صحافت پر منڈلاتے خوف کے سائے

صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جو شخص پوری دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض کی تکمیل کیلئے موت کی پرواہ کئے بغیر اپنی تحریروں سے حکمرانوں اور ظالم و جابر شخصیات اور اداروں کے خلاف لکھتا ہے تو اسے ایک نہ ایک دن ظلم و بربریت کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا ہی پڑتا ہے۔ شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ہوگا جہاں آزادی¿ صحافت کے نام پر کسی ڈرو خوف کے بغیر لکھنے کی پوری آزادی ہو۔ گذشتہ سال 2020میں عالمی سطح پر کورونا وبا کے باوجود دنیا بھر میں صحافیوں اور شعبہ صحافت سے وابستہ عملے کے کم و بیش 66افراد کو قتل کیا گیا جبکہ سال 2019میں یہ تعداد 49بتائی جاتی ہے اس طرح 2020میں صحافیوں کے قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔گذشتہ دنوں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا نام پھر ایک مرتبہ عالمی سطح پر سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے منظرعام پر آیا ہے جس میں امریکی انٹیلی جنس کی جانب سے تحقیقاتی رپورٹ سامنے لائی گئی اور اسے جوبائیڈن انتظامیہ نے امریکی کانگریس کے سامنے پیش کیا جس کے بعد امریکی کانگریس نے اس رپورٹ کو جاری کرنے کی منظوری دے دی۔ امریکی صدر جوبائیڈن اور سعودی حکمراں شاہسلمان بن عبدالعزیزکے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق 2017سے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان مملکت سعودی عرب کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس آرگنائزیشنز پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کی مرضی کے بغیر کوئی سعودی آفیشل اس قسم (جمال خاشقجی دردناک موت )کاآپریشن انجام نہیں دے سکتے۔واضح رہے کہ جمال خاشقجی کو اکٹوبر2018میں ترکی کے شہر استنبول میں سعودی عرب کے سفارت خانے میں اس وقت قتل کیا گیا جب وہ اپنے پاسپورٹ کی تجدید اور دیگر کاغذات کیلئے آئے تھے۔ منظر عام پر آئی رپورٹ کے مطابق انہیں قتل کرنے کے لئے سعودی عرب سے ایک خصوصی ٹیم خصوصی طیارے کے ذریعہ استنبول پہنچی تھی جس نے جمال خاشقجی کو قتل کرنے کے بعد ان کی نعش کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے تھے۔ اس صحافی کی نعش کی باقیات کا تاحال پتہ نہیں چلایا جاسکا۔جمال خاشقجی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ویژن 2030کے حوالے سے ترقیاتی منصوبوں کے ناقد رہے تھے کیونکہ ان ترقیاتی منصوبوں کے تحت مملکت میں مغربی و یوروپی تہذیب کو اجاگر کیا جارہا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے استنبول میں آپریشن کی منظوری دی جس کا مقصد جمال خاشقجی کو گرفتار یا قتل کرنا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”ہم یہ دعویٰ ولی عہد کے مملکت میں فیصلہ سازی پر کنٹرول کو مد نظر رکھتے ہوئے کررہے ، ان کے اہم مشیر اور قریبی لوگوں کا اس آپریشن میں شامل ہونا بھی اس بات کو تقویت دیتا ہے، اس کے علاوہ محمد بن سلمان اپنے خلاف بیرون ملک اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرانے پر یقین رکھتے ہیں“۔امریکہ کی جانب سے رپورٹ میں شہزادہ محمد بن سلمان کا نام آنے کے بعد اس رپورٹ کو سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے مسترد کردیا۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹر ودبارڈرز نے جرمنی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے خلاف سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگرپانچ عہدیداروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور گرفتاری کیلئے درخواست عدالت عالیہ میں جمع کرائی ہے ، بتایا جاتاہے کہ پانچ سو صفحات پر مشتمل درخواست میں سعودی عرب میں جاری صحافیوں پر مظالم، گرفتاریوں اور بے جاحراستی مراکز میں قید 34صحافیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔رپورٹرز وِد آو¿ٹ بارڈرز کے جرمن دفتر کے ڈائریکٹر کرسٹیان مہر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جرمنی میں محمد بن سلمان کے جرائم سے متعلق تحقیقات کی جانی چاہیے۔ بتایا گیا ہے کہ ”ہم نے جرمن ادارے برائے انصاف سے درخواست کی ہے کہ وہ اس صورتحال کی تفتیش کرے اور محمد بن سلمان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جائیں“۔ ذرائع ابلاغ کے حوالے سے ا س درخواست میں جرمنی کے تعزیراتی قانون کا حوالہ دیا گیا ہے ، جس کے تحت صحافیوں پر حملوں کو انسانیت کے خلاف جرائم سے تعبیر کیا گیا ہے، اس درخواست کو وصول کرنے کے بعد جرمن حکام مقدمہ کے اندراج اور دیگر قانونی کارروائی کے لئے فیصلہ کریں گے تاہم امید کی جارہی ہے کہ صحافیوں کے ساتھ روا رکھے گئے روئیے اور انسانیت سوز مظالم کے خلاف ٹھوس ثبوت کے باعث سعودی ولیعہد اور دیگر پانچ عہدیداروں کے خلاف مقدمہ درج ہوگا۔ امریکی صدر جوبائیڈن اور انکی انتظامیہ کسی صورت اپنے ملک کی معیشت کو تباہ ہونے نہیں دیں گے کیونکہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی جانب سے امریکہ کو سالانہ کروڑہا ڈالر کا فائدہ پہنچتا ہے۔اس لئے امریکہ نہیں چاہے گا کہ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہو۔ اتنا ضرور ہیکہ امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک سعودی عرب پر دباو¿ بنائے رکھنے اور اس سے اپنی معیشت کو استحکام پہنچانے کے لئے بھرپور کوششیں کریں گے۔جمال خاشقجی کیس کے حوالے سے امریکہ نے کئی سعودی شہریوں پر بابندیاں عائد کردی ہیں لیکن سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا نام اس فہرست میں شامل ہے یا نہیں اس سلسلہ میں کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی اور نہ دیگر عہدیداروں کے ناموں کی رپورٹ منظرعام پر لائی گئی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان کے تین ارکان ٹام مالیونوسکی، جیمز میک گورن اور اینڈی کم نے جمال خاشقجی قتل کیس کے مسودے میں امریکی خفیہ سروس کی جاری کردہ رپورٹ میں جمال خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان کے بھی ملوث ہونے کا ذکر آنے کے بعد ان تینوں اراکین نے امریکی ایوان نمائندگان کی جنرل کمیٹی کو سعودی عرب میں ”حقوق انسانی کی خلاف ورزی قانون“ عنوان کے ساتھ ایک مسودہ قانون ایوانِ نمائندگان میں پیش کیا ہے۔ اس مسودے میں خفیہ ایجنسی کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جمال خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان کے بھی ملوث ہونے کا ذکر کرنے کے جواز میں انہیں بھی پابندیوں کی فہرست میں شامل کرنے کی ضرورت زور دیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان اورعالمی سطح پر اٹھنے والی آواز کو کس طرح دبایا جائے گا اور اگرجرمنی میں مقدمہ درج کیا جاتا ہے تو سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک اس کے خلاف کس قسم کی کارروائی کرتے ہیں۔ صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت کے ذمہ داروں کے خلاف امریکی رپورٹ کے منظرعام پر لائے جانے کے بعد عالمی سطح پر آوازیں اٹھنے لگی ہیں تو دوسری جانب افغانستان کے صوبہ ننگہار کے دارالحکومت جلال آباد میں ریڈیو اور ٹی وی اسٹوڈیو میں کام کرنے والی تین خواتین کو گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹی وی ڈائرکٹر زالمے لطیفی نے بتایا کہ دفتر سے نکلنے کے بعد ان تینوں خواتین کو دو مختلف حملوں میں قتل کردیا گیا ہے۔ انہو ں نے کہا کہ وہ سب ہلاک ہوگئیں ، وہ دفتر سے اپنے گھر پیدل جارہی تھیں تبھی ان پر فائرنگ کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ تینوں خواتین انعکاس ٹی وی کے ڈبنگ کے شعبے سے وابستہ تھیں۔ ان تینوں خواتین کے نام مرسل وحیدی ، شہناز اور سعدیہ بتائے گئے۔ بتایاجاتا ہے کہ خواتین پر یہ حملہ ایک ایسے وقت کیا گیا جبکہ افغانستان میں صحافیوں، سول سوسائٹی کے ورکروں ، حکومتی ملازمین وغیرہ میں خوف و ہراس پیداکرنے کے مقصد کے تحت قاتلانہ حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حملہ کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی ہے۔ حملہ کے بعد پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لیا ہے جبکہ حکام دوسرے مشتبہ افراد کی تلاش میں ہیں۔ صحافی کے قتل کا ایک اور واقعہ بنگلہ دیش میں پیش آیا۔ بتایاجاتاہے کہ احمد مشتاق نامی شخص کو ایک آرٹیکل لکھنے اور فیس بک پر حسینہ واجد کے خلاف تنقیدی پوسٹس کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ احمد مشتاق کو 2018ءمیں نافذ ہونے والے ڈیجیٹل سکیورٹی قانون کے تحت گذشتہ سال گرفتار کیا گیا تھا ، جہاں جمعرات کو ان کا حراست میں ہی انتقال ہوگیا۔احمد مشتاق کی حراست میں موت واقع ہونے پر بنگلہ دیسی حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ ملک بھر میں قریب ایک ہفتہ سے سینکڑوں سماجی کارکنوں کی جانب سے احتجاج جاری ہے ، ذرائع ابلاغ کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ نے بنگلہ دیشی حکومت سے مخالفین کے خلاف استعمال ہونے والے ڈیجیٹل سکیوریٹی قانون پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