سویلین شہداءکے لیے ”خراج الشہدا ء“ فنڈ بھی ”منجمد“ رہ گیا!

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان شہری حقوق دینے کے حوالے سے صرف شام، کانگو اور سوڈان سے بہتر ہے؟ یعنی دنیا میں بہترین شہری سہولیات کے حوالے سے پاکستان نیچے سے چوتھے نمبر پر اور اوپر سے 194ویں نمبر پر آتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان میں روایتی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ شہریوں میں عدم تحفظ بڑھا ہے، اور اب فرقہ وارانہ تصادم انسانی حقوق کےلیے ایک نیا خطرہ بن کر ابھر رہا ہے۔یہ کیسے جانچا جاتا ہے کہ کس ملک کے کتنے فیصد شہریوں کو سہولیات میسر آرہی ہیں؟ اس کے لیے قانونی، سٹریٹیجک، مالیاتی اور بیرونی سرمایہ کاری کو چیک کیا جاتا ہے۔ افسوس کے ساتھ پاکستان ان چاروں ڈومین پر پورا نہیں اُترتا۔ اس کے علاوہ یہاں بچوں سے مشقت، خواتین سے امتیازی سلوک، بلکہ کارکنوں اور مزدوروں کا اپنی ملازمت تک پہنچنے ،کام کے دوران جسمانی عدم تحفظ اور اپنے سویلین مرنے والوں (سویلین شہداء) کے حوالے سے بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جبکہ اسی ملک میں آرمی اور پولیس فورسز سہولیات کے حوالے سے دنیا میں گیارہویں اور 47ویں نمبر پر آتی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ جب ان فورسز کے جوان شہید ہوتے ہیں تو اُنہیں عالمی معیار کی سہولیات سے نوازا جاتا ہے، پہلے پولیس میں سہولیات نہیں تھیں لیکن گزشتہ چند سالوں سے پولیس نے بھی اپنے شہدا کی قدر کرنا شروع کر دی ہے اورشہدا فنڈ قائم کیا ہے جس کے مطابق 70لاکھ سے زائد کی رقم شہید ہونے والے ورثا کو دی جاتی ہے، جبکہ پاک فوج کے شہدا کو اس سے زیادہ کی رقم یا پلاٹ دیا جاتا ہے۔ لیکن جب ایک عام شہری حکومتی غفلت کے باعث شہید ہوتا ہے تو اُسے محض 5، 10لاکھ روپے معاوضہ ادا کرکے اُس کی توہین کر دی جاتی ہے۔ اور اُس کے بعد اُس کے بچوں یا اُس کی بیوہ کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ شہید ہونے والے فرد کے ورثاءکی اکثریت غلط کاموں میں لگ جاتی ہے۔ راقم اس موضوع پر 2010سے قلم خرچ کر رہا ہے، اور کہہ رہا ہے کہ خدارا اُن افراد کا ریکارڈ مرتب کیا جائے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مختلف بم دھماکوں یا دہشت گرد کارروائیوں میں شہید ہو چکے ہیں۔ اُن افرد کے خاندان کی فہرست مرتب کی جائے یا کم از کم اُن افراد کے زیر سایہ پلنے والے افراد کا ڈیٹا ہی اکٹھا کر لیا جائے تاکہ حکومت کو علم ہو کہ وہ کن حالات میں رہ رہے ہیں۔ پھرراقم کی گزشتہ سال وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے اس حوالے سے بات چیت بھی ہوئی جس کے بعد پنجاب حکومت نے ایک بڑافیصلہ کیا، اور اس حوالے سے پہلی بار سٹیپ اُٹھایا کہ اُنہوں نے سویلین شہداءکے لیے بجٹ میں 15کروڑ روپے کا فنڈ رکھ دیا، بظاہر تو یہ فنڈ بہت کم تھا، مگر خوشی اس بات کی ہوئی کہ عرصہ دراز کے بعد ان شہدا ءکی سنوائی ہوگئی۔ لیکن نہلے پر دہلا یہ کہ آج اس بات کو پورا ایک سال ہوگیا، مگر پنجاب حکومت شہداءکے لیے مختص رقم شہداءکے ورثا کو دینا بھول گئی،یا اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل ہی نہیں بنایا۔ ظاہر ہے کہ ہم ویسے بھی انسانی حقوق میں دنیا کے آخری ملکوں میں آتے ہیں اس لیے ہماری شاید اوقات ہی نہیں کہ اس قسم کے ”فضول“ پروگراموں کا انعقاد کیا جائے۔ لیکن اس کے برعکس ہر قوم اور ملک اپنے شہداءکے ورثاءکو سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے اوروطن کی آبرو کےلئے جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کےلئے زمین کے تحفے بہت حقیر ہوتے ہیں۔جیسے یورپ کے قوانین میں یہ بات شامل ہے کہ اگر کوئی حکومتی غفلت سے مارا گیا تو اسے عام سیکیورٹی فورسز سے دوگنا معاوضہ بھی ملتا ہے اوراس کے خاندان کے لیے ماہانہ و سالانہ فنڈ کا انعقاد بھی کردیا جاتا ہے۔ جیسے کینیڈا میں حال ہی میں ایک گھر میں پانچ پاکستانی شہری جل کر مارے گئے، ان مرنے والوں کے لیے ایک تو حکومت نے فنڈ دیا دوسری جانب ویب پورٹل پر بھی کینیڈین شہریوں کی جانب سے فنڈ اکٹھا کیا گیا جس کی مالیت دو لاکھ امریکی ڈالر بنتی ہے۔ لیکن افسوس سے یہ بات کہنا پڑ رہی ہے کہ2001ءسے لے کر 2021تک دہشت گردی کی عالمی جنگ ،آپریشن ضرب ،عضب آپریشن راہ حق،آپریشن راہ راست اور آپریشن راہ نجات میں جہاں ہزاروں کی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے شہادت نوش فرمائی وہیں دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران اس مٹی کو اپنے خون سے سینچنے والوں میں اور بھی نام شامل ہیں۔ بم دھماکوں میں مرنے والے سویلین تو کسی قطار شمار میں نہیں ۔ حتیٰ کہ اس سے پہلے پولیس بھی اپنے شہدا کے لیے کچھ نہیں کرتی تھی، جیسے جنوری 2004ءسے دسمبر 2016ءتک کے عرصہ میں صرف خیبر پختونخوا میں 16000کے لگ بھگ پولیس ،خاصہ دار اور لیویز فورس کے اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ان میں صرف پولیس کے 1100 آفیسرز اور اہلکار شامل ہیں۔عابد علی ،ملک سعد اور صفوت غیور جیسے بہادر و جری آفیسرز نے جام شہادت نوش کیا۔ان پولیس اہلکاروں کی جان اس قدر ارزاں تھی کہ انہیں محض پانچ لاکھ دیکر جان چھڑا لی جاتی۔وہ تو بھلا ہو اے این پی کا جس نے شہید پولیس اہلکار کے ورثاء کو دیا جانے والا معاوضہ بڑھا کر 30 لاکھ کر دیا۔ کراچی میں بلا ناغہ پولیس والے مارے جاتے ہیں۔ 2013ءمیں 171 جبکہ 2014ء میں 143 پولیس اہلکار مارے گئے اور اگلے سالوں میں بھی اسی تناسب سے شہید ہو جاتے ہین مگر ان کے خاندانوں کو معاوضے کی رقم ادا نہیں کی جاتی تھی، ایسے لگتا تھا جیسے ان وردی والوں کے لہو کا رنگ سرخ نہیں ہوتا یا پھر ان کے ورثاءدوسرے درجے کے شہری ہیں ؟لیکن بعد میں ان شہداءکے ورثاءکو گھر مہیا کیا گیا،زرعی زمین بھی دینے کی اطلاعات آئیں اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کی بھی خبریں موصول ہوتی رہیں۔ لیکن ! کہاں ہیں عام سویلین شہداءکے لیے مراعات ؟ ان سویلین کی تعداد 20سالوں میں ایک لاکھ سے زائد ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسجدوں، امام بارگاہوں، پارکوں اور دیگر مقامات پر شہید ہونے والے ان عام شہریوں کے شہید ہونے کے بعد ان کے پسماندگان کو نہ تو سرکاری زمین ملتی ہے، نہ ان کے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے، نہ کسی سرکاری تقریب میں مدعو کیے جاتے ہیں، نہ ماہانہ وظیفہ مقرر ہوتا ہے، نہ کوئی فنڈ ملتا ہے اور نہ ہی شہید ہونے والے کے بچوں کو سرکاری نوکری ملتی ہے۔محض اعلان کردہ پانچ دس لاکھ روپے کی رقم فراہم کر دی جاتی ہے، جو شاید اُس شہید کے لواحقین آﺅبھگت، اور کفن دفن کے انتظام ہی میں خرچ کر دیتے ہیںبلکہ حد تو یہ ہے کہ بقول شاعر کوئی حکمران تسلی کے لیے بھی نہیں پہنچتا۔بقول شاعر حرف تسلی تو اک تکلف ہے جس کا درد، اسی کا درد، باقی سب تماشائی !! خیر ابھی بجٹ پیش ہوا ہے، پنجاب کی بجٹ دستاویزات کے مطابق ابھی تک خراج الشہداءفنڈ کا ذکر نہیں مل رہا۔ یہ بھی نہیں علم کہ پرانے بجٹ کو واپس کر دیا جائے گا یا اس حوالے سے کوئی وزارت یا ڈیپارٹمنٹ بنانے پر کام کیا جارہا ہے۔لیکن فی الوقت تو ہم اس وقت ایسی نہج پر کھڑے ہیں کہ سرکار جوہر ٹاﺅن کے حالیہ دھماکے میں ہلاک ہونے والے چار افراد کے لیے معاوضے کا اعلان تک نہیں کر سکی۔ لہٰذاحکومت سے گزارش ہے کہ اس حوالے سے فوری طور پر خدشات دور کیے جائیں تاکہ ایک تو دنیا بھر میں ہمارا مثبت امیج قائم رہے اور دوسرا ہمارا بھرم بن جائے اور تیسرا شہید ہونے والے ورثا عدم تحفظ کا شکار نہ ہوں ۔ اس سے یہ بھی ہو گا کہ سویلین شہدا سے خراج الشہدا ءتک کا جو سفر موجودہ حکومت نے شروع کیا تھا، وہ بھی چلتا رہے گااور جس طرح حکومت صحت کارڈ، احساس کارڈ، بے نظیر کارڈ وغیرہ شروع کر رہی ہے، اسی طرح حکومت ”شہید ورثا کارڈ“ کیوں نہیں جاری کر دیتی تاکہ معاشرے میں ہر کوئی اُس خاندان کو عزت کی نگاہ سے دیکھے۔ اورپھر یہی نہیں کہ ان کے مسائل جو نظر آتے ہیں وہی ہوں، عثمان بزدار صاحب آپ اُن شہداءکے خاندانوں سے ملیں، اُن کی بیواﺅں سے ملیں وہ ایسی ایسی داستانیں آپ کو سنائیں گی کہ آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیںگے۔ آپ اس حوالے سے ذراتصورکر کے دیکھ لیں کہ ایک لاکھ سے زیادہ خاندانوں کے افراد اُن بم دھماکوں ، خودکش حملوں، فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوگئے جو ریاست کی غفلت، ناقص سکیورٹی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ”اہم اتحادی“ہونے اورغلط حکومتی فیصلوں کی بھینٹ چڑھ گئے، اب یہ خاندان کس حال میں زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔ اُن کے گھر کی خواتین مہنگائی کے اس دور میں کس طرح گزر بسر کر رہی ہوں گی،اور اب تو ویسے بھی کورونا نے جینے کو تصور بھی چھین لیا ہے تو یہ ضرور دیکھیں کہ اُن کے بچے کہاں اور کس حال میں ہوں گے؟ اُن کے بچوں کے سکول کی فیسیں کون دیتا ہوگا؟ ماﺅں کا علاج کون کرواتا ہوگا؟ باپ کی آنکھیں کون پونچھتا ہوگا؟ اُن کے چہروں پر مسکراہٹیں کون لاتا ہوگا؟ ذرا ایک منٹ کے لیے یہ بھی تصور کر لیجیے کہ اگر وہ کرائے کے مکان میں رہتے ہوں گے تو اب اُن کا پرسان حال کون ہوگا؟یہ تصور بھی کرنا چاہیے کہ کہیں اُن کے بچے جرائم پیشہ تو نہیں بن گئے؟ یہ تصور بھی کر لینا چاہیے کہ مذکورہ خاندان کے افراد فاقہ کشی کا شکار تو نہیں؟ اس ظالم سماج میںیہ تصور کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ کہیں اُن کی بیویاں مجبور ہو کر غلط راستے پر تو نہیں نکل پڑیں؟ ہمیں شاید یہ بھی تصور کر لینا چاہیے کہ حکومت کی غفلتوں کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے عام شہری کی بیوی نے بچوں سمیت نہر میں چھلانگ تو نہیں لگا لی؟اب تصوراتی دنیا سے باہر آکر دیکھیں تو یہ حقیقت ضرور عیاں ہوگی کہ یہ وہ شہداءاور اُن کے خاندان ہےں جنہیں سرکاری سطح پر نہ توکہیں یاد کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے خاندان کے پاس کوئی سرکار کا نمائندہ جاتا ہے۔اس لیے فوری طور پر یہ رقم کم از کم دوگنی کرکے بجٹ میں دوبارہ Alocateکی جائے اور اس ایشو پر دوبارہ سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ہم بھی مذکورہ خاندانوں کے لیے ”مجرم“ نہ بن جائیں! #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan #leade.com.pk #civilian shuhda #Pakistan #Syria #violations in Pakistan