کیا پاکستان امریکا کے بغیر کے رہ سکتا ہے؟

آج کل دو دہائیوں کے بعد امریکی فوج افغانستان سے عملی طور پر نکل رہی ہے، اس موقع پر پاکستان ، افغان حکومت اور طالبان میں بے چینی کا عالم ہے۔ ہر کوئی فکر مند ہے کہ نہ جانے کیا ہونے والا ہے۔ پاکستان بھی اس وقت دوراہے پر کھڑا ہے کہ اگر وہ امریکا کا ساتھ دیتا ہے ، اور طالبان کے خلاف کارروائی کا حصہ بنتا ہے تو پاکستان میں ایک بار پھر امن و امان کے حالات بگڑ سکتے ہیں، لیکن اگر پاکستان امریکا کا ساتھ نہیں دیتا تو یہ اُس سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوگا۔ اس لیے پاکستان سمیت اس سے متعلقہ ممالک میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کا کردار کیا ہو گا؟ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے اہم ترین پالیسی بیانات سامنے آئے ہیں۔ امریکی ٹی وی چینل اور اخبار کو اپنے انٹرویوز میں ایک طرف تو انہوں نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر امریکہ کو فوجی اڈے نہیں دے گا اور دوسری طرف انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ پاکستان سب کچھ کرے گا لیکن افغان طالبان کے خلاف فوجی ایکشن نہیں کرے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان ایسا کر سکے گا جیسا کہ وزیراعظم پاکستان کہہ رہے ہیں؟جبکہ وزیراعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاکستان کے دیگر حکام مسلسل اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر افغانستان کے مسئلے کا ایسا سیاسی حل نہ نکالا گیا جو طالبان کے لئے بھی قابلِ قبول ہو تو افغانستان میں خونریز خانہ جنگی ہو سکتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدشہ درست بھی ہے کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افواج کے انخلا سے پہلے ہی افغانستان کے مختلف علاقے تیزی سے طالبان کے قبضے میںآرہے ہیں۔اور تادم تحریر کابل پر چڑھائی کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ لہٰذااس موقع پر پاکستان اپنے ملکی مفاد میں فیصلہ کرے، اگر ہم واقعی امریکا کے بغیر رہ سکتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، ناکہ خالی نعروں اور طفل تسلیوں سے کام لینے کی۔ اس کے لیے ہمیں ترکی، ملایشیا، انڈونیشیا، ایران و دیگر خودکفیل اسلامی ممالک کی پالیسوں کو اپنانا ہوگا۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ کس طرح سے پالیسیوں کو جاری رکھ آئی ایم ایف، ورلڈبینک، امریکا اور ودیگر ممالک و اداروں کا اپنے ملک میں راستہ بند کیے ہوئے ہیں۔ جبکہ یہ خبریں ہمیں بھی سننے میںاچھی لگتی ہیں کہ پاکستان امریکا کے بغیر بھی چل سکتا ہے، لیکن یہ خبریں صرف خبریں ہی رہتی ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ کیوں کہ کیا ہم میں سے کوئی امریکا کے چنگل سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے؟ کیا اُس کے لیے کوئی محنت کرتا ہے؟ اور پھر کیاہم ہر چیز میں ایمانداری کا عنصر شامل کرسکتے ہیں؟ نہیں ناں! کیا ہم امپورٹڈ چیزوں کا استعمال کرنا چھوڑ سکتے ہیں؟ نہیںناں! ، اسی چھوڑنے چھڑانے پر مجھے گزشتہ دنوں کا عالمی سطح پر ہونے والا بڑا واقعہ یاد آگیا، کہ جب معروف فٹ بالر کرسٹینا رونالڈو نے پریس کانفرنس کے دوران اپنے سامنے پڑی سافٹ ڈرنکس کی پراڈکٹ کو ایک سائیڈ پر کر دیا اور پانی کی بوتل لہرادی، یعنی اُن کا مطلب تھا کہ سافٹ ڈرنک چھوڑو پانی پیو۔ اُن کی اس ”حرکت“ نے سافٹ ڈرنک برانڈ کے دنیا بھر میں شیئر ریٹس گرا دیے اور کمپنی کوکم و بیش 5سے 6ارب ڈالر کا چند سیکنڈز میں نقصان ہوگیا۔ لیکن اس کے برعکس ہم نے ہر فورم پر فرانسیسی مصنوعات سمیت دیگر ممالک کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریکیں چلائیں، لیکن ہم دنیا کو متاثر نہ کر سکے، اور ایک سنگل یورو کا نقصان فرانس کو نہیں پہنچا سکے، بلکہ آپ یقین مانیں کہ اس نام نہاد بائیکاٹ سے اُنہیں بھی علم ہوگیا کہ فرانسیسی پراڈکٹس کون کون سی ہیں، جنہیں اس بائیکاٹ سے پہلے علم ہی نہیں تھااور سنا ہے کہ اُن کی پراڈکٹس کی خرید میں مزید اضافہ ہوگیا۔ میرے ایک دوست ہیں جو سپر سٹور چلاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے مذہبی یکجہتی کی خاطر فرانسیسی مصنوعات کو اپنے سٹور سے اُٹھا لیا، تو لوگ ہم سے آکر لڑتے تھے، کہ ہمیں فلاں پراڈکٹ چاہیے!، فلاں فرانسیسی پرفیوم چاہیے، حتیٰ کہ ہمیں وہ مصنوعات دوبارہ رکھنا پڑیں۔ یہ سب کاسمیٹکس پراڈکٹس ہیں انہیں آپ چھوڑ دیں۔ ہماری تو ساری مشینری بیرون ملک سے آتی ہے، ہماری تو ساری کی ساری انڈسٹری یورپ و امریکاو چائنہ سے آتی ہے، اگر ہم مشینری یا اُس کے پارٹس منگوانے بند کردیں تو ہماری انڈسٹری کا پہیہ رُک جاتا ہے، پھر پورا پاکستان یورپ و امریکا کی استعمال شدہ آئی ٹی آئیٹمز استعمال کر رہا ہے۔ ہم تو کمپیوٹر کا ایک پارٹ بھی بنانے سے قاصر ہیں۔ بلکہ یہ کہہ لیں کہ ہم آئی ٹی انڈسٹری میں دنیا بھر سے 20سال اور انڈیا سے 15سال پیچھے ہیں۔ پھر ہم غیر ملکی کمپنیوں کو اربوں ڈالر کا فائدہ دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن اپنی کمپنیوں کو ڈی گریڈ کرتے ہیں، تاکہ وہ دیوالیہ ہو کر ختم ہو جائیں۔ آپ آٹو انڈسٹری کو دیکھ لیں، جس کمپنی نے بھی میدان میں آنے کی کوشش کی، وہ بری طرح پٹ گئی۔ اُسے خریدنا ہی ہم توہین سمجھتے ہیں۔ کہ کوئی کیا کہے گا، کہ اس نے پاکستانی گاڑی رکھی ہوئی ہے!لیکن اس کے برعکس اگر ہم اپنی انڈسٹری کو پروموٹ کریں گے، پاکستانی پراڈکٹس کو استعمال کرکے اُس میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کریں گے تو یقینا وہی کمپنی اگلے سیزن میں اس سے بہتر گاڑی مارکیٹ میں لائے گی۔ اور ہو سکتا ہے وہ پہلے سے بہتر اور معیاری گاڑیاں بنانا شروع کردے اور دنیا کی توجہ حاصل کر لے۔ اس کے لیے ہمارے سامنے جرمنی کا مثال ہے۔ جو جاپان کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ گاڑیاں فروخت کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ لہٰذااگر ہم آج پاکستانی پراڈکٹس استعمال کرنا شروع کردیں، یا پاکستانی پراڈکٹس میں کوالٹی و جدت لے آئیںاور ایسی چیزیں بنائیں کہ دنیا کی مجبوری بن جائے کہ وہ ہم سے و ہ پراڈکٹس خریدے بغیر نہ رہ سکیں تو یقین مانیں ہم امریکا کیا، دنیا بھر کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں۔ جیسے ملائشیا پوری دنیا کو سستے داموں اعلیٰ کوالٹی کا کاغذ سپلائی کرتا ہے، ترکی دنیا کو جدید ترین مشینری اور اُس کے پارٹس فراہم کرتا ہے، انڈونیشیا فوڈ پراڈکٹس سے دنیا کو متاثر کرتا ہے۔ لیکن ہم ماسوائے چند ایک قدرتی اشیاءکے کسی چیز میں دنیا کو متاثر نہیں کر سکے۔ معذرت کے ساتھ ہماری ایسی کوئی پراڈکٹ نہیں جو دنیا بھر میں اپنا منفرد مقام بنا سکتی ہے، پہلے کاٹن انڈسٹری تھی، اب اُس میں بھی ہم 20ویں نمبر سے اوپر چلے گئے ہیں۔ لہٰذاہمیں ایسی مربوط قسم کی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے، اُس پالیسی کا پہلا اقدام یہ ہوگا کہ ہم اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوں، پھر طالبان اور امریکا کے بارے میں پالیسی بنائیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم تھوڑے بجٹ میں گزارہ کر لیں گے؟ تاکہ ہمیں ہر سال اربوں ڈالر کے قرضے نہ لینے پڑیں۔ لیکن فی الوقت تو حالات یہ ہےں کہ ہمیں امریکا کے ماتحت اداروں سے پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی نئی شرائط پر قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ اوراس کے لیے ملک کی ہر چیز کو گروی رکھوایا جا رہا ہے، اور پھر آپ یہ دیکھیں کہ دنیا کا وہ ادارہ یعنی آئی ایم ایف جو اصولی طور پر ہر ملک کو قرضہ دینے کا پابند ہے، ہمیں وہ بھی قرضہ فراہم نہیں کر رہا، اور خاص بات یہ کہ ہمیں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے امریکا کی سفارش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پھر آئی ایم ایف کا پروگرام یعنی آئی ایم ایف سے قرضہ نہ لیں تو دنیا اُس ملک کو ”محفوظ ملک“ ہی نہیں سمجھتی۔ تو ایسے میں کیا ہم امریکا کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہو سکتے ہیں؟ خدا گواہ ہے کہ میں اس حوالے قطعاََ مایوسی نہیں پھیلا رہا، بلکہ زمینی حقائق پر بات کر رہا ہوں، کہ یہ باتیں محض خبروں میں اچھی لگتی ہیں۔ لہٰذاخدارا! اگر ہم نے امریکا کے بغیر رہنا ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے ایک ”قوم “بنیں، پھر کسی ملک کے بائیکاٹ کی طرف جائیں۔ لیکن فی الحال تو ہم کبھی امریکا کے رحم و کرم پر ہیں، تو کبھی چین کے، کبھی روس کے اور کبھی سعودی عرب و عرب امارات کے ۔ اور رہی بات فی الوقت پاکستان اور افغانستان کے مسئلے کی تو آنے والے دنوں میں اس خطے میں ہماری سوچ سے زیادہ بدامنی اور عدم استحکام کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان میں بدامنی سے کچھ قوتوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ اگر وزیراعظم عمران خان کو اپنے بیانات پر عمل درآمد کرنا ہے اور افغانستان کی خانہ جنگی کی آگ کو پاکستان کی سرحدوں کے اس طرف روکنا ہے تووہ پاکستان کی تمام سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لیں اور نئی خارجہ خصوصا افغان پالیسی بنائیں،بصورت دیگر پاکستان کے لئے وہ کرنا مشکل ہو گا، جو وزیراعظم عمران خان کہہ رہے ہیں۔ اور ہمیں باعث مجبوری ہر صورت امریکا کے ساتھ تعاون کرنا پڑے گا! #Pakistan #America #US military #Afghanistan #Taliban #American TV channels #Imran Khan #Shah Mehmood Qureshi #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon