بجٹ : توجہ طلب ضروری اقدامات!

بجٹ( budget)فرانسیسی زبان کا لفظ ہے، اس لفظ کا ماخذ فرانسیسی لفظ (bougette) ہے، جو بٹوے یا پرس کو کہتے تھے، یہ اصل میں اخراجات اور آمدنی کا تخمینہ ہوتا ہے۔ حکومتیںبجٹ سالانہ بنیادوں پر بناتی ہیں، آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں اور اخراجات اور آمدنی کا گوشوارہ یا بجٹ پارلیمنٹ سے منظور کیا جاتا ہے۔ اس دفعہ بھی اگلے مالی سال کا بجٹ جون کے دوسرے ہفتے میں پیش کیا جا رہا ہے ، جس کی وجہ سے اس وقت چاروں صوبوں اور مرکز میں بجٹ 2021-22کی تیاریاں زورو شور سے جاری ہیں۔ ایک مقروض ملک کا بجٹ کیسا ہو سکتا ہے، یہ تو سبھی جانتے ہیں مگر عوام کو اُمید ضرور ہوتی ہے کہ اگلی دفعہ حکومت عام آدمی کے لیے بجٹ میں کیا لائے گی اور کیا نہیں! لیکن عرصہ دراز سے شاید ہی کوئی ایسا بجٹ دیکھا گیا ہو،جس میں عا م آدمی کے لیے کچھ اچھا ہو۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اچھا اُسی صورت میں ہوگا جب ملکی معیشت بہتر انداز میں چل رہی ہوگی۔ درحقیقت معیشت دانوں کے نزدیک ملکی معیشت چلانے کے چار طریقے ہیں، پہلا طریقہ برآمدات بڑھانا ہے۔ ملک میں ایسی چیزیں بنائی جائیں یا پیدا کی جائیں جنہیں بیرونِ ملک بیچا جا سکے۔ معیار پر سمجھوتہ نہ ہو اور قیمت بھی دوسرے مد مقابل ممالک سے کم رکھی جائے۔ اس طرح زرمبادلہ آ ئے گا، ڈالرز کے ذخائر بڑھیں گے، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اورمعیشت کا پہیہ چلتا رہے گا۔ یہ سب سے بہتر طریقہ ہے اور دنیا کے نوے فیصد ترقی یافتہ ممالک اسی پر انحصار کرتے ہیں۔دوسرا طریقہ عوام پر ٹیکس لگا کر پیسہ اکٹھا کرنا ہے۔ جب ملکی ادارے چلانے کے لیے پیسے ختم ہونے لگیں تو نیا ٹیکس لگا دیں، عوام مجبور ہو کر ٹیکس دے گی۔ یہ طریقہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ کیوں کہ اس میں براہ راست عوام متاثر ہوتے ہیں اور حکومت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں یہ مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگر عوام پر نیا ٹیکس لگایا جائے تو اس کے بدلے سرکار سہولیات دے کر عوام کا غصہ کم کر دیتی ہے جبکہ تیسری دنیا کے ملکوں میں ٹیکس بھی لگایا جاتا ہے اور سہولیات بھی چھین لی جاتی ہیں۔ اس لیے یہ طریقہ زیادہ مقبول نہیں ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ طریقہ غلط ہے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ تیسرا طریقہ قرض لے کر ملک چلانا ہے۔ پہلے ایک ملک سے مناسب شرائط پر قرض لیں، جب ان کی ادائیگی کا وقت آئے تو دوسرے سے تھوڑی سخت شرائط پر قرض لے لیں اور جب کوئی بھی ملک قرض دینے سے انکار کر دے تو ملکی اثاثے گروی رکھوا کر قرض لینا شروع کر دیں۔ اس طریقہ کار سے ایک عرصہ تک تو ملک چلتا رہے گا لیکن ایک وقت ایسا آئے گا کہ ملک کی نیلامی شروع ہو جائے گی۔ نہ ملک آپ کا رہے گا اور نہ ہی اس کے اثاثوں پر آپ کا کوئی حق ہو گا، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آجکل ہو رہا ہے۔ یہ بدترین طریقہ ہے۔اس کا تباہی کے علاوہ دوسرا کوئی نتیجہ نہیں ہے۔چوتھا طریقہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت کی ہر چیز اپنے ملک میں بنائی اور اُگائی جائے، کسی پر بھی انحصار نہ کیا جائے۔ نہ باہر سے کچھ آئے اور نہ جائے۔ یہ آئیڈیل صورتحال ہے لیکن آج کے دور میں یہ تقریباً ناممکن ہے۔اور موجودہ حکومت کے دور میں تو ویسے ہی ممکن نہیں ہے، کیوں کہ جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے، یہ اُس کا تیسرا بجٹ ہوگا، جو تین مختلف وزراءخزانہ نے ترتیب دیا ہے، تبھی ہر بار معاشی مشکلات میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اس کے ساتھ کورونا نے معیشت پر خاصا اثر ڈالے رکھا، جس کے باعث ملک کو درپیش معاشی عدم استحکام اور کورونا کے باعث لاک ڈاﺅن کی وجہ سے ہر چھوٹا بڑا تاجر اور تنخواہ دار طبقہ متاثر ہوا ۔ لیکن دوسری طرف حکومت ہے کہ ہر دوسرے دن نئی نوید سنا دیتی ہے کہ معیشت اپنے پاﺅں پر کھڑی ہوگئی، اب ملک کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، یا شرح نمو 4فیصد سے زائد ہوگئی وغیرہ جیسے ابھی گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے یہ خبر سنائی کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں 33ارب ڈالر کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جبکہ رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی کی شرح 4فیصد رہے گی۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ کے دوران ترسیلاتِ زر میں بھی 29فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ ٹیکس محصولات کی وصولی میں بھی 15فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ پاکستان کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر بھی 23ارب ڈالر سے زائد ہو گئے ہیں۔ حالانکہ آزاد معیشت دان اسے قوم کے ساتھ ایک مذاق سے تشبیہ دے رہے ہیں، یعنی کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ معیشت اس قدر ترقی کر رہی ہے، اور ویسے بھی حقائق تو ہمارے ہاں ہر کوئی چھپاتا ہے تبھی تو ہر دفعہ کا بجٹ بھی محض لفظوں کا ہیر پھیر ہی ہوتا ہے۔ اگر ہم موجودہ بجٹ کے حوالے سے بات کریں تو حکومت نے نئے مالی سال 2021-22کے لیے 94 کھرب 35 ارب روپے کا بجٹ پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، اس بجٹ میں دفاعی بجٹ کو بھی بڑھا کر 15 کھرب 36 ارب روپے کیے جانے کا امکان ہے، جب تعلیم و صحت کے بجٹ میں کٹ لگائے جانے کی خبریں آرہی ہیں۔ جبکہ پنشنرز پر بھی ٹیکس لگانے کے بارے میں پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ یعنی ابھی تک کی تفصیلات کے مطابق صرف دفاعی پوزیشن میں اقدامات کیے جار ہے ہیںجبکہ ملکی صنعتوں کے فروغ کے لیے اور لانگ ٹرم پالیسی بنانے کے لیے کوئی اقدامات قابل ذکر نہیں ہیں۔ اس لیے فی الوقت ضرورت اس امر کی ہے کہ بجٹ میں لوکل انڈسٹری کو پروموٹ کرنے کے لیے اقدامات اُٹھائے جائیں۔ میرے خیال میں پاکستان کے 22کروڑ عوام میں سے 8کروڑ ہنر مند افراد کو استعمال کیا جائے، اور سمال انڈسٹری یا لوکل انڈسٹری کو فروغ دے کر ملکی پیداوار بڑھائی جائے ۔ ایسا کرنے سے ظاہر ہے ملکی درآمدات میں نمایاں کمی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ ہمارے سامنے ترکی ، ملائشیا، جرمنی ،چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مثال سب کے سامنے ہے، یہ ممالک لوکل انڈسٹری کو فروغ دے کر اوپر آئے۔ ترکی کی مصنوعات کو سب سے بڑا چیلنج یورپ سے ہے لیکن ترکی نے کوالٹی اور جدت دے کر ایسی مصنوعات تیار کیں جو یورپ نہ چاہتے ہوئے بھی ترکی سے خریدنے پر مجبور ہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت بھی چین سے ایک حد تک چیزیں خریدتا ہے مگر مجال ہے کہ وہ اپنی لوکل انڈسٹری کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے۔جرمنی کی مثال لے لیں جس نے دنیا بھر میں کھلونوں کے کاروبار سے آغاز کیا اور پھر بڑی گاڑیاں بنانے کی ایک عالمی منڈی میں بدل گیا۔ آج جرمنی مسلسل تیسرے برس دنیا کے سب سے بڑے ٹریڈ سرپلس رکھنے والے ملک کا اعزاز حاصل کرنے کی راہ پرگامزن ہے۔ 300ارب ڈالر سرپلس رکھنے والا یہ ملک آج دنیا کو 34فیصد گاڑیاں فراہم کر رہا ہے۔ جاپان اور چین بھی انہی ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔ جنہوں نے محض گھریلو استعمال کی اشیاءخاص طور پر الیکٹرانک اشیاءکی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں لگائیں اور اس انڈسٹری کے وہ بے تاج بادشاہ بن گئے۔ نیوزی لینڈ نے اپنے ہم وطنوں کو سیب کی کاشت کرنے کی ترغیب دی اور آج نیوزی لینڈ سیب ایکسپورٹ کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ امریکا نے مائیکروسافٹ کمپنی کی مدد سے بے تحاشہ اربوں ڈالر کما کر نہ صرف ملکی معیشت میں حصہ ڈالا بلکہ ملک کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اور آج امریکہ کی 30سے زائد کمپنیوں کا کاروبار دنیا کے کئی ممالک کے کل بجٹ کے برابر ہے۔ پھر آپ آسٹریلیا کی مثال لے لیں جس نے محض لائیو سٹاک کے ذریعے اپنی معیشت کو سہارا دیا۔ آج آسٹریلیا سعودی عرب کو قربانی کے موقع پر بھیڑیں دینے والاسب سے بڑا ملک ہے جس کا تخمینہ اربوں ڈالر لگایا جا سکتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں بھی کئی ایسے شعبہ جات ہیں جن پر اگر حکومت توجہ دے تو ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں، جیسے اس وقت پاکستان میں تقریباً3ہزار آٹو پارٹس مینوفیکچررز کام کر رہے ہیں اور اِس انڈسٹری نے باعزت روزگار اور آمدنی کے تقریباً 3 ملین مواقع پیدا کیے ہیں، پانچ لاکھ ماہر کاریگروں کو بلا واسطہ اور 2.4 ملین افراد کو بالواسطہ ملازمت فراہم کی ہے۔ اس انڈسٹری نے 400 ارب روپے کی غیر معمولی سرمایہ کاری کا حجم پیدا کیا ہے اور قومی خزانے کو سالانہ 90 ارب روپے بطور ٹیکس ادا کرتی ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس انڈسٹری کے مالکان کا زیادہ تر تعلق بیرون ممالک سے ہے جو منافع باہر لے جاتے ہیں اور پاکستان کے زرمبادلہ کو کروڑوں ڈالر کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کو اگر کسی چیز پر ٹیکس لگانا مقصود ہے تو سگریٹ پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگایا جائے، کیوں کہ ایک رپورٹ کے مطابق اگر سگریٹ انڈسٹری سو ڈیڑھ سو ارب روپے ٹیکس دیتی ہے تو سالانہ 6سو ارب کا نقصان بھی ہوتا ہے، یہ نقصان حفظان صحت کی صورت میں اُٹھانا پڑتا ہے۔ پھر لگژری آئیٹمز پر بھی ٹیکس لگایا جائے، کیوں کہ پاکستان میں امیر آدمی کو ان ٹیکسوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، پھر ایک اور طبقہ ہے جسے ٹیکس نیٹ میں لایا جانا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ پرچون فروشوںکو ”فکس ٹیکس“ کے نیٹ میں لایا جائے، کیوں کہ ملک کے طول و عرض میں پرچون فروشوں کی تعداد لاکھوں میں لیکن اسے بدقسمتی کہئے کہ ہزار کوشش کے باوجود انہیں ٹیکس نظام کا حصہ بنانا 73برس سے ایک چیلنج چلا آرہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طریقہ کار کے تحت یہ طبقہ ٹیکس دینے پر تیار ہے اس پر متعلقہ ادارے راضی نہیں اور جس طرح حکومت چاہتی ہے ریٹیلرز اس پر آمادہ نہیں۔ وفاقی حکومت اپنی کوششیں جاری رکھتے ہوئے اس وقت مختلف طریقوں پر غور کررہی ہے ان میں سے ایک جی ایس ٹی کی کم شرح جو پانچ سے سات فیصد کے درمیان ہو عائد کرنا ہے جس سے لاکھوں دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے گا۔ خیر جو بھی طریقہ اپنا یا جائے، لیکن ایسے کاروباروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے جو سب کی نظروں سے اوجھل ہیں مگر وہ اچھا خاصا مال بنا رہے ہیں۔ لہٰذاحکومت کو چاہیے کہ اپنی امپورٹ میں اضافہ کرے اور زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے عملی اقدامات پر زور دے تاکہ ٹیکس کے اہداف بھی پورے کیے جاسکیں اور جو لوگ ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکے! #budget #Pakistan #Talkhiyan