سانحہ گھوٹکی : ہم اب بھی کچھ نہیں کریں گے!

یہ تین ماہ قبل مارچ کی بات ہے کہ کراچی سے لاہور جانے والی’ کراچی ایکسپریس‘ روہڑی شہر کے نزدیک پٹری سے اتر ی جس کے نتیجے میں 30 افراد زخمی اور ایک شخص کی ہلاکت ہوئی تھی، چونکہ ”ہلاکتیں“ کم تھیں اس لیے اس حادثے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی ۔ لیکن پھر دوبارہ اسی روٹ پر روہڑی سے 50کلومیٹر دور گھوٹکی پر بالکل اسی نوعیت کا حادثہ ہوگیا، یہاں پرکراچی سے سرگودھا جانے والی ملت ایکسپریس کی بوگیاں پٹری سے اُتر کر ڈاو¿ن ٹریک پر جا گریں، اور بدقسمتی سے راولپنڈی سے کراچی آنے والی سرسید ایکسپریس ان بوگیوں سے ٹکرا گئی۔لامحالہ اگر سرسید ایکسپریس نہ ٹکراتی تو یہاں بھی اکا دکا ہلاکتیں ہونا تھیں اور اعلیٰ حکام نے ”افسوس“ تک کا اظہار نہ کرنا تھا۔ مگر اب چونکہ گھوٹکی حادثے میں تادم تحریر ہلاکتوں کی تعداد 62سے زائد اور زخمیوں کی تعداد سوسے زائد ہے تو اب وزیر اعظم سے لیکر عام مشیر تک سبھی اظہار افسوس بھی کر رہے ہیں اور ”شفاف“ تحقیقات کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑ رہے....حیرت ہے کہ ہم ”چھوٹا حادثہ“ ہونے کو حادثہ ہی نہیں سمجھتے اور کہتے پائے جاتے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ ”بال بال بچ گئے ہیں“پھر مزید حیرت یہ کہ اُس حادثے کے بعد بھی کوئی حفاظتی بند باندھنے یا حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے کسی بڑے حادثے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر شکار ہو بھی جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہماری توہم پرستی کی انتہا اُس وقت اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے جب ہم کسی چھوٹے حادثے کے بعد برملا کہتے ہیں کہ کوئی ”بڑی آفت“ ٹل گئی ہے! لیکن پھر جب بڑی آفت آتی ہے تو سو پچاس جانیں ساتھ لے جاتی ہے۔ پچھلی حکومتوں کو آپ چھوڑیں موجودہ حکومت کو دیکھ لیں ، خدا کی پناہ اب تک تین سالوں میں 455حادثات ہو چکے ہیں، جن میں سینکڑوں افراد جان سے گئے۔ سال 2019 پاکستان ریلوے کی تاریخ کا بدترین سال ثابت ہوا، جس میں 100 سے زائد حادثات ہوئے۔سب سے زیادہ جون2020 میں 21 حادثات رونما ہوئے، ان حادثات کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ محکمہ ریلوے کو بھی خطیر رقم کا نقصان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ ریلوے کی تاریخ کئی بڑے حادثات سے بھری پڑی ہے، اور سکھر ڈویژن ریلوے کا اہم ترین ڈویژن ہے جس کی حدود پنجاب اور بلوچستان تک ہے اس ڈویژن میں محکمہ ریلوے کی ٹرینوں کے کئی خوفناک ٹرین حادثات رونما ہوئے ہیں، اسی طرح ملک کے مختلف علاقوں میں متعدد ٹرینوں کے حادثات ہوئے، سکھر ڈویژن میں ایک بڑا ٹرین حادثہ 4 جنوری 1990 کو ہوا، جب روہڑی کے قریب سانگی میں ٹرین حادثے میں 307 افراد جان سے گئے۔ 1953 جھمپیر کے قریب ٹرین حادثے میں 200 افراد جاں بحق ہوئے، اسی طرح 1954 میں جنگ شاہی کے قریب ٹرین حادثے میں 60 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، جبکہ ریلوے کو کروڑوں کا نقصان ہوا۔ 