عید قربان: حکومت خود سنجیدہ نہیں!

”بڑی عید“ کی آمد آمد ہے اور لوگ سنت ابراہیمی ؑ کو زندہ رکھنے کے لیے جانور خرید رہے ہیں، جس کے لیے ہر سال کی طرح ملک بھر میں مویشی منڈیاں لگ چکی ہیں۔ پاکستان دنیا بھر میں قربانی کرنے والے ممالک میں سعودی عرب کے بعد دوسرے نمبر پر آتاہے یعنی ہر سال یہاں 80لاکھ سے زائد جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے، اور ہر سال ہی یہ بڑا اسلامی تہوار غیر موثر انتظامات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ غیر موثرانتظامات اس لیے کہ نہ تو حکومت اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل بنا سکی ہے کہ قربانی کس کس جگہ پر کی جا سکتی ہے، اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی حکمت عملی وضع کی جا سکی ہے کہ عوام کو جانور خریدنے میں حکومت کیسے مدد کر سکتی ہے، پھر ہر عید الاضحی پر ہوتا یہ ہے کہ ہمارے گلی محلے ”قربان گاہوں“ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اور قربان کیے گئے جانوروں کی آلائشیں ادھر اُدھر پھینک دی جاتی ہیں، جو بیماریاں پھیلانے کا سبب بنتی ہیں۔ بلکہ اس سال تو گزشتہ سال کی طرح مویشی منڈیاں بھی کورونا پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں، کیوں کہ ایک طرف تو حکومت کورونا کی چوتھی لہر کے شدید ہونے کے بارے میں خبردار کر رہی ہے، جبکہ دوسری طرف ہم غلطیوں پر غلطیاں کیے جا رہے ہیں جیسے پہلی غلطی تو یہ ہو رہی ہے کہ حکومت نے خود ہی ریلیف دے دیا ہے کہ کورونا کا زور ٹوٹ گیا ہے، تبھی لوگوں نے ماسک پہننا چھوڑ دیے ہیں، یعنی اب صورتحال یہ ہے کہ آپ مارکیٹوں میں چلے جائیں، صرف 5فیصد لوگ ماسک پہنے نظر آئیں گے۔ باقی 95فیصد لوگوں نے اپنے ذہن سے کورونا کے خطرات کو ہی نکال دیا ہے، اور پھر یہی نہیں آپ کسی بھی ائیرپورٹ پر چلے جائیں، مسافروں کی مناسب چیکنگ کے فقدان جیسے مسائل کی وجہ سے دنیا بھر سے مختلف قسم کے کورونا کی اقسام پاکستان میں قدم جما رہی ہیں۔جیسے راولپنڈی میں بھارتی ڈیلٹا قسم کی موجودگی انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر غیر موثر انتظامات کو ظاہر کرتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل کورونا کی اس قسم نے بھارت میںجو قیامت ڈھائی تھی اس سے کون بے خبر ہے لیکن افسوس کہ ہم نے خاطر خواہ حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کیںاور یہ وائرس پنڈی پہنچ گیا اور ماہرین کے مطابق کورونا کی چوتھی اور خطرناک ترین لہر کا سبب بن سکتا ہے۔ ملک کی نصف آبادی پر مشتمل صوبے یعنی پنجاب کے اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ آبادی کے اعتبار سے ملک کے دوسرے بڑے صوبے سندھ میں بھی وباکی صورت حال مسلسل ابتر ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ان حالات میںلازم ہے کہ حکومت فوری طور پر ہوائی اڈوں کی سیکورٹی سخت ترین کرنے کے علاوہ تمام تر حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائے اور ویکسین لگانے کا عمل ملک بھر میں تیز کیا جائے۔ اور ہر وہ اقدامات اُٹھائے جائیں جنہیں اختیار کر کے ہم کورونا کی چوتھی لہر سے بچ سکتے ہیں، جیسے حکومت جانوروں کی خریداری کا نظام اپنے ہاتھ میں لے، موجودہ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے گزشتہ سال ایک موبائل ایپ ”بکرا منڈی“ کے نام سے بھی متعارف کروائی تھی، اس ایپ میں مویشیوں کی تصاویر، عمر ، وزن ، نسل اور قیمت سمیت دیگر قیمتی تفصیلات درج تھیں، جس کو مدنظر رکھتے ہوئے صارف اپنی حیثیت کے مطابق مویشی کا انتخاب کرتا تھا۔