مسلمانوں کی نسل کشی

اگرحالیہ عالمی حالات وواقعات کا بغور جائزہ لیاجائے تویہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت صلیبی طرز کی جنگوں کا سلسلہ جاری ہے اور اسلامی ملکوں میں وقفے وقفے سے مسلمانوں کی نسل کشی کرکے ان کیلئے عرصہ حیات تنگ کیا جارہاہے۔ ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ ماضی قریب میں کس کس مسلم ریاست میں مسلمانوں کی بے دریغ اور بد ترین نسل کشی کی گئی۔ کشمیر اور فلسطین میں پچھلی کئی دہائیوں سے انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ افغانستان، چیچنیا اور عراق میں لاکھوں بیگناہ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لیکن اسلامی ملکوں کے حکمران تمام تر طاقت اور وسائل رکھنے کے باوجود ناصرف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں بلکہ ان کی مجرمانہ خاموشی کو حمایت سمجھ کر اسرائیلی حکمران فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر ان کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ عالم اسلام کو یہ سوچنا ہوگا کہ اگر اس طرح سے خاموش رہے تو تشدد اور جارحیت صرف فلسطینیوں اور کشمیریوں تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ دوسرے اسلامی ملک بھی خدانخواستہ اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت تمام مسلمانوں کا فر ض ہے لیکن شرق سے غرب تک دور دورتک کسی مسلمان ملک یا تنظیم میں دم خم نظر نہیں آتا جواپنے مظلوم مسلمان بھائی بہنوں کی مدد ہی کر سکے۔فلسطین میں معصوم بچوں ،خواتین اور آبادیوں پرشدید بمباری اسرائیلی بربریت کاشاخسانہ ہے ،اسرائیلی اقدام کوریاستی دہشت گردی کہنا بیجا نہ ہوگا۔ اسلامی ملکوں کے کمزورایمان والے حکمران فلسطین بحران کے مستقل اورپائیدار حل کیلئے اپنے ذاتی مفادات پس پشت ڈال کرکے متحد نہ ہوئے تو تباہی و بربادی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آے گا۔ اسی طرح چندبرس قبل روہنگیا کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کی گئی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق روہنگیا کے زیرعتاب مسلمانوں کو ”روئے زمین کی مظلوم ترین اقلیت“ قرار دیا گیاہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہونا تو کجا انہیں تو برماریاست کا شہری کہلانے کابھی حق حاصل نہیںہے۔ معاشی اور سماجی حوالے سے یہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم کی طویل داستان ہے۔ 1938 ءمیں برما کو جب برطانوی تسلط سے آزادی ملی تو اسی وقت سے انتہا پسند بدھ درندوں نے” مسلم کش“ پالیسیاں اختیار کر کے برما سے اسلام کی شناخت مٹانے کیلئے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے شروع کر دیے تھے۔ ان پرایک صوبہ سے دوسرے صوبہ تک جانے پہ پابندی عائد کی گئی۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کیلئے دروازے بند کر دیے گئے جبکہ نجی ادارے بنانے پر بھی پابندیاں لگا دی گئیں۔یہاں تک کہ روہنگیامسلمانوں کیلئے شادیاں کرنابھی دشوارترین عمل بنا دیا گیا۔ شادی سے پہلے جوڑے کو سرکاری اہلکاروں کے سامنے پیش ہونا ہوتاہے۔ ہزاروں ایسے واقعات رونما ہوئے کہ شادی سے پہلے ہی عفت مآب مسلمان بیٹیاں ان درندہ صفت برمی اہلکاروں کے ہاتھوں اپنی عزتیں گنوا بیٹھیں۔ مسلمان ظلم سہتے رہے اور یہ خبریں میڈیا پر آتی رہیں۔ لیکن ان سارے مظالم کے باوجود عالمی برادری خصوصا اسلامی ملکوں اور انسانی حقوق کا واویلا کرنیوالی این جی اوز نے کوئی نوٹس یاایکشن نہیں لیا۔ بلکہ دنیا بھر کے میڈیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ فلسطین، برما اور کشمیر میں دماغ کو ماو¿ف کر دینے والے مظالم کے سامنے چنگیز خان اورہلاکو خان کے ظلم و جبر کی داستانیں بھی ما ندپڑجاتی ہیں۔ کہاں ہیں انسانی حقوق کے نام پہ شہرت کمانے والی این جی اوز، کہاں ہیں اپنی بادشاہتوں کے دوام کیلئے دہشت گردی کے بہانے مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے والے شہنشاہان وقت، آج ان دل سوز مناظر پر اقوام متحدہ کیوں خاموش ہے۔ کیا صرف اسلئے کہ مظلومیت کی اس چکی میں پسنے والے مسلمان ہیں۔ اگر یہی کچھ عیسائیوں یا یہودیوں کے ساتھ ہو اہوتاتو کیاپھر بھی یہی رویہ اپنایاجاتا!! یقینا نہیں۔ مسلمانوں کو اب بھی ہوش نہ آئے اور خواب غفلت سے بیدار نہ ہوں توپھر آئندہ بھی انہیں ظلم وستم سہناہوں گے جبکہ ظلم سہنا اورچپ رہنا منافقت ہے۔ اگرمسلم حکمران اسلام اورمسلمانوں کی حفاظت کیلئے متحد نہ ہو ئے اورمیدان میں نہ اترے توتاریخ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گی۔قتیل شفا ئی نے کیا خوب کہا تھا دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی جوظلم توسہتا ہے بغاوت نہیں کرتا تاریخ گواہ ہے کہ پوری دنیا میں جہاں بھی خونی تشدد، خانہ جنگی، انسانی حقوق کی پامالی یا وحشیانہ سلوک کے واقعات پیش آئے ، وہاں اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور با اثر ملکوں نے اس وقت مداخلت کی جب ان کے مفاد وابستہ تھے یا مظلوم مسلمان نہیں تھے۔ ایسٹرن تیمور، جنوبی سوڈان یا دوسرے مقامات پر ایسے واقعات کو روکنے کیلئے اقوام متحدہ اور با اثر ملکوںنے نہ صرف فوری مداخلت کی بلکہ ملکوں کو ہی تقسیم کردیا۔ لیکن جہاں جہاں مظلوم مسلمان ہیں وہاں ان نام نہاد مقتدرقوتوں کو سانپ سونگھ گیا۔ اگر کہیں کارروائی کی بھی تو وسیع قتل و غارت کے بعد۔ افسوس تو ان57 مسلمان ملکوں کے سربراہان پر ہے جو خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ سب سہمے ہوئے اور خاموش ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلمان ملک قدرتی وسائل اور تیل سے مالا مال ہیں لیکن اے کا ش وہاں سچی قیادت بھی ابھرتی ۔ کیا ان وسائل پر قابض مسلمان ملکوں کے سربراہان کا فرض نہیں بنتا کہ اپنے ان مظلوم فلسطینی اورکشمیری بھائیوں کا ان بد ترین حالات میں ساتھ دیں اور اس معاملے کو جلد از جلد اقوام متحدہ میں اٹھائیں۔ حکومت پاکستان فوری طورپر اقوام متحدہ کادروازہ کھٹکھٹائے۔ مسلم ممالک کی کانفرنس بلائیں اور انہیں ساتھ ملا کر دباو¿ بڑھائیں۔ فلسطینی مسلمانوں سے چھینا ہوا حق انہیں واپس لے کر دیں۔ یہ ان کے آبائی وطن ہے اور وہاں پر سکون انداز سے رہنے کا انہیں حق دیا جائے۔ یاد رکھیں اگر آج شب ظلمت کیخلاف پوری توانائی کے ساتھ آواز نہ اٹھائی تو کل خدانخواستہ کوئی دوسرا مسلمان ملک میں کفار کی بربریت کانشانہ بن سکتا ہے۔ #مسلمانوں کی نسل کشی #sana agha khan