بھارتی انتظامیہ کشمیریوں کی جائیداد ہتھیانے لگی

نریندر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت نے کشمیری مسلمانوں کو اپنی آبائی جائیداد سے یہ دعوی کرتے ہوئے بے دخل کرنا شروع کر دیا ہے کہ یہ جائیدادیں دراصل کبھی کشمیری پنڈتوں کے زیر استعمال رہی ہیں۔ جنوبی ضلع اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنرDr Piyush Singla نے اعتراف کیا ہے کہ اب تک ضلع میں 22 کشمیری مسلمانوں کو ان کی جائیدادوں سے بے دخل کیا گیا ہے۔ جبکہ مزید10 جائیدادوں کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اپنی مرضی سے وادی کشمیر میں کشمیری مسلمانوں نے جائیداد فروخت کی ہے۔ اراضی کے جعلی دعوے کرانے والوں میں زیادہ تر پنڈتوں کی نوجوان نسل شامل ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہاں بھارت سے ہندوو¿ں کو لا کر بسایا جائے اور یوں کشمیر کی آبادی میں مسلم اکثریت کو ختم کیا جائے۔ غیر کشمیری ہندوو¿ں کو کشمیر میں بسانے کےلئے زمین کی ضرورت تھی جو کہ 370 آرٹیکل کے تحت ممکن نہ تھا کیونکہ اس آرٹیکل کے تحت کوئی بھی غیر کشمیر ، مقبوضہ وادی میں جائیداد یا زمین نہیں خرید سکتا تھا۔ اسی لئے آرٹیکل کو ختم کر کے فلسطین میں یہودیوں کی بستیوں کی طرف یہاں ہندوو¿ں کی بستیاں بسائی جانے لگیں۔ بستیاں بسانے کےلئے زمین کی ضرورت ہے جس کےلئے جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کے دوران بھارتی انتظامیہ جھوٹے مقدموں کے ذریعے کشمیریوں کی جائیداد ہتھیانے لگی ہے۔ قابض بھارتی فوج اور انتظامیہ” اسرائیلی ماڈل“ پر عمل درآمد کرتے ہوئے کشمیریوں کی جائیدادوں پر انتہاپسند ہندوو¿ں کو آباد کیا جاسکے اور نسل کشی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلا جائے۔بھارتی وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر میں ”اسرائیلی ماڈل“پر کام کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس کا اعلان بھارتی وزیراعظم کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آیا تھا۔ بھارت کی مرکزی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو بدلنے کے لئے جموں، ادھم پور، پونا، دہلی اور دیگر شہروں میں تین دہائیوں سے مقیم کشمیری پنڈتوں کیلئے وادی میں خصوصی ٹاو¿ن شپ قائم کیے جائیں گے۔اسی لئے 1990 سے وادی کشمیر سے باہر رہنے والے پنڈت خاندانوں کی کشمیر واپسی کیلئے بھارتی حکومت نے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ ہندوستان کے انتہا پسند وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر میں ہندوو¿ں کی آبادکاری کیلئے دس علیحدہ علاقے مختص کیے ہیں۔ یہ علیحدہ بستیاں وادی کشمیر کے 10 اضلاع میں قائم کی جائیں گی۔ ان خصوصی بستیوں میں پنڈت خاندانوںکیلئے مکانات تعمیر کیے جانے کے ساتھ ساتھ ہسپتال ،مارکیٹ اور سکول کالج کی سہولیات بھی رکھی جائیں گی۔نئے کشمیر بلیو پرنٹ کے مطابق مخصوص بستیوں کے نزدیک خصوصی سیکورٹی کے انتظامات بھی کیے جائیں گے۔ اس مقصد کیلئے پولیس اور سیکورٹی فورسز کی مشترکہ چوکیوں کا قیام بھی عمل میں لانے کے قوی امکانