طالبان کو افغانستان میں امن و استحکام یقینی بنانا

وزیراعظم عمران خان نے تاجکستان میں مختلف ممالک کے صدور سے ملاقات میں افغانستان بارے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چالیس سالہ تنازعے کے بعد جامع حکومت کے قیام سے افغانستان میں امن و استحکام یقینی بنایا جاسکے گا جو کہ نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ افغان طالبان کی موجودہ حکومت کو تسلیم کیا جائے اور ان سے روابط بڑھائے جائیں۔ افغانستان میں روس کے انخلاءکے بعد اختلاف اور لڑائیاں ہوئیں۔افغان مجاہدین کے مختلف گروہ بن گئے۔ بالآخر افغان طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت قائم کر لی ۔ نائن الیون کے بعد امریکی اور اتحادی افواج کے حملے نے افغانستان ہی نہیں پورے خطے کا امن تہہ و بالا کر دیا۔ اب جب کہ امریکہ اور اتحادی ممالک افغانستان سے جا چکے ہیں اور طالبان کی مخلوط حکومت قائم ہو گئی ہے تو اس کی ہر شعبے میں ہر ممکن امداد سے افغانستان کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔ تاجکستان ،ازبکستان، پاکستان ، ایران افغانستان سے ہمسایہ ممالک ہیں۔سوویت یونین کے خلاف لڑائی میں تاجک اور ازبک مجاہدین نے افغان مجاہدین کے ساتھ مل کر جنگ کی تھی۔ اب امریکہ کے خلاف بھی بڑی تعداد میں ازبک اور تاجک مجاہدین کی بڑی تعداد افغانستان میں موجود ہے۔تاجک صدر کی خواہش ہے کہ تاجکوں کو افغان مخلوط حکومت میں شامل کیا جائے۔عمران خان نے افغان حکومت کے قیام اور دیگر معاملات بارے طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اسی حوالے سے عمران خان نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورتحال پریشان کن ہے۔ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے۔ افغانستان میں کیا ہونے جا رہا ہے پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ خطے کا امن افغان عوام سے جڑا ہے۔طالبان عالمی سطح پر خود کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں امن سے خطے کو فائدہ ہو گا۔ افغانستان میں افراتفری اور پناہ گزینوں کے مسائل کا خدشہ ہے۔ افغانستان اس وقت اہم موڑ پر ہے۔ وہ اگر غلط سمیت گیا تو تباہی ہو گی۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ افغانستان ہے۔ پوری دنیا اس وقت افغانستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ادھرطالبان نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے 40 نکاتی نئے آئینی ڈھانچے کے مطابق افغانستان کا سرکاری مذہب اسلام ہو گا۔ خارجہ پالیسی کا محور اسلامی شریعت پر ہو گا۔ عوام کو بنیادی انسانی حقوق‘ انصاف یکساں طور پر ملیں گے۔ تمام پڑوسیوں کے ساتھ پرامن طریقے سے مسائل حل ہوں گے۔ سرکاری زبان دری اور پشتو ہوں گی۔ اقلیتیں مذہبی عقائد میں آزاد ہوں گی۔ افغانستان کا کوئی حصہ بھی بیرونی طاقتوں کے تابع نہیں ہوگا۔ ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ افغانستان میں لڑکیوں کے سکول جلد کھول دیئے جائیں گے۔ حکومتی عہدیدار لڑکیوں کی علیحدہ تعلیم کے انتظامات کر رہے ہیں جبکہ علیحدہ کلاسز اور اساتذہ کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ جمیعت علماءاسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنا افغانستان کو تسلیم کرنا ہے۔ طالبان سے ہمدردی رکھیں اور فوراً ان کی حکومت کو تسلیم کریں۔ چین اور روس دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ ہمیں بھی رابطہ رکھنا چاہئے ہم افغانستان کے براہ راست پڑوسی اور تاریخی رشتے میں منسلک ہیں۔ افغانستان میں پرامن اور مستحکم نظام لانے کیلئے تعاون کریں۔ پاکستان سمیت افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک طالبان حکومت کی تائید و حمایت کے لیے تیار تو ہیں لیکن اس سلسلے میں افغان طالبان کو بھی کچھ ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن سے یہ پتا چلے کہ وہ ہمسایہ ممالک کی پریشانیوں میں اضافہ کا باعث ہرگز نہیں بنیں گے۔ اس وقت ایک طرف تو افغانستان کے شمالی اور مشرقی صوبوں میں داعش کی خراسان شاخ کی موجودگی ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے اور دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بھی سر اٹھا رہی ہے جو اپنی تخریبی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کرسکتی ہے۔ گو کہ طالبان اس حوالے سے واضح بیان دے چکے ہیں کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن اس کے باوجود صورتحال پوری طرح ان کے قابو میں دکھائی نہیں دے رہی۔ جب تک افغانستان میں امن و امان قائم نہیں ہو جاتا اور نئی باقاعدہ حکومت اپنا کام شروع نہیں کردیتی تب تک ہمسایہ ممالک تشویش کا شکار رہیں گے۔ طالبان کی طرف سے عبوری حکومت کے اعلان کے بعد معاملات درست سمت میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن اس حوالے سے افغان حکومت کو بالعموم تمام بین الاقوامی برادری اور بالخصوص ہمسایہ ممالک کا تعاون درکار ہوگا جس کے لیے خود طالبان بھی کوششیں کررہے ہیں اور پاکستان کی بھی یہ خواہش اور کوشش ہے کہ افغانستان میں قائم ہونے والے نئے سیاسی انتظام کو عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کی تائید و حمایت حاصل ہو تاکہ معاملات جلد سدھار کی طرف آسکیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کی طرف سے بارہا یہ کہا جاچکا ہے کہ پ±ر امن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد ہے اور اس کے مقصد کے حصول کے لیے پاکستان ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہے۔