”ورلڈ واٹر ڈے“ اور کالا باغ ڈیم

اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے سب بڑی نعمت پانی ہے ۔اللہ تعالی نے سورہ انبیاءمیں فرمایا : ہم نے ہر زندہ چیز پانی سے تخلیق کی ہے۔اس کائنات میں انسانوں سے لے کرحیوان ، چرند ، پرند، حتی کہ درخت اور پھول کلیاں بھی اپنی بقا کے لیے پانی کے محتاج ہیں ۔زراعت، انڈسٹری اور بجلی کا حصول سب پانی کے مرہون منت ہے ۔بین الاقوامی سطح پر پانی کی ضرورت و اہمیت کو سمجھتے ہوئے ۲۲ مارچ کو ورلڈ واٹر ڈے منایا جاتا ہے ۔اس کرہ ارض پر تقریباََ ۴۵۴۱بلین کیوبک کلو میٹرپانی موجود ہے اس میں سے ۵۲ فیصد تازہ پانی ہے جوکہ قابل استعمال ہے باقی کا ۵۷۹ فیصد انتہائی نمکین سمندری پانی ہے جو کہ قابل استعمال نہیں ۔تازہ پانی کا بھی دو تہائی بھی Polar Ice caps, Glaciers, Permafrost کی شکل میں باقی کا ایک تہائی تازہ پانی کی شکل میں دستیاب ہے۔یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ کل پانی کا ایک فیصد سے بھی کم تازہ پانی کی شکل میں موجود ہے ۔ کائنات میں پانی کی مقدار یکساں یعنی Constant ہے جبکہ اس کی ڈیمانڈ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے ۔موسمی تبدیلیوں ، ماحولیاتی تغیر ، صنعتوں کے فروغ اور آبادی میں مسلسل اضافہ سے پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے ۔اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ۰۵۰۲ ءتک۰۴ ممالک کوپانی کی شدیدکمی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر انسان کو سالانہ ۰۰۷۱ کیوبک میٹر پانی درکار ہوتاہے۔ ہائیڈرولوجی کے مشہور شخص اسماعیل سیرا گلڈن کے مطابق اس صدی کی بہت سی جنگیں تیل کے لیے لڑی گئیں لیکن اگلی صدی کی جنگیں پانی پر ہوں گی۔ UNOکے سیکرٹری جنرل بطریس غالی کے مطابق دنیا کی اگلی جنگ ، سیاسی یا معاشی معاملات پر نہیں بلکہ پانی پر لڑی جائے گی امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی جنوبی ایشیا ءکو پانی کے حوالے سے ایک حساس علاقہ قرار دے دیا تھا۔ قدرت نے پاکستان کو پانی کی وافر مقدار عطا کی ہے ۔قیام پاکستا ن کے وقت ہر پاکستانی کو ۰۵۶۵ کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جو کہ آبادی کے بڑھنے اور چند موسمیاتی عوامل کی وجہ سے گھٹتے گھٹتے۰۰۰۱ کیوبک میٹر رہ گئی ہے ۔ پاکستان بنیادی طور پرایک زرعی ملک ہے اور اس کی زراعت کا انحصار دریاﺅں کے پانی پر ہے پاکستان میں پانی کا سب سے بڑا ذریعہ انڈس بیسن ہے ۔ پاکستان میں بہنے والے دریا ستلج ، راوی اور انڈیا سے بہہ کر آتے ہیں جبکہ دریائے سندھ ، چناب اور جہلم مقبوضہ کشمیر سے بہہ کر آتے ہیں ۔ اسی لیے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا ۔ قیام پاکستان کے وقت ہی پاکستان اور انڈیا کے مابین پانی کی تقسیم منصفانہ نہ تھی باﺅنڈری کمیشن کے سربراہ ریڈ کلف نے وہ علاقے انڈیا کو دے دیئے جہاں سے ہیڈ ورکس پاکستان کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی سیلابی کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انڈیا نے دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے اپریل ۸۴۹۱ ءمیںایک ماہرین کی ٹیم انڈیا گئی اور طویل مذاکرات کے بعد انڈیا نے پانی جاری کرنے کی حامی بھر لی لیکن پاکستان کو اس پانی کے چارجز ادا کرنے تھے پاکستان اور انڈیا کے آبی مسئلہ کی باز گشت دوسرے ممالک میں سنائی دینے لگی اور ورلڈ بینک کی مداخلت سے ۰۶۹۱ءمیں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ۔