نیا بلدیاتی نظام عوامی مسائل کے حل میں مددگار ہوگا

وزیراعلیٰ سردار عثمان احمد خان بزدارنے لوکل گورنمنٹ نظام کے مسودے کو جلد حتمی شکل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ نیا لوکل گورنمنٹ سسٹم نچلی سطح پر عوام کے مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرے گا۔ نچلی سطح پر اختیارات کو حقیقی معنوں میں منتقل کر کے عوام کو بااختیار بنائیں گے۔ نئے لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تحت پنجاب میں میٹروپولیٹن کارپوریشن کی تعداد 11تجویزکی گئی ہے۔میونسپل کارپوریشن کی تعداد15رکھنے کی تجویز ہے۔نئے سسٹم کے تحت میونسپل کمیٹیوں کی تعداد 133اورٹاو¿ن کمیٹیوں کی تعداد64 رکھنے کی تجویزہے۔نئے بلدیاتی نظام کے تحت پنجاب میں 11میٹروپولٹین ہوں گی۔ سیالکوٹ کوعالمی حیثیت کے پیش نظر میٹروپولٹین کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ گجرات کوبھی میٹروپولٹین کا درجہ دیا گیا ہے۔ 9 ڈویڑنل ہیڈکوارٹرز پر میٹروپولٹین ہوں گی۔ نئے بلدیاتی نظام کے تحت پنجاب میں 25ضلع کونسل ہوں گے۔ ضلع ناظم،میٹروپولٹین کے میئرکاانتخاب براہ راست جماعتی بنیادہوگا۔نیبرہڈکونسل ،ویلیج کونسل اور تحصیل کونسل کانظام ہوگا۔ نیبرہڈکونسل اورویلیج کونسل کاانتخاب غیرجماعتی بنیادوں پر ہوگا۔ ویلیج کونسل 10سے 20 ہزار آبادی پر مشتمل ہو گی جب کہ نیبر ہیڈ کونسل15سے20ہزار آباد ی پر مشتمل ہو گی۔ ویلیج کونسل کے ساتھ پنچائت کونسل کانظام قائم کرنےکی بھی تجویز ہے۔ پنجائت کونسل کےارکان کوویلیج کونسل کا چیئرمین نامزد کرے گا۔ گاو¿ں کی برادریوں کی اہم شخصیات کی پنچائت کونسل میں نمائندگی ہوگی پنچائت کونسل صفائی، اسٹریٹ لائٹس، اسکول، چھوٹے تنازعات کودیکھے گی۔ پنچائت کونسل کومعمولی نوعیت کے ٹیکس لگانے کا اختیاربھی ہوگا۔نیبرہڈکونسل اورویلیج کونسل میں بزرگ شہریوں کیلئے ایک سیٹ رکھی جائےگی۔ لاہور میٹروپولٹین کارپوریشن میں نیبرہڈکونسل کی بجائے ٹاو¿ن ہوں گے اور ہر ٹاو¿ن کے میئرزکا انتخاب بھی براہ راست ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ وزارت اعلی کا منصب عوام کی خدمت کے لئے وقف ہے۔پنجاب حکومت نے عوام کی خدمت کا بیڑا اٹھایا ہے۔عوامی خدمت کا سفر پوری قوت سے جاری و ساری رہے گا۔ماضی میں سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر مفلوج بلدیاتی ادارے تشکیل دیے جاتے رہے جن کے پاس نہ کوئی اختیارات ہوتے تھے اور نہ ہی عوامی مسائل حل کرنے کے لیے فنڈز۔ پنجاب کے نئے بلدیاتی نظام میں نہ صرف اختیارات بلکہ 30 فیصد ترقیاتی بجٹ بھی گاو¿ں کی سطح تک پہنچائے جائیں گے۔نئے بلدیاتی نظام میںعوام حقیقی معنوں میں بااختیار ہوںگے۔ اس نظام سے پنجاب میں نئی تبدیلی آئے گی۔ سٹیٹس کو ختم کر کے نیا نظام رائج ہوگا۔ پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کی شفاف اور بروقت تکمیل کے لئے ٹھوس میکنزم بنایا گیا ہے۔نئے بلدیاتی نظام کے مسودے کو جلد حتمی شکل دے دی جائے گی اوراگلے برس میں صوبے میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے۔ مقامی حکومتوں کو مکمل بااختیار بنائیں گے۔ بلدیاتی نظام کسی بھی جمہوری نظام کی بنیاد ہوتا ہے۔ بلدیاتی نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں عوام براہ راست منسلک ہوتے ہیں۔ عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب خود کرتے ہیں اور انہیں نہ صرف وہ عرصہ دراز سے جانتے ہیں بلکہ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں۔ بلدیاتی نظام میں نمائندوں کا اپنے علاقہ سے منتخب ہونے کی وجہ سے وہ نہ صرف چوبیس گھنٹے عوام کی خدمت پر مامور رہتے ہیں۔ اس نظام کی ایک اور اہم خوبی خواتین کی انتخابات میں شمولیت ہے۔یہ عوام کو ریلیف دینے کا فوری اور مضبوط ذریعہ ہے۔ ا±مید کی جاتی ہے کہ یہ نظام اپنی اَصل شکل میں رائج کیا جائیگا جس سے نہ صرف ملکی سطح پر عوامی نمائندگی ہوسکے گی بلکہ عام لوگوں کی فلاح وبہبود کیلئے بھی خاطر خواہ کام کیا جائے گا۔پنجاب میں پسماندہ علاقوں کی ترقی کیلئے مختص فنڈز کو کسی دوسرے علاقے یا منصوبے کیلئے منتقل کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ محکموں کو واضح ہدایات دی ہیں کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت سکیموں پر کام کی رفتار تیز کی جائے۔جاری ہونے والے فنڈز کا بروقت استعمال یقینی بنایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے تحریک انصاف لاہورکے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، صوبائی وزرا،ٹکٹ ہولڈرز، خواتین ونگ، یوتھ ونگ،اقلیتی ونگ، عہدیداروں اور کارکنوں سے ملاقات میں واضح طور پر کہاکہ تحریک انصاف کے عہدیدار اورکارکن ہمارا اثاثہ ہیں۔ تحریک انصاف نے اقتدار میں آکر تین دہائیوں کے سٹیٹس کوکو توڑا ۔اقتدار ملا تو پنجاب میں مسائل کا انبار تھا۔پنجاب کومسائل کی دلدل سے نکالنے کیلئے دن رات محنت کی۔سابق حکومت کے مقابلے میں ہم نے تمام فیصلے مشاورت سے کیے۔ہماری حکومت گڈ گورننس اورشفافیت پر یقین رکھتی ہے۔اپنے دور میں کسی کا ناجائز کام کیا نہ کسی کو کرنے دیا۔ہماری حکومت پرکرپشن کا ایک بھی الزام نہیں۔چیلنجزبہت زیادہ ہیں لیکن ہمارا حوصلہ اس سے بلند ہے۔ عثمان احمد خان بزدار کا کہنا تھا کہ لاہور پر پوری توجہ ہے۔سابق دور میں 7یونیورسٹیاں بنیں،ہم نے 21یونیورسٹیاں بنائی ہیں۔ہماری حکومت کی تین سالہ کارکردگی سابق حکومت کے 10برس کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہے۔شاہکام چوک پر 606 میٹر طویل دو طرفہ فلائی اوور بن رہا ہے۔ لیبر کالونی سے شاہکام چوک تک چھ کلو میٹر طویل ڈیفنس روڈ کو دو رویہ بنایا جائے گا۔ لاہور کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر لاہور کو نئے انتظامی یونٹس میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔لاہور کو ایک ڈپٹی کمشنر کے ذریعے اب انتظامی طورپر چلانا ممکن نہیں۔ لاہور کو انتظامی لحاظ سے تقسیم کریں گے اورنئے اضلاع بنائیں گے۔لاہور کے منصوبوں کیلئے وسائل کی کوئی کمی آڑے نہیں آنے دی جائے گی۔