یہ ایپ بھی حکومتی غفلت کا شکار ہو گئی اور بڑے پیمانے پر انتظامات نہ ہونے کے سبب یہ ایپ ہی بند ہوگئی۔ حالانکہ اس ایپ کے ذریعے حکومت سالانہ اربوں روپے اکٹھے کر سکتی تھی، لیکن جہاں حکومت کو کچھ بچ رہا ہو، عوام کو سہولت ملنی ہو، ہماری فطرت ہے کہ ہم اُس کام میں ہمیشہ تاخیر کر دیتے ہیں۔ اور اب جبکہ اس وقت لاہور میں پورے پنجاب سے مویشی آئے ہیں، آپ نے خود مویشی منڈی لگوائی ہے، لیکن ایس او پیز نام کی کوئی چیز نہیں ہے، ہر منڈی میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے، حکومت لاکھ ایس اوپیز بنا لے، مویشی منڈیوں میں سب احتیاطی تدابیر ہوا میں اڑ جائیں گی۔ خاک اڑے گی، اور اس خاک خون میں اڑتا ہوا کرونا وائرس گھر گھر پہنچے گا۔یہاں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حکومت خود اپنے کسی کام میں سنجیدہ نہیں ہے؟ ان کو چاہیے تو یہ تھا حکومت سعودی ، ترکی، ملائشین حکومت کی طرز پر اقدامات کرتی،جیسے حج کے موقع پر ہم انفرادی قربانی نہیں کرتے، ایک وقت تھا جب حاجی خود جانور خرید کر اسے خود ذبح بھی کرتے تھے، لیکن اب اس کا اہتمام اداروں نے سنبھال لیا ہے، آپ بینک میں قربانی کے پیسے جمع کرواتے ہیں اور آپ کے موبائل پر ایس ایم ایس موصول ہو جاتا ہے کہ آپ کی قربانی ادا ہو گئی اور آپ احرام کھول لیتے ہیں، قربانی سے پہلے اگر احرام کھول دیا جائے تو دم واجب ہو جاتا ہے، اتنے حساس معاملے پر بھی ہم قربانی دینے والے اداروں پر اعتماد کرتے ہوئے اس اہم دینی فریضے کی ادائیگی سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ آخر امسال عید قربان پر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ہے کہ ہم سب لوگ اداروں کے ذریعے یا حکومتی نگرانی میں اپنی قربانی کا اہتمام کریں، اس طرح وبا سے بھی محفوظ رہیں گے اور ہمارے گلی محلوں میں موسمی قصائیوں اور جانوروں کی آنتوں کی ہڑبونگ بھی نہیں مچے گی۔ ترکی اور ملائشیا میں ہماری طرح گھر گھر قربانی کا جانور ذبح نہیں ہوتا۔ ترکی میں ہر محلے کی مسجد ہے، اور ہم نے دیکھا کہ سب مساجد ڈیزائین نیلی مسجد کا ایک منی ایچر ہیں، مسجد کے باہر کنالوں پر مشتمل لان ہوتا ہے، اہل محلہ اپنے جانور یہیں لاتے ہیں اور مشینوں کے ذریعے گوشت بنا کر انہیں دے دیا جاتا ہے۔بحریہ ٹاﺅن والوں کا انتظام بھی اس معاملے میں خوب ہے کہ گھر میں جانور ذبح کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ انتظامیہ کی طرف سے ایک جگہ مخصوص ہے جہاں پیشہ وار قصائی معاوضے پر یہ خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ اس میں کچھ عار نہیں۔ جب آبادی پھیل جاتی ہے اور شہرگنجان ہو جاتے ہیں تو اسلامی تہواروں میں نئی روایات جنم لیتی ہیں۔ از روئے قرآن، اللہ تک ہمارے دلوں کا تقوٰی پہنچتا ہے، قربانی کے جانوروں کا خون اور گوشت نہیں۔ لیکن ہم کم علمی کی وجہ سے تقویٰ سے کوسوں دور ہوگئے ہیں، ہم تو اپنی مسجدوں میں بھی کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں کروا سکے۔ لیکن سعودی حکومت کی رٹ دیکھیں کہ اُنہوں نے حج کو بھی وقتی طور پر بند کردیا۔ کیا وہ مسلمان نہیں ہیں؟ یا ہم زیادہ اچھے مسلمان ہیں، جو جھوٹ بولنے میں دنیا کی اول ترین قوم ہیں، یا ملاوٹ کرنے میں چوتھے نمبر پر آتے ہیں، الغرض پاکستانی قوم کو ہر وقت شغل چاہیے، یہ کسی بھی طرح سنجیدہ نہیں ہوتے؟ آج کورونا سے ہم لڑ رہے ہیں تو کسی پاکستانی کو آپ سنجیدہ نہیں پائیں گے، کسی پاکستانی کو حفاظتی تدابیر اختیار کرتے نہیں پائیں گے، حتیٰ کے پاکستان انڈیا کی جنگ کے دنوں میں بھی ہمارے رویے کوئی خاص سنجیدہ نہیں تھے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جو تہوار ہر سال آتا ہو، اُس کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں، حکومت ہر چیز کو اپنے ہاتھ میں لے، خود قربانی کی جگہوں کا تعین کرے، اگر یہ بھی ممکن نہیں تو خدارا آپ آن لائن قربانی کو ترجیح دیں۔ اس وقت بھی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ عید الاضحی کے بعد پاکستان میں کورونا عروج پر ہوگا۔ اور کم از 5لاکھ نئے کیسز سامنے آسکتے ہیں۔ اس لیے احتیاط کا دامن ہاتھ میں رکھیں اور آن لائن قربانی ہی کو ترجیح دیں۔ اس سے آپ کئی مسائل سے بچ سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو منڈی بہت خطرناک جگہ ہے کیوںکہ وہاں آپ کو وائرس لگ سکتا ہے، اس رجحان کو دیکھتے ہوئے ایدھی فاو¿نڈیشن، الخدمت فاو¿نڈیشن، شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور سہارا ٹرسٹ فار لائف جیسے درجنوں رفاہی اداروں، ہسپتالوں اور دیگر انجمنوں اور تنظیموں کے ساتھ ساتھ کئی ڈپارٹمنٹل سٹور اور گوشت کا کاروبار کرنے والی کمپنیاں بھی سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے تشہیر کر رہی ہیں کہ آن لائن قربانی کرنے کے خواہش مند لوگ ان کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کمپنیوں اور اداروں نے اپنی ویب سائٹس پر قربانی کے حوالے سے مکمل تفصیلات دے رکھی ہیں جیسا کہ بکرے، گائے اور اونٹ کی قربانی کے لیے کتنے کتنے پیسے ادا کرنا ہوں گے، صارفین کو گوشت ملے گا یا نہیں اور اگر ملے گا تو کیسے، کتنا اور کس وقت۔زیادہ تر کمپنیاں وعدہ کر رہی ہیں کہ وہ قربانی کا گوشت صارفین کے گھر پر پہنچائیں گی جبکہ اکثر رفاہی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ خود ہی گوشت مستحقین میں تقسیم کریں گے۔ یہ طریقہ کار احسن انداز میں ملائشیا، ترکی، سعودی عرب اور ایران میں لاگو ہے ۔ سعودی عرب میں تو آن لائن قربانی کی شروعات 2009ءمیں شروع ہوئی تھی ، سعودیہ میں ہمارے علماءسے زیادہ جید علماءہیں جو ہر سال آن لائن جانور ہی قربان کرتے ہیںجس پر کسی کو آج تک کوئی اعتراض بھی نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا، ملائشیا ، انڈیا، بنگلہ دیش اور دیگر مسلمان ملکوں میں 60سے 70فیصد لوگ آن لائن قربانی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جبکہ غیر مسلم ممالک یورپ، امریکا، کینیڈا وغیرہ میں تو ویسے بھی کھلے عام قربانی کرنا قانونی طور پر ممنوع ہے۔ وہاں سلاٹر ہاﺅس کے علاوہ آپ کو کہیں قربانی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لہٰذاحکومت اور عوام ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھائیں اور ایک دوسرے کے لیے سہولت کار بنیں تاکہ ہم یہ مذہبی فریضہ کسی مسئلے کے پیدا ہوئے بغیر ادا کر سکیں! #leader news #Talkhiyan #Ali Ahmed Dhillon #Online Qurbani