22 اکتوبر 1969 کو لیاقت پور کے قریب ٹرین حادثے کا شکار ہوئی، جس میں 80 افراد جان سے گئے۔ 13 جولائی 2005 کو گھوٹکی کے قریب تین ٹرینیں آپس میں ٹکرا گئیں، جس کے نتیجے میں 120 افراد جاں بحق ہوئے، جولائی 2013 میں خان پور کے قریب ٹرین رکشے سے ٹکرا گئی، اس حادثے میں 14 افراد جان سے گئے، 2 جولائی 2015 کو گوجرانوالہ میں ٹرین حادثہ پیش آیا اور 19 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ 17 نومبر 2015 بلوچستان میں ٹرین حادثے کے نتیجے میں 20 افراد لقمہ اجل بنے۔ 3نومبر 2016 کو کراچی کے علاقے لانڈھی میں دو ٹرینیں آپس میں ٹکرائیں، جس کے نتیجے میں21 افراد جاں بحق ہوئے۔ 31 اکتوبر 2019 کو ضلع رحیم یار خان میں مسافر ٹرین میں آگ لگنے سے 74 افراد جان سے گئے۔11جولائی 2019 کو رحیم یار خان کے قریب اکبر ایکسپریس مال گاڑی سے ٹکرا گئی، جس کے نتیجے میں 20 مسافر جاں بحق ہوئے۔ مطلب ریلوے میں حادثات کی تاریخ کسی ڈراﺅنے خواب سے کم نہیں ہے، حالانکہ دنیا بھر میں اس سفر کو سب سے محفوظ تر سمجھا جاتا ہے، اور اسے مزید محفوظ بنانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ریسرچ کی جاتی ہیں اور ایک معمولی حادثے پر بھی کئی کئی دن انجینئرز کام کرتے اور کوشش کرتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا حادثہ بھی نہ ہونے پائے۔ تبھی چین میں ہر سال 1550ارب لوگ، بھارت میں 14سو ارب ، جاپان میں 5سو ارب، روس میں دو سو ارب، فرانس ، جرمنی ، جنوبی کوریا میں 100ارب، برطانیہ میں 80ارب اور امریکا میں ہر سال 35ارب لوگ ٹرین کا سفر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر روڈ حادثات میں روزانہ 100افراد ہلاک ہوتے ہیں تو ٹرین کے حادثات میں ہلاکتوں کا تناسب 7فیصد جبکہ ہوائی سفر میں یہ تناسب کم ہو کر 0.04فیصد رہ جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں نہ تو کبھی ٹریفک حادثات رکے ہیں، نہ کبھی ٹرین حادثات اور نہ کبھی ہوائی حادثات۔ ان سبھی حادثوں میں صرف ایک بات جو سننے کو ملتی ہے وہ یہ کہ ”مرنے والے کی تقدیر میں ہی یہ لکھا تھا“۔ یہ بدقسمتی ہی سمجھ لیںکہ آج دنیا 500فی کلومیٹر رفتار حاصل کرنے کے لیے نت نئے ٹریکس بنا رہی ہے مگر ہم 90کلومیٹر کی رفتار سے 30کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار تک آچکے ہیں۔ بقول شاعر نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا بہرحال پاکستان میں ریلوے حادثات کی وجوہات جو بھی ہوں لیکن ہم نے انسانیت کو بچانے کے لیے ابھی تک کونسی احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں؟ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: ایک زندگی جس نے بچا لی، تمام آدمیت کو اس نے بچا لیا۔ ایک آدمی کو، جس نے قتل کیا، اس نے گویا ساری انسانیت کو قتل کر ڈالا۔ لیکن ہم ہیں کہ اس بوسیدہ نظام کو انسانیت کی خاطر بھی ٹھیک کرنے سے عاری نظر آرہے ہیں۔ ابھی ٹی وی پر دیکھ رہا ہوں کہ پٹری پر پڑی لاشوں سے بے نیاز اہل سیاست اور ان کے مجاور ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہے ہیں۔