افغانستان سے امریکی انخلا: اجتماعی مفاد میں بہتر فیصلہ کریں !

اس وقت امریکی فوج افغانستان سے دو دہائی کی طویل جنگ کے بعد نکل رہی ہے، امریکا اور اتحادی افواج کا ایک بڑا حصہ یہاں سے نکل چکا ہے جبکہ 2500کے قریب امریکی فوجی ابھی بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ یہ انخلاءرواں سال ستمبر تک مکمل ہو جائے گا۔ جس کے بعد ماہرین کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں طالبان دوبارہ متحرک ہوجائیں گے اور ایک بار پھر امریکا کو یہاں آنا پڑے گا۔ ان پیشگی خطرات کی وجہ سے امریکا چاہتا ہے کہ وہ افغانستان سے اپنا انخلا تو مکمل کرلے مگر وہ اسی خطے میں ”امریکی فضائیہ“ کی شکل میں موجود رہے۔ اس کے لیے اُن کی سب سے پہلی اور بہترین ترجیح پاکستان ہے جو افغانستان کے ہمسایہ میں بھی ہے ، اور جہاں سے امریکا کو افغانستان میں خراب صورتحال کے پیش نظر کم وقت میں افغانستان کے علاقوں کو نشانہ بنانے میں مدد ملے گی۔ امریکا اس خواہش کا اظہار مختلف فورم پر کر چکا ہے بلکہ اُن کے اعلیٰ حکام تو یہاں تک بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان نے اڈے دے دیے ہیں۔ جیسے امریکی کانگریس میں ہونے والی حالیہ سماعت میں امریکی سیکریٹری ہند۔ بحر الکاہل امور کے لیے اسسٹنٹ سیکریٹری برائے دفاع ڈیوڈ ایف ہیلوے نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا تھا کہ ”پاکستان نے افغانستان میں ہماری فوجی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت اور زمینی رسائی دے دی ہے“۔جبکہ اس کے برعکس فی الوقت پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی وغیرہ ابھی تک اڈے دینے کے حوالے سے انکار کر رہے ہیں۔ اور دوسری طرف افغان طالبان بھی پاکستان کو خبردار کر رہے ہیں کہ وہ بیرونی طاقتوں کو اپنے اڈے دینے سے باز رہے۔ خیر یہ صورتحال بھی چند دن میں کلیئر ہو جائے گی کہ پاکستان نے اڈے دے دیے ہیں یا نہیں! اور اگر دے دیے ہیں تو اُس کے عوض پاکستان نے کیا وصول کیا ہے؟ اور امریکا نے پاکستان کو کن شرائط پر منایا ہے۔ کیوں کہ ماضی گواہ ہے کہ حکومت وقت ہمیشہ انکار ہی کرتی آئی ہے جبکہ بیک اسٹیج وہ سب کچھ کر چکی ہوتی ہے۔ خیر آگے چلنے سے پہلے ہم اس اہم مسئلے پر نظر دوڑاتے ہیں کہ امریکا نے ایشیاءمیں کہاں کہاں اپنے پیر جمائے ہیں اور کن کن ملکوں میں وہ عملی طور پر موجود ہے۔ ویسے آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ امریکا دنیا بھر کے 60 سے زائد ممالک میں براہ راست اپنا وجود رکھتا ہے ، اور اس پر بھی حیرت یہ کہ اس فہرست میں ایشائی ممالک اس کے زیادہ ”قریب تر“ ہیں۔اگر ہم فوجی تعداد کے حوالے سے بات کریں تو سر فہرست سعودی عرب ، یواے ای اور دیگر خلیجی ریاستیں آتی ہیں جہاں اس وقت تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد 45 ہزار سے 65 ہزار کے درمیان ہے۔ جبکہ عراق میں تعینات فوجیوں کی تعداد ساڑھے 5 سے 6 ہزار اور شام میں امریکی فوجیوں کی تعداد 600 کے لگ بھگ ہے۔اس کے علاوہ گزشتہ سال مئی میں مبینہ ایرانی حملوں کے بعد پینٹاگون نے خلیج فارس میں 14 ہزار اضافی فوجی تعینات کیے جن میں سعودی عرب میں بھیجے گئے ساڑھے 3 ہزار فوجی بھی شامل ہیں۔ اگر ہم اس خطے میں موجود امریکی فوجی اثاثوں کی بات کریں توان میں پیشگی وارننگ دینے والے جہاز، سمندری نگرانی کرنے والے جہاز، پیٹریاٹ ائیر اینڈ میزائل ڈیفنس بیٹریز، بی 52 بمبار طیارے،کیرئیر اسٹرائیک گروپ، مسلح ریپر ڈرون اور انجینئرگ و دیگر اہلکار شامل ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ تقریباً 2 سے ڈھائی ہزار امریکی فوجی ترکی میں بھی موجود ہیں جن میں زیادہ تر وہاں کی اینجرلیک ایئربیس پر تعینات ہیں۔امریکا اپنے نیٹو اتحادی ترکی سے کشیدہ تعلقات کے باوجود اس اڈے کا استعمال مسلسل کرتا رہا ہے اور یہاں سے 2016 اور 2017 میں داعش کے خلاف سیکڑوں فضائی حملوں کے لیے طیاروں نے اڑان بھری۔ اس کے علاوہ خلیجی ریاست بحرین میں بھی امریکی نیوی کے ففتھ فلیٹ کا ہیڈکوارٹرز موجود ہے جو کہ خطے میں جنگی جہازوں کو کمانڈ کرتا ہے اور یہاں تقریباً 7 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ دیگر خلیجی ملکوں سے اس وقت خراب تعلقات رکھنے والے ملک قطر میں بھی 13 ہزار امریکی فوجی العدیدائیربیس پر تعینات ہیں۔ خطے میں امریکی فضائی آپریشن کا ہیڈکوارٹرز بھی یہی ائیربیس ہے۔مزید بتاتا چلوں کہ تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب اور عراق کے پڑوسی ملک کویت میں بھی امریکا اپنی 82 ویں ائیربورن ڈویژن کے مزید تقریباً 4 ہزار فوجی تعینات کر رہا ہے۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ تمام معلومات کسی عام ذرائع سے نہیں بلکہ امریکا کے سب سے بڑے اخبار”نیویارک ٹائمز“ سے لی ہیں۔ جبکہ اس کے علاوہ بھی سن لیں کہ امریکا کے جرمنی، جاپان، برطانیہ، یورپ کے بیشتر ممالک، جنوبی کوریا، ویت نام، کینیڈا، اٹلی، برازیل، کیوبا، بلغاریہ، کیمرون، بوسنیا، ناروے، سنگاپور، تھائی لینڈ، آذربائیجان سمیت درجنوں مغربی و یورپی ممالک میں بھی ہوائی اڈے موجود ہیں۔ یہ ساری معلومات دینے کا مقصد جنرل نالج میں اضافہ کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ ان سب ممالک نے جب ہوائی اڈے دے رکھے ہیں اور امریکا جب چاہتا ہے ان ممالک سے دوسرے ممالک جہا ں اُسے خطرہ محسوس ہو وہاں پر وہ کارروائی کرتا ہے۔ تو ذرا بتائیے کہ پاکستان کس باغ کی مولی ہے؟اور پھر معذرت کے ساتھ پاکستان کی اوقات ہے کہ یا پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ وہ امریکا کو اڈے دینے سے انکار کر سکے؟ لہٰذاہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیئں، اگر ہم اڈے نہیں دیں گے تو بھارت اڈے دے دے گا، تب ہم کیا کریں گے؟ لہٰذااس معاملے میں ہمیں ایسا فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے جو ملکی مفاد میں بہترین ہو۔ ہمیں نہ تو افغانستان کے پیار میں پاگل ہونے کی ضرورت ہے، نہ اسلامی دنیا کے پیار میں اور نہ ہی امریکا کے پیار میں۔ مذکورہ بالا تمام ملکوں نے امریکا کو اڈے دینے اور افواج رکھنے کے عوض بڑی بڑی مراعات حاصل کر رکھی ہیں، جیسے جنوبی کوریا کی شمالی کوریا سے حفاظت امریکا کے ذمہ ہے ورنہ امریکا کو شمالی کوریا سے بھلا کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ اسی طرح کینیڈا نے امریکا کا فوجی اڈے دے کر فوج کے اخراجات سے اپنے آپ کو بری الذمہ کر دیا ہے۔ اسی طرح جرمنی نے امریکا کو ہوائی اڈے دے کر 100ارب ڈالر سے زائد کا معاہدہ کر رکھا ہے تبھی جرمنی دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن چکا ہے، پھر یو اے ای اور سعودی عرب کی تمام تر سیکیورٹی کا ذمہ دار امریکا ہے، جاپان نے بھی ایک بڑا تجارتی معاہدہ کر رکھا ہے اس لیے اُس کی معیشت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ اسی طرح عراق پر حملہ کرنے کے لیے مصر نے امریکا کو اپنے ہوائی اڈے دیے اور بدلے میں اپنا تمام تر قرضہ معاف کروایا،مزید آپ یورپ کے دیگر ممالک کے ساتھ قطر، بحرین ، برازیل وغیرہ کو دیکھ لیں سبھی نے مفادات لے رکھے ہیں۔ الغرض دنیا کی ہر ”غیرت مند قوم“ نے امریکا کو اپنے اڈے دیے ہوئے ہیں اوربدلے میں امریکا سے مراعات وصول کر رہا ہے۔ آپ تائیوان کو دیکھ لیں، چین، تائیوان کو اپنے سے علیحدہ ہو جانے والا صوبہ سمجھتا ہے، لیکن تائیوانی باشندے اپنے آپ کو ایک علیحدہ قوم سمجھتے ہیں، اسی خطرے کے پیش نظر تائیوان نے اپنے آپ کو امریکا کے حوالے کر رکھا ہے، جس کے بعد چین کی کیا مجال کہ وہ اس چھوٹے سے ملک پر قبضہ کر لے،یعنی جو مرضی ہوجائے ، جو ممالک امریکا کے ساتھ ہیں انہوں نے ساتھ ہی رہنا ہے۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان کو نہ تو اپنا جھکاﺅ معلوم ہے، نہ اپنی سمت کا تعین ہے اور نہ اپنی منزل کاپتہ ہے۔ ہم بیک وقت امریکا کے ساتھ بھی تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں، ہم روسی بلاک کوبھی خیر آباد نہیں کہنا چاہ رہے اور ہم چین کو بھی اپنا ملک گروی رکھواتے جا رہے ہیں۔ لہٰذاوسیع تر مفاد میں اس وقت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کو سر جوڑنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اس وقت پوری قوم کا دھیان اس بات پر ہے کہ ڈیل کیا ہوئی؟کیوں کہ ہمارا ماضی ملکی مفاد میں کوئی بھی ڈیل کرنے سے عاری نظر آتا ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک سبھی حکمرانو ں نے امریکا کو ہوائی اڈے دیے لیکن سبھی نے ذاتی مفادات سے بڑھ کر کچھ نہیں مانگا۔ بلکہ جنرل ضیاءالحق اور جنرل مشرف نے تو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے امریکا پر ہرچیز قربان کر دی تھی۔ اس سے بھی پہلے آپ 60کی دہائی کے اوائل کی بات کر لیں ۔ہنری کسنجر اپنی کتاب میں بھی لکھ چکے ہیں کہ پاکستانیوں کو صرف ذاتی مفادات عزیز ہیں۔ ہنری کسنجر کو امریکہ کے اہم ترین وزرائے خارجہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ اُن لوگوں میں سے ایک ہیں جو امریکی خارجہ پالیسی کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے دورِ وزارتِ خارجہ میں عالمی سیاست میں ایک بڑی اور بنیادی تبدیلی آئی،اُس زمانے میں امریکہ اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع تھے۔ عملاً امریکہ نے چین میں ثقافتی انقلاب کے بعد قائم ہونے والی ماو¿زے تنگ اور چواین لائی کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہوا تھا۔ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کے دور میں حکومتِ پاکستان نے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے خفیہ دورہ چین کا اہتمام کیا۔ وہ اسلام آباد سے خفیہ طور پر بیجنگ گئے، ماو¿زے تنگ اور چواین لائی سے ملاقات کی۔ امریکہ نے چین کی انقلابی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح چین امریکہ تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ہنری کسنجر اپنی کتاب میں اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس اقدام کے بعد ہم خوف میں مبتلا تھے کہ پاکستان نہ جانے اُن سے اب کیا مطالبہ کرے گا۔ لیکن وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان نے اس تاریخی تعلقات کی بحالی کے عوض محض ذاتی تعلقات بڑھانے کے علاوہ کچھ نہیں مانگا! بہرکیف ہمیں چوں چراں یا جھجک جھجک کر باتیں کرنے اور مبہم پالیسیاں بنانے کے بجائے علی الاعلان فیصلے کرنا ہوں گے، کیوں کہ ہماری صورتحال معذرت کے ساتھ اُس ”کمّی“ جیسی ہو گئی ہے جو گاﺅں کے تمام چوہدریوں کے سامنے سربسجود ہوتا ہے۔ اگر ہمارا امریکا کے ساتھ مکمل قرضہ معاف کرنے کے عوض ہوائی اڈے دینے کا سودا ہو جاتا ہے تو یہ برا نہیں ہوگا۔ اور یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ سننے میں آرہا ہے کہ اگر امریکا کو پاکستا ن نے اڈے نہ دیے تو بھارت امریکا کو مقبوضہ کشمیر میں اڈے دے گا تاکہ کسی بھی ممکنہ صورتحال کے پیش نظر کم از کم مقبوضہ کشمیر اُن کے لیے محفوظ ہو جائے۔ لہٰذااگر قومیں اپنا مفاد سب سے پہلے رکھتی ہیں تو پاکستان کو بھی سب سے پہلے اپنا مفاد سامنے رکھنا ہوگا، کیوں کہ اس مسئلے کو بھی اشرافیہ نے اپنے طریقے سے ہینڈل کیا تو یہ مسئلہ بھی ریکوڈک، گوادر اور سی پیک کی طرح مسائل کا شکار ہو جائے گا۔ اور حالات یہاں تک ہوں گے کہ امریکا کے ایک اشارے پر پاکستان ”ڈیفالٹ“ کر جائے گا اور پھر ہمیں پٹرول ، خام مال اور دیگرعام استعمال کی چیزیں بھی نہیں دے گا ! اللہ خیر کرے! #US #Afghanistan #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon #U.S. military #U.S. troops #Pakistan #Prime Minister Imran Khan #Foreign Minister Shah Mehmood Qureshi #Afghan Taliban