پاکستانی ڈوزیئر نے بھارت کا چہرہ بے نقاب کر دیا

بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا رکھا ہے۔ اس بارے پاکستان نے اقوام متحدہ سمیت دنیا کے تمام بڑے پلیٹ فارمز اور انفرادی طور پر بھی بڑے ممالک کو ڈوزیئر بھیجے ہیں ۔ یوں پاکستان کے جارحانہ سفارتی اقدام کے مثبت نتائج سامنے آنے لگے۔ پاکستان کے 131 صفحات کے ڈوزیئر نے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا۔ عالمی برادری بھارتی جنگی جرائم‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ششدر رہ گئی۔ بھارت نے سفارتی سطح پر ڈوزیئر کے اثرات زائل کرنے کی کوشش کی مگربری طرح ناکام ہو گیا۔ یہ ڈوزیئر حقائق پر مبنی ہیں اور بھارت اب تک ان حقائق کو دنیا سے اوجھل رکھتا چلا آیا ہے۔ اسی لئے مودی سرکار عالمی تنظیمیوں، سفارت کاروں ، صحافیوں اور دیگر غیر ملکی افراد کو مقبوضہ کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں دیتا کہ کہیں اس کی قلعی کھل نہ جائے مگر پاکستان نے وہ کام کر دکھا یا کہ اب بھارتی کردار دنیا کے سامنے عیاں ہو گیا۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل ڈوزیئر سے متعلق کئی امور پر متحرک ہو گئے۔ انسانی حقوق کونسل کے خصوصی نمائندوں نے بھارتی حکومت کو سوال بھیجے۔ مودی سرکار نے انسانی حقوق کونسل کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔ برطانوی ایوان نمائندگان اور یورپین پارلیمان میں ڈوزیئر پر مباحثے ہوئے۔ امریکی کانگریس اور متعلقہ کمیٹیوں میں بھی ڈوزیئر کی بازگشت سنائی دی۔ اسلامی تعاون تنظیم نے بھی ڈوزیئر کو انتہائی سنجیدہ لیا۔ اسلامی تعاون تنظیم رابطہ گروپ برائے کشمیر نے مظالم پر دلی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وزارت خارجہ نے ڈوزیئر 70 سے زائد ممالک کے سفارتی مشنز کو فراہم کیا۔ پاکستان میں غیرملکی سفرائ‘ ہائی کمشنرز ‘ سفارتکاروں کو بریفنگ دی گئی۔ بیرون ممالک پاکستانی مشنز نے ڈوزیئر متعلقہ حکومتوں کے حوالے کیا۔ یو این سیکرٹری جنرل‘ رکن ممالک کے مستقل مندوبین کو ڈوزیئر دیا گیا۔ ابھی اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس میں پاکستان کی جانب سے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے ناقابل تردید ثبوتوں پر مشتمل ڈوزیئر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو پیش کردیا گیا۔ پاکستانی مندوب منیر اکرم کا کہنا تھا کہ بھارت، پاکستان اور خطے میں دہشت گردی اسپانسر کررہا ہے اور پاکستانی معیشت کو مفلوج کرنا چاہتا ہے۔ ہم نے سیکریٹری جنرل پر زور دیا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے خلاف اس کی دہشت گردی اور تخریبی مہم روکنے پر مجبور کرنے میں کردار ادار کریں۔ ڈوزیئر کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستانی مندوب کا کہنا تھا کہ بھارت کی پاکستان کے خلاف مہم میں جو چیزیں شامل ہیں وہ یہ ہیں کہ سرحد پار حملے کر نے کے لیے دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں مثلاً تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار جن کی جڑیں پاکستان سے اکھاڑ دی گئی ہیں، انہیں فروغ دینا اور اسپانسر کرنا،پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو متاثر کرنے کے لیے دوسری چیزوں کے ساتھ بلوچ باغیوں کو اسپانسر کرنا،ٹی ٹی پی کے منتشر گروہوں کو یکجا کر کے تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ علیحدگی پسندوں میں اتحاد قائم کرنا ان گروہوں کو ہتھیار، گولہ بارود اور آئی ای ڈیز فراہم کرنا،سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے 700 کی خصوصی فورس تیار کرنا، افغانستان اور بھارت میں کیمپوں میں پاکستان مخالف دہشت گردوںکو تربیت دینا،دہشت گردوں کو اہم پاکستانی شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کی ذمہ داری دینا۔ ڈوزیئر میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھارتی تخریبی کارروائیوں کے بھی شواہد موجود ہیں۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزی میں ملوث ہے اور پاکستان ہر قسم کی بھارتی جارحیت کے خلاف اپنے دفاع کا پورا حق رکھتا ہے۔ بھارت کے الزامات بہت کمزور ہیں اور نہ ہی اس کے ثبوت ہیں، ہمارے خطے میں کافی عرصے سے صورتحال غیر مستحکم ہے اور بھارت کے 5 اگست کے اقدام کے بعد سے سیکیورٹی صورتحال مزید نازک ہوگئی ہے۔ پاکستان کامیابی کے ساتھ اپنی سرزمین سے دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ کرچکا ہے لیکن گزشتہ چند ماہ سے افغانستان کے غیر انتظام علاقوں سے سرحد پار دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس قسم کے حملوں میں بھارت ملوث ہے اور اب ہم نے اس بات کے ناقابل تردید ثبوت اکٹھے کرلیے ہیں کہ بھارت، دہشت گرد حملوں، علیحدگی پسندی اور بغاوت کو فروغ اور ففتھ جنریشن ہائبرڈ وار سے منسلک ہو کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سسلہ وار مہم میں ملوث ہے۔ عالمی عدالت انصاف بھی محض ایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے اور عالمی ضمیر جھنجھوڑنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ عالمی دنیا کو بہت سی جگہوں پر ہونے والی دہشت گردی اور جارحیت کے نتیجے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی فکرتو ستاتی ہے لیکن ایک طویل عرصے سے بھارتی استعماریت اور مذہبی جنونیت کا شکار ہونے والے مظلوم کشمیریوں کی چیخ و پکار نہیں سنائی دیتی۔ ستر سال سے نہ تو مہذب اقوام بھارت کو استصواب رائے کے لئے مجبور کر سکے ہیں اور نہ ہی اقوام متحدہ اس حوالے سے اپنی حیثیت تسلیم کرا سکی ہے۔ اگر عالمی دنیا نے بھارتی ہندو انتہا پسندی کے خلاف موثر اقدامات نہ اٹھائے تو اس کے علاقائی اور عالمی امن کے لیے بڑے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ ہم چاہتے ہیں مسئلہ کشمیر اور بھارتی دہشت گردی کے مسئلے کا پرامن حل نکلے۔ سلامتی کونسل میں گزشتہ سال 3 مرتبہ مسئلہ کشمیر پر بحث ہوئی۔ عالمی برادری چاہتی ہے کہ دونوں اطراف سے تحمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ ہماری ہمیشہ ایک ذمہ دارانہ پالیسی رہی ہے۔ اقوام متحدہ میں ایکشن لینے کا اختیار صرف سلامتی کونسل کو حاصل ہے اور اس کے لیے سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل اراکین میں اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