پی ڈی ایم یلغار میں انتشار !

پی ڈی ایم لانگ مارچ سے قبل ایوان سے استعفوں کے معاملے پر اختلاف رائے کے بعد سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر بھی تقسیم نظر آنے لگی ہے، ایک طرف پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر کے لیے اپنے امیدوار کی حمایت کے لیے سرگرم ہیں تو دوسری جانب مریم نواز کو نیب نے بلا لیا ہے ،جبکہ براڈ شیٹ کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ میں سابق صدر آصف زرداری کے سوئس مقدمات کا ریکارڈ بھی سامنے آگیا ہے،کمیشن نے نیب کو سوئس مقدمات کا سربمہر ریکارڈ کھولنے کی سفارش کردی ہے۔مولانا فضل الرحمان کاکہنا ہے کہ مریم نوازکی نیب میں پیشی کے موقع پرپی ڈی ایم کے ہزاروں کارکنان اظہار یکجہتی کے لئے موجود ہوں گے،جبکہ آصف علی زرداری مقتدر قوتوں سے مزحمت سے گریزاں نظر آتے ہیں،انہوں نے جو چھکا مارا ہے، اس کے بعد پی ڈی ایم کا برقرار رہنا آسان نہیں رہا، بلاول کے طنزیہ بیان کے بعد صاف محسوس ہورہا ہے کہ زرداری نے اپوزیشن اتحاد سے اپنا راستہ الگ کرلیا ہے اور اب بالواسطہ طور پر مقتدرہ کے ساتھ رسم وراہ بڑھانے میں مصروف ہیں۔ پی ڈی ایم کا غیر فطری اتحاد کا شیرازہ بکھرنے لگا ہے ،اس کے اندرونی اختلافاتواضح طور پر سامنے آنے لگے ہیں ،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) کے رہنما ﺅں کے درمیان طنزیہ بیان بازی شروع ہو گئی ہے ،مولانا کو بھی احساس ہونے لگاہے کہ حکومت گرانا اتنا آسان نہیں کہ جتنا سمجھا جارہا تھا ،اس وقت ملک میں ایک ایسی حکومت ہے کہ جسے فوج او ر اداروں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے، اِس لئے اپوزیشن اتحاد کے لئے لازم ہے کہ جوش کے ساتھ حکمت اور سیاسی دانش کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑاجائے،کیو نکہ دیوار پر خالی ٹکریں مارنے سے دیوا ر نہیں ٹوٹے گی،البتہ اپنا سر ضرور پھوٹے گا،پی ڈی ایم سمجھتی ہے کہ لانگ مارچ کے ذریعے حکومت کو رخصت کردے گی،تاہم لانگ مارچ کی کامیابی کے لئے عوام کی بڑے پیمانے پر موبیلائزیشن چاہئے، جو کہ عوامی ایجنڈا دینے سے ہی ممکن ہے،اس لئے سب سے پہلے پی ڈی ایم کو قر بانی سے پہلے قربانی کے دعوئے کرنے کی بجائے عوامی ایجنڈا دینا پڑے گا، اس وقت عوام مہنگائی اور بیروزگاری کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں، عوام کو حکومت اور نظام کی تبدیلی سے کوئی غرض نہیں،انہیںیقین دہانی چاہئے کہ دو وقت کی روٹی کیسے میسر ہو گی ، اس کے لئے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے لانگ مارچ کی بجائے عوام کے لئے معیشت بہتر بنانے کا پروگرام آنا چاہئے ،اگر پی ڈی ایم معاشی پروگرام نہیں دیتی تو عوام کو سیاسی طور پر اپنے ساتھ انگیج نہیں کر سکے گی۔ پی ڈی ایم کا سارا زور عوامی مسائل کی بجائے استعفوں اور لانگ مارچ پر ہے ،اگر لانگ مارچ میں عوام کی شمولیت نہ ہوئی تو استعفوں کا آپشن بھی کار آمد نہیں رہے گا۔ حکومت چاہتی بھی یہی ہے کہ عوام لانگ مارچ کی کال پر لا تعلق رہیں، اگر اسی لا تعلقی کے ماحول میں استعفے دئیے گئے تو سیاسی طور پر مقتدرہ کو فائدہ پہنچے گا اور اس کی کوشش ہوگی کہ ضمنی انتخابات کروا کر حکومت کو دو تہائی اکثریت دلوادی جائے، تاکہ نہ صرف اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ ہو جائے، بلکہ ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کی راہ بھی ہموار ہو جائے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن ) دونوں وکٹ کے دونوں جانب کھیلتے ہوئے اپنے مفادات کے حصول کیلئے کوشاں ہیں،دونو ں پارٹیاںایک دوسرے کو دھوکہ دینے کیلئے مختلف شوشے چھوڑتی رہتی ہیں، وفاق اورپنجاب میں تبدیلی کا شوشہ بھی اسی کا حصہ رہا ہے ، پی ڈی ایم اب لانگ مارچ کے ذریعے قربانی سے پہلے قربانی کے دعوئے کررہی ہے ،تاہم پی ڈی ایم میں بڑھتے اختلاف رائے کے باعث تمام دعوئے دھرے کہ دھرے رہ جائیں گے،اپوزیشن لاکھ کہتی رہے کہ عوام اُن کے ساتھ ہیں،عوام کسی کے ساتھ نہیں،اپوزیشن کو نہ صرف معاشی پروگرام دینا پڑے گا، بلکہ عوام کوثبوت کے ساتھ بتانا بھی پڑے گا کہ ا ن سے دو وقت کی روٹی کون چھین رہا ہے، تبھی عوام متحرک ہوں گے۔ پی ڈی ایم قیادت کی ترجیح عوام کی بجائے ذاتی مفادات کاحصول رہا ہے ،اسی لیے مریم نواز حساب دینے کی بجائے حساب لینے کی دھمکیاں د ینے لگی ہیں، مریم نوازواقعی حساب لینا چاہتی ہیں تو اس کا آغاز اپنے والد میاں نواز شریف، چچا میاں شہباز شریف اور اپنے اردگرد کھڑے سابق وفاقی وزراءسے کریں ، جنہوں نے قومی خزانے کو بڑی بیدردی سے لوٹا ہے ،مریم نواز پہلے اپنا حساب دینے کیلئے نیب جائیں اور مولانا فضل الرحمٰن کو بھی ساتھ لے جائیں، کیو نکہ دونوں ہی حصول اقتدار میں اپنے ہوش و حواس کھو چکے ہیں ،مریم نواز مخالفین کی زبانیں کھینچنے کی باتیں کرنے لگی ہیں،مریم کس کس کی زبان کھینچیں گی،کرپشن کا حساب ہوگا تو باتیں بھی ہوں گی، مریم نواز کے سخت الفاظ صرف اور صرف عوامی جذبات کو ابھارنے، صوبائی نفرت پھیلانے، اور معصوم لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ہیں، انہیں اپنی بیگناہی نیب میں جاکرثابت کرنی چاہیے، انہیں اپنا موقف بھی وہیں پیش کرنا چاہیے،عوام جب ان کی لوٹ مار میں شامل نہیں تو نیب کو جواب دیتے وقت انہیں ساتھ ملانے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے۔ دراصل پی ڈی ایم قیادت کا جاریحانہ اندازِ گفتگو دباﺅ،سیاسی ناکامی و پسپائی اور مشکل حالات کا نتیجہ ہے،حکومت پر یلغار کرنے واے خود انتشار کا شکار نظر آنے لگے ہیں، پی ڈی ایم دوستوں کی دشمنیاں کیا گل کھلائیں گی ، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ،تاہم پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی کندھا نہ دینے کا فیصلہ کر کے میاں نواز شریف ، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کے خوابوں کو چکنا چور کردیا ہے۔ آصف علی زرداری نے پی ڈی ایم قیادت کو سیاسی طور پر اس جگہ لاکھڑا کیا ہے کہ ان کے آگے اور پیچھے صرف موت ہے۔ اس مشکل سیاسی صورتحال نے مولانا اورمریم نوازکو ذہنی طور پر متاثر کیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ غصے میں بھول چکے ہیں کہ حساب کتاب حکومت نے نہیںاپوزیشن قیادت نے دینا ہے۔ اس وقت عدالتیں حساب صرف ہیرا پھیری ، لوٹ مار کرنے والوں کا لے رہی ہیں،تاہم ڈریئے اس وقت سے کہ جب قوم سمجھ گئی کہ سابق حکمرانوں کی طرز سیاست نے ملک کو معاشی اور اخلاقی طور پر کس قدر نقصان پہنچایا ہے ،اس کے بعد قوم اپنے نقصان کا حساب خودلینے نکلے گی تو کسی کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