چودھری نثار کی آمد نیک شگون!

بالآخر سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو صوبائی اسمبلی کا حلف اُٹھانے کا خیال آہی گیا.... بالآخر اُنہیں اپنے حلقے (چکری)کے عوام جنہوں نے اُنہیں منتخب کیا تھا، اُن کی خدمت کرنے کا خیال آہی گیا.... بالآخر انہوں نے چُپ کاروزہ توڑ ہی دیا.... اور بالآخر انہوںنے سرنڈر کرکے 2018ءکے انتخابی نتائج کو قبول کرلیا، اور تادم تحریر 24مئی کو حلف اُٹھانے کے لیے وہ تیار ہیں۔انہوں نے 2018ءکے عام انتخابات میں بیک وقت قومی و صوبائی اسمبلیوں سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا تھا، پنجاب اسمبلی کی سیٹ انہوں نے 34 ہزار ووٹوں سے جیتی تھی اور اتنی ہی اکثریت سے انہیںقومی اسمبلی کی نشست پر شکست ہوئی تھی۔ اس شکست سے چوہدری نثار اس قدر رنجیدہ ہوئے تھے کہ انھوں نے جیتی ہوئی نشست پر بھی احتجاجاً حلف لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔اس کے بعد چوہدری نثار علی خان نے پچھلے تین سال سے یہ موقف اختیار کر رکھا تھا کہ پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے 25جولائی 2018ءکے ”جھرلو انتخابات“ کے نتائج کو تسلیم کر لیا ہے ۔ لیکن میرے خیال میں اُن کے حلف اُٹھانے کی فی الوقت دو وجوہات ہوسکتی ہیں پہلی یہ کہ اُنہیں کہیں سے اعلیٰ ”سیٹ“ کی آفر کی گئی ہے، کیوں کہ ایک عام ممبر اسمبلی کی طرح بیٹھے رہنا شاید اُنہیں لگتا ہے کہ یہ اُن کے شایان شان نہیں ہے۔ جبکہ دوسری وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے عید سے پہلے جو انتخابی اصلاحات کا آرڈیننس لایا جا رہا ہے، اُس کی ایک شک کے مطابق جو ممبر اسمبلی نشست جیتنے کے بعد 60دن تک حلف نہیں اُٹھائے گا اُسے ڈی سیٹ کرکے وہاں دوبارہ انتخاب کروایا جائے گا۔ ان دو وجوہات کے علاوہ مجھے کوئی تیسری وجہ نظر نہیں آرہی ، لیکن ویسے یہ بھی ایک الگ بحث ہے کہ ہمارے قانون میں یہ کتنا بڑا خلاءموجود ہے کہ جو شخص اسمبلی کا ممبر بن کر حلف اُٹھانے کے لیے نہ آئے تو اُس کے لیے کوئی سزا مقرر ہی نہیں کی گئی ورنہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں اس طرح کا معجزہ سرزد ہوتا ہو۔ کہ اسحاق ڈار جیسا شخص بھی اسی ”خلا“ کی آڑ میں گزشتہ تین سال سے سینیٹ میں اہم سیٹ پر موجود ہونے کے باوجود ملک سے باہر بیٹھا ہے۔ خیر فی الوقت چوہدری نثار کے حلف اُٹھانے کی خبر سیاسی حلقوں کے لئے چونکا دینے والی ہےں ، کیوں کہ وہ جتنا عرصہ بھی سیاست میں رہے، انہوں نے بغیر کسی اہم عہدے کے کام نہیں کیا۔ وہ 1988میں منتخب ہوئے تو وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی رہے۔ وہ1990ءمیں منتخب ہوئے تو وزیر پٹرولیم بنے، وہ 1997ءمیں منتخب ہوئے تو وزیر پٹرولیم اور قدرتی وسائل رہے، اس کے ساتھ وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ رہے، پھر 2008ءمیں منتخب ہوئے تو وزیر مواصلات رہے، لیکن جلد ہی استعفیٰ دے دیا، پھر 2008ءسے 2013ءتک قائد حزب اختلاف رہے اور 2013کے الیکشن جیتنے کے بعد وزیر داخلہ منتخب ہوئے۔ اور اب جبکہ وہ دوبارہ حلف لینے کے لیے آرہے ہیں تو یقینا پیچھے کی جانب سفر نہیں کریں گے بلکہ آگے کی توقع ہی کریں گے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی پلس پوائنٹ ہے کہ وہ عمران خان کے بھی قریبی ساتھی رہے ہیں ، اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلے سے قبل ایچی سن کالج کے دنوں سے ان کی عمران خان سے دوستی چلی آ رہی ہے اورسنا ہے اب بھی دونوں رہنماو¿ں کے آپس میں اچھے روابط ہیں ، جب 2014 میں تحریک انصاف نے 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دھرنا دیا تو عمران خان نے خود فون کر کے اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ڈی چوک تک آنے کے لیے مدد مانگی تھی۔ چوہدری نثار کا ایک اور پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ نوازشریف کے ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے رہے ہیں ، جس وقت چوہدری نثار علی خان نواز شریف کی کابینہ کا حصہ تھے( یعنی سابق دور حکومت میں) اور اسی دور حکومت میں ان کے بھائی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ افتخار علی خان سیکریٹری دفاع کے عہدے پر براجمان تھے۔چوہدری نثار کے والد چوہدری فتح محمد فوج میں بریگیڈیئر رہے۔ ان کے دادا برطانوی دور میں انگریز فوج کا حصہ تھے اور ان کی عسکری خدمات کی بدولت انھیں برطانوی فوج نے پستول کا تحفہ بھی دیا تھا۔اس وقت بھی چوہدری نثار علی خان کے خاندان کے اکثر افراد فوج کا حصہ ہیں اور ان ہی وجوہات کی بنا پر وہ حکومت اور فوج میں ایک پل کا کردار ادا کرنے والے کے طور پر سمجھے جاتے رہے ہیں۔ان کی شہباز شریف کے ساتھ رات کے اندھیرے میں آرمی چیفس سے ملاقاتیں بھی اخباروں کی شہہ سرخیاں بنتی رہی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اہم سیکیورٹی اور ملکی معاملات پر مشاورت کے لیے ایسی ملاقاتیں کی جاتی ہیں۔ خیر اس وقت چودھری نثار علی خان کے حلف اٹھانے سے اقتدار کے ایوانوں اور اپوزیشن کے ”ڈیروں“پر کھلبلی مچ جانا فطری امر ہے۔چودھری نثار علی خان کے پنجاب اسمبلی کے رکن کے حلف اٹھانے بارے ”بیانیہ“ میں اچانک ”یوٹرن“ باعث حیرت ضرور ہے لیکن میں بار ہا یہ بات لکھ چکا ہوں سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی سیاست میں دو جمع دو چار نہیں ہوتے‘ کبھی پانچ بھی ہو جاتے ہیں۔ اور اب جبکہ حلف اُٹھانے کے حوالے سے انہوں نے کہا ہے کہ وہ نہ تو پنجاب اسمبلی سے کسی قسم کی مراعات لیں گے، نہ تنخواہ لیں گے اور اپنے موقف پر ڈٹے رہیں گے، لیکن وہ حلف اس لیے اُٹھار ہے ہیں تاکہ حلقہ میں دوبارہ الیکشن نہ کروائے جا سکیں۔ فی الوقت جو بھی ہو، حلقے کے عوام چودھری صاحب کو وارم ویلکم کہیں گے اور یقینا اُن کے آنے سے ملکی سیاست بھی مثبت سمت کی طرف گامزن ہوجائے گی کیوں کہ چودھری نثار علی خان اقتدار کے کھیل کے بہت زیرک کھلاڑی رہے ہیں۔اُن کی انٹری غالباَََ کوئی گہری ”گیم“ لگتی ہے ۔لیکن اگر یہ گیم پاکستان کے حق میں ہو تو اس بہتر اور کوئی چوائس نہیں ہو سکتی۔ اور ویسے بھی چودھری صاحب نوازشریف کے دست راست ہوا کرتے تھے، جس کی مخالفین کو بھی خاصی تکلیف ہوا کرتی تھی، بلکہ اکثر اس کا اظہار قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی ہوا کرتا تھا۔ ایک دفعہ 2014 میں قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں اس وقت تناو¿ میں اضافہ ہو گیا جب پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم تو حکومت کو سپورٹ کریں گے مگر حکومت اپنے آستین کے سانپوں سے ضرور باخبر رہے۔“ چوہدری نثار اس وقت نواز شریف کے بائیں جانب نشست پر براجمان تھے۔ وہ اعتزاز احسن کو جواب دینے کے لیے کئی بار اٹھے مگر نواز شریف نے انھیں تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا۔ اس ہلچل سے اندازہ ہونے لگا کہ اعتزاز احسن کا اشارہ چوہدری نثار ہی کی جانب تھا۔اگلے دن چوہدری نثار نے پریس کانفرنس کا اہتمام کیا مگر پھر کہا کہ انھیں وزیر اعظم نواز شریف نے پریس کانفرنس ملتوی کرنے کا مشورہ دیا ہے لہٰذا وہ اپنے اوپر عائد کیے گئے الزامات کا کوئی جواب نہیں دیں گے۔ یہی وہ دن تھے جب آخری بار نواز شریف اور چوہدری نثار کو اکٹھا دیکھا گیا، پھر جنرل (ر) مشرف کو عدالتوں میں گھسیٹنے کا معاملہ آیا تو یہ چوہدری نثار ہی تھے جنہوں نے نواز شریف کو قومی سلامتی کے اداروں سے بھڑنے سے روکا اور جنرل مشرف کا نام ای سی ایل سے نکال کر اُنہیں بیرون ملک بھیجا، جہاں سے وہ ابھی تک واپس نہیں آئے۔ پھر ڈان لیکس کے بعد اُن کے اختلافات اپنی پارٹی خصوصاََ سابق وزیرا عظم نواز شریف سے شدت اختیار کر گئے۔ ڈان لیکس کے معاملے میں اُن کی رپورٹ کی وجہ سے پرویز رشید کو بھی استعفیٰ دینا پڑا جس سے پارٹی کے اندرونی اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ پھر نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نا اہلی اور پھر قومی احتساب بیورو (نیب) کی ایک عدالت میں ٹرائل کے دنوں میں وہ وزارت داخلہ سے مستعفی ہو گئے اور پھر نواز شریف اور مسلم لیگ ن سے بھی دوری اختیار کرتے چلے گئے۔ تاہم بعد میں نواز شریف کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی اور پھر جے آئی ٹی رپورٹ نواز شریف کے لیے خوشگوار تجربہ نہیں رہا،پھر جب سابق وزیر اعظم پانامہ مقدمے میں سپریم کورٹ سے تا حیات نااہل قرار دیے گئے۔ اوریہ مقدمہ جب شروع ہوا تو چوہدری نثار علی خان نے سابق وزیر اعظم کو چھ رکنی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش نہ ہونے کا مشورہ دیا اور جے آّئی ٹی کی تشکیل میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندوں پر اعتراض عائد کرنے کا بھی کہا تو چوہدری نثار کی تجاویز کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا کیونکہ اب پارٹی کے اندر سے بھی یہ رائے زور پکڑ گئی تھی کہ چوہدری نثار کسی کی خواہش کو رائے کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔پھر 2018ءکے الیکشن کے بعد پارٹی کی باگ ڈور مریم نواز کے ہاتھ میں آگئی اور فیصلے مریم بی بی اور اُن کے ارد گرد موجود لوگوں کے ہونے لگے تو چوہدری نثار ہی وہ واحد شخصیت تھے جو ان فیصلوں کے خلاف کھڑے ہوگئے تھے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ چوہدری نثار علی خان کو اپنے اصولوں کی وجہ سے پارٹی کے اندر بھی کئی جگہوں پر سخت مشکلات کا سامنا رہا۔ بہرکیف چوہدری نثار علی خان پاکستان کی سیاست میں ایک پراسرار کردار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ اہم عہدوں پر بھی فائز ہوتے ہیں مگر اپوزیشن میں مزاحمتی سیاست سے دور بھی اور الگ تھلگ۔ اقتدار میں بھی ان سے رابطہ کرنا اہل اقتدار والوں کے لیے اتنا سہل نہیں ہوتا۔ وہ اپنے بارے میں خود یہ کہتے ہیں کہ پارٹی میں وہ اتنے ہی سینیئر ہیں جتنے نواز شریف ہیں اور یہ کہ یہ پارٹی صرف کسی ایک شخص کی نہیں ہے۔اس لیے فی الوقت تو چودھری نثار کا تعلق ن لیگ سے نہیں لگتا، کیوں کہ وہ آزاد رکن اسمبلی ہیں اس لیے اُمید یہی کی جا سکتی ہے کہ حلف اُٹھانے کے بعد وہ حکومت کو مشکل وقت سے نکلنے میں معاونت کریں گے ورنہ انہیں صوبائی اسمبلی کی سیٹ پرحلف اُٹھانے کی دوسری کوئی وجہ سامنے نہیں آتی! #chaudhry nisar #Punjab Assembly #Talkhiyan