹوں کے ساتھ فی الوقت ان مافیاز کو نہیں چھیڑ سکتے۔اور ویسے بھی ڈھائی تین سال میں ہم نے یہ دیکھ لیا کہ ہم اس قابل ہے ہی نہیں کہ کرپشن کا لوٹا ہوا پیسہ کسی سے واپس لے سکیں، اُلٹا فی الوقت تو یہی ہو رہا ہے کہ پیشیوں، پروٹوکول اور وکلاءکے نام پر حکومت مزید خرچ کیے جا رہی ہے۔ آپ خود دیکھ لیں کہ خواجہ برادران کو اتنی دیر جیل میں رکھا، کیا ملا؟ کچھ نہیں؟ فواد حسن فواد کو اتنی دیر اندر رکھا، کیا ملا؟ شہباز شریف، حمزہ شہباز کو اتنی دیر اندر رکھ کر دیکھ لیا۔ کیا ملا؟ احد چیمہ بھی باہر آگئے، مریم نواز بھی باہر آگئیں، نواز شریف بھی باہر آگئے، بلکہ وہ تو باہر بھی چلے گئے۔ اس لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کر کے عدالتی نظام میں بہتری لائیں پھر ان کا احتساب کریں۔ تب تک انہیں پکڑ نا بھی فضول کام ہے، اس لیے جانے دیں باہر! کوئی قیامت نہیں آجائے گی، اور نہ ہی شہباز شریف کے پاکستان میں رہنے سے اُن سے اتنی ریکوری ہو جائے گی کہ یہاں صنعتی انقلاب آجائے گا!اس لیے میری نظر میں آپ کے پاس ابھی بھی وقت ہے، عوام کو ریلیف دیں، انہیں مسئلوں سے نکالیں، مہنگائی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے اقدامات کریں، عوام کی فلاح کے لیے کام کریں، اپوزیشن کے ساتھ مفاہمتی پالیسی اپنا سکیں، اور جیسا کہ اب دکھائی یہ دے رہا ہے کہ مقتدر قوتیں بھی آپ کے ساتھ ایک پیج پر دکھائی نہیں دے رہیں، تو آہستہ آہستہ اُن کو بھی ایک پیج پر لانے کے لیے اقدامات کریں، اُن کے خدشات کو دور کریں۔ مالی بجٹ آرہا ہے اُس پر توجہ دیں، عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کے مسئلوں سے نکالیں۔ بقول حبیب جالب ”فقط تقریر کرتے ہیں“۔ علاج غم نہیں کرتے۔سے باہر نکل آئیں اور علاج شروع کریں۔ اپنی ٹیم اور عوام کا مورال بلند کریں ، اپنی ٹیم کے آپسی اختلافات ختم کروائیں، عوام سے کیے گئے وعدے پورے کریں، اور تسلیم کریں کہ کہاں کہاں غلطیاں ہوئی تھیں اور اُنہیں سدھارنے کے لیے کام کیا جارہا ہے ۔ جیسے شوکت ترین نے کہا ہے کہ ہم سے معاشی میدان میں بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن اب انہیں سدھارنے کے ساتھ ساتھ اُس میں بہتری لارہے ہیں تاکہ معیشت کا پہیہ درست کیا جاسکے۔ اس لیے جو بگوڑا بھاگنا چاہتا ہے اُسے بھاگنے دیں، اس کے لیے خاص اجلاس طلب نہ کریں ورنہ وقت بدل گیا تو کچھ ہاتھ نہیں آئے گا!