جسے سندھ طاس معاہدہ کہتے ہیں ۔اس معاہدے پر پاکستان میںاس وقت کے پریذیڈنٹ ایوب خان پر سخت تنقید ہوئی کہ اس نے تین دریا بھارت کو بیچ دئیے۔اس معاہدے کے تحت تین مشرقی دریاراوی ، ستلج اور بیاس پر انڈیا کی ملکیت ہوگی جبکہ تین مغربی دریا سندھ ، چناب ،جہلم پر پاکستان کی ملکیت ہو گی تین دریا انڈیا کے حوالے کرنے سے ان علاقوں کو سیراب کرنے کے لئے ڈیمز بنانے کی اشد ضرورت تھی۔ جن سے نہریں نکال کر ان علاقوں کو سیراب کیا جائے جو کہ پہلے مشرقی دریاﺅں سے سیراب ہوتی تھیں ۔ لہذا سندھ طاس معاہدے کے مطابق پاکستان میں دو بڑے ڈیم اور سات (۷) رابطہ نہریں تعمیر کی گئیں ۔واپڈا کے ۱۲۰۲ ءوژن کے مطابق پاکستان کوبڑے اور چھوٹے ڈیمز کی اشد ضرورت ہے خصوصاََ کالا باغ ڈیم کی اہم ضرورت ہے۔پاکستان کے تمام صوبوں کو چا ہیے کہ وہ صوبائی ایشوز کو چھوڑ کر قومی سوچ اپنائیں اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو یقینی بنائیں ،پاکستان میں کم و بیش ۵۵۱ ڈیمز بنائے گئے ہیں ۔پاکستان کے چند بڑے ڈیمز درج ذیل ہیں :(۱) تربیلا ڈیم : یہ ڈیم پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ہری پور میں واقع ہے ۔ یہ ڈیم حجم کے لحاظ ایشاءکا دوسرا بڑا ڈیم ہے یہ منگلا ڈیم سے دو گنا اور اسوان ڈیم ( مصر)سے تین گنا بڑا ہے اور دنیا میں مٹی کی بھرائی کا سب سے بڑا ڈیم ہے ۔تربیلا ڈیم دریائے سندھ پر تربیلا کے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے ۔اس ڈیم کے تین مقاصد تھے : (۱) سیلاب کو کنٹرول کرنا ،(۲) فصلوں کو سیراب کرنا (۳) اور بجلی پیدا کرنا ۔۷۶۹۱ ءمیں عالمی بنک نے اس کی منظوری دی اور دوست ممالک کے تعاون سے ۶۷۹۱ءمیں تکمیل ہوئی اس کی لاگت ۹۴۱ بلین ڈالر تھی ۔ (۲) منگلا ڈیم: پاکستان کا دوسرا بڑا ڈیم منگلا ڈیم ہے جو کہ دنیا کا ۹واں بڑا ڈیم ہے ۔یہ ڈیم آزاد کشمیر کے ضلع میر پور میں بنایا گیا ۔ یہ دریائے جہلم پر بنایا گیاہے ۔ ڈیم کی اونچائی ۷۴۱ میٹر ہے اس ڈیم پر ہونے والے اخراجات بھی ورلڈ بنک نے اٹھائے تھے ۔ ( ۳) وارسک ڈیم : وارسک ڈیم خیبر پختونخواہ میں پشاور کے شمال مغرب میں دریائے کابل پر بنایا گیا ہے ۔ یہ دو مرحلوں میں مکمل ہوا پہلا فیز ۰۶۹۱ ءمیں مکمل ہوا دوسرا ۱۸۹۱ءمیں ۔ (۴)میرانی ڈیم :میرانی ڈیم صوبہ بلوچستان میں دریائے دشت پربنایا گیا ہے۔اس ڈیم کی تکمیل ۶۰۔۲۰۰۲ کے عرصے میں ہوئی یہ ڈیم سیلاب کے پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے ۔ (۵) خانپور ڈیم : یہ ڈیم صوبی خٰبر پختونخواہ کے ضلع خانپورمیں دریائے ہرو پر واقع ہے۔ یہ اسلام آباد سے چالیس کلو میٹر دور ہے اسلام آباد اور راولپنڈی شہروں کو پانی پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی خانپور ڈیم ہے۔ اس ڈیم پر ۲۵۳۱ ملین لاگت آئی یہ ڈیم اپنی خوبصورت کی وجہ سے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بھی ہے ۔ (۶) :حب ڈیم : یہ ڈیم کراچی سے ۶۵ کلو میٹر دریائے حب پر واقع ہے ۔یہ ڈیم صوبہ سندھ اور صوبہ بلو چستان کی سرحد پر ہے اس کا مجموعی رقبہ ۰۰۳۴۲ ایکٹر ہے اور اس میں ۰۰۰۷۵۸ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔لیکن اس وقت جو سب سے ذیادہ ضرورت ہے وہ کالا باغ ڈیم کی ہے جس کی تعمیر سے آنے چیلنجز سے نمٹا جا سکتا ہے اس لئے ہمارے ملک کے تمام اربا ب اختیار و اقتدار کو اس پر سنجیدگی سے مناب اقدام اٹھانا ہوں گے ۔