کشمیر کا سیاسی میلہ،حکمران اور عوام

آج کل کشمیر میں الیکشن کی تیاریاں عروج پر ھیں۔آزاد کشمیر کے بازار،سکول وکالج گراؤنڈ،کشمیر کے گاؤں،گلیاں،محلے،پاکستانی سیاسی جماعتوں کے نعروں سے گونج رہے ہیں۔گویا ایک سرکس لگا ہواہے کہیں پر ہوائی فائرنگ کی جا رہی ہے، کہیں پیسہ پھینکا جا رہا ہے اور کہیں گالیاں دی جارہی ہیں اور کہیں انسانوں کی خریدوفروخت شروع ہے۔پاکستان کی طرف سے الیکشن مہم پر گئے ہوئے حکمران جماعت کے نمائندے اپنے اپنے طور پر اربوں روپے کے اعلانات کر رہے ہیں اور وزیر امور کشمیر موصوف تو سرعام پیسہ پھینکتے نظر آئے اور کئی جگہوں پر ان کو انڈوں پتھروں اور ٹماٹروں کا جواب فائرنگ کی صورت میں دیتے دیکھا گیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بھٹو ہرگاؤں اور محلے میں زندہ کیا جا رہا ہے۔جن کو 4 اپریل 1979 کو راولپنڈی میں پھانسی دے دی گئی تھی۔مگر آجکل کشمیر میں یوسف رضا گیلانی، آصفہ بھٹو اور بلاول جیسے پارٹی قائدین کشمیر میں اپنی قسمت کا پتا کھیل رہے ہیں۔اور تیسری جماعت نون لیگ ہے جس نے تو کشمیر سے اپنا خونی رشتہ ثابت کرنا شروع کر دیا۔نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز جہاں بھی جاتی ہیں وہ خود کو کشمیر کی بیٹی کہتی ہیں۔جبکہ کشمیر 1947 سے جس پوزیشن پر تھا آج اس سے کمزور سیاسی منظر پیش کرتا ہے عالمی دنیا میں بھی اور ایشیا میں بھی۔کشمیر میں آجکل فاروق حیدر کشمیر کی ساخت متاثر ہونے کا ڈر سنا کر لوگوں کو کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ نون لیگ کو ووٹ دیں یہی کشمیر کی مسیحا جماعت ہے۔جب کے کئی دہائیوں سے نون لیگ پیپلز پارٹی دونوں جماعتیں اقتدار پر براجمان رہی ہیں اور عالمی دنیا میں کشمیر کا مقدمہ لڑنے میں ناکام رہی ہیں۔13 جولائی 2021 جماعت اسلامی نے بھی سراج الحق کی قیادت میں ایک عظیم جلسہ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں کیا۔یہ جلسہ دوسری جماعتوں کے جلسوں سے مختلف بھی تھا اور منظم بھی۔حسب روایت جماعت اسلامی کے جلسے میں کثیر تعداد میں عوام شامل ہوئی۔یہ دوسری پارٹیوں سے اس لیے میری نظر میں الگ تھا کیوں کہ اس میں جماعت اسلامی آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے نائب امیر نے کشمیریوں کے حقوق پر جس دبنگ انداز سے بات کی اسکی مثال اس الیکشن میں کسی اور سیاسی جلسے سے دینا نا ممکن ہے۔نائب امیر جماعت اسلامی شیخ عقیل الرحمٰن نے پاکستانی حکمرانوں کو ببانگ دہل یہ پیغام دیا کہ کشمیر میں ہزاروں میگاواٹ بجلی بنتی ہے جبکہ 300 میگاواٹ پورے کشمیر کا بجلی خرچ ہے۔انہوں نے کہا یہ کسی صورت قابل قبول نہیں کشمیر اندھیروں میں ڈوبا رہے اور کشمیری بجلی سے غیر ریاستی علاقے روشن کیے جائیں۔ان کے اس جلسے نے بہت سارے کشمیریوں کے دل خوش کر دیئے اور یہ باور کرایا کہ واقعی کشمیر میں لوگوں کے حقوق پاکستان اور انڈیا کی جانب سے غصب کئے جاتے ہیں۔کشمیر کے اس الیکشن میں سندھ پنجاب اور افغانستان کی آپسی لڑائی پاکستانی حکمران کبھی نیلم،کبھی مظفرآباد،کبھی میرپور میں لڑتے نظر آتے ہیں۔جن لوگوں کی زمین ہے ان لوگوں کے گراؤنڈ پر مسائل کیا ہیں انکو سندھ کا حکمران پنجاب کا حکمران نہ تو جانتا ہے نہ حل کر سکتا ہے۔بحیثیت کشمیری ووٹر میرا ان حکمرانوں سے سوال ہے۔کشمیر میں یونین کونسل تو دور تحصیل و ضلع کی سطح پر بھی کوئی تسلی بخش ہسپتال موجود نہیں ہے آخر کیوں؟1947 سے لیکر آج تک ہمارے تعلیمی و ترقیاتی فنڈز کا فیصلہ کرنے والے ان حکمرانوں سے سوال کرنا بنتا ہے کہ میرے ملک میں ایک بھی ائیرپورٹ نہیں آخر کیوں؟بحیثیت کشمیری ان حکمرانوں سے ہم سب کا سوال بنتا ہے کہ مودی نے کشمیر میں آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا تم کشمیر کے سگوں نے کیا کیا؟ کشمیر کے ہر پڑھے لکھے جوان کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کشمیر کیا ہے اسکی تاریخ کیا ہے،ان کے حقوق کیا ہیں اور انکے فرائض کیا ہیں۔یہ الیکشن میلہ 25 جولائی کی رات اختتام پذیر ہوجائے گا اور کشمیر پھر لاوارث ہوگا صحت کے میدان میں،ترقی کے میدان میں،اورہر محاذ پر تنہائی و رسوائی مقدر ہو گی۔لہٰذا پاکستانی حکمرانوں کو اور کشمیری جوانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینا ہوں گے کہ کشمیری اس سیاسی میلے کا حصہ ضرور ہیں مگر اسے اپنے مغصوب حقوق کا بھی ادراک ہے۔کشمیری آج بھی UNO کے قراردادی فیصلہ Right of self determination کا منتظر ہے۔پاکستانی حکمرانوں کو یہ علم ہونا چائیے کہ سارے کشمیریوں کو(Neelum Jehlum Hydro Electric of 969 MG) پر نا قابلِ معافی تحفظات ہیں۔دریاؤں کے رخ کی تبدیلی سے شہریوں کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کے حل کے لیے تا حال کوئی قابلِ قدر پیش رفت نہیں ہوئی۔لہٰذا حکمرانوں کو کشمیر کا الیکشن پاکستان کی طرح نہیں سمجھنا چاہیے۔یہاں استحصال حقوق کی ایک لمبی داستان ہے۔اگر قوم اٹھ کھڑی ہوئی تو یہ تماشائے جہاں بنے گا۔ میں اس واسطے چپ ہوں کہ تماشا نہ بنے تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلہ کچھ بھی نہیں۔