حکومت کے مخالفین عمران خان کے پرانے ارشادات نکال نکال کر سامنے لا رہے ہیں کہ ریلوے کے حادثے پر وزیر ریلوے کا مستعفی ہو جانا کیوں اور کتنا ضروری ہوتا ہے۔ ان کے پرانے خطبے اور اقوال زریں اس وقت سوشل میڈیا پر فلیش ہو رہے ہیں۔ انسانی المیے سے کسی کو غرض نہیں ہو گی ، سب اپنی اپنی سیاسی ضرورتوں کو پیٹ رہے ہوں گے۔۔ اس ساری نا مبارک مشق کا مقصد انسانی جان کی حرمت کا تحفظ نہیں ہو گا بلکہ ان کے پیش نظر صرف یہ ہو گا کہ سیاسی حساب کیسے چکائے جا سکتے ہیں۔ خیر اگر موجودہ حادثے کی طرف آئیں جس میں کہا جا رہا ہے کہ پٹریاں کمزور ہونے کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔ چلو یہ تو مان لیتے ہیں کہ پٹریاں کمزور ہیں، لیکن یہ حادثہ پٹریوں کی وجہ سے نہیں ہوا۔بلکہ یہ ”مس مینجمنٹ “ کا واقعہ ہے۔ ایک ٹرین جب کھڑی ٹرین پر جا کر لگتی ہے ، تو مطلب رابطے کا فقدان ہے۔ ہمیں اس معاملے میں سفاکی، بے رحمی دکھانے کے بجائے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس قسم کی کہانیاں گھڑنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان حادثات میں قصور کس کا ہے؟موجودہ وزیر ریلوے اعظم سواتی، یا سابق وزرائے ریلوے شیخ رشید، سعد رفیق وغیرہ کا۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام کو بہتر بنایا جائے، ریلوے گزشتہ 50سال سے خسارے میں ہے،،،، اگر یہ نظام نہیں چل رہا تو اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت نجکاری کر دی جائے اس سے سالانہ 100ارب روپیہ بھی بچے گا اور ساتھ دو سو فیصد یقین ہے کہ یہ ادارہ منافع میں بھی آجائے گا۔ کیوں کہ ابھی تک جتنے پراجیکٹس بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت یا بیرون اداروں کے ساتھ چلائے گئے ہیں وہ منافع میں ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ملک بھر میں موٹرویز ہیں۔ لہٰذاریلوے اگر گزشتہ پچاس سالوں سے ٹھیک نہیں ہوسکا تو اسے اعظم سواتی یا کوئی ”مغل اعظم“ بھی نہیں ٹھیک کر سکتا۔ ورنہ اگر اسی نظام کے تحت ریلوے کو چلانا ہے تو کم از کم پٹری اور سگنل سسٹم کی تجدید ہی کر دی جائے ، یا اس ریلوے کو بھی ایم ایل ون منصوبے کے تحت نئی زندگی دی جائے تاکہ حالانکہ ایم ایل ون منصوبہ 6ارب ڈالر یعنی 900ارب روپے سے زائد کا ہے جس کی منظوری ایکنگ دے چکا ہے تاہم ایک سال بعد بھی ایم ایل ون منصوبے پر کام شروع نہیں ہوسکا۔ یہ کب ہو گا، ابھی تک اس بارے بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لہٰذاوزیراعظم کو اس شعبہ میں ذاتی طور پر دلچسپی لینے کے ساتھ اپنے دور میں ہوئے حادثات کی مکمل انکوائری رپورٹس مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جو بھی ذمہ دار ہوں انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے، ورنہ ہم یونہی اپنے پیاروں کے لاشے اکٹھے کرتے رہیں گے اور یونہی ایک دوسرے پر تہمتیں لگا کر بری الذمہ ہوتا جائیں گے! #Railway Accident #Pakistan #Pakistan Railway #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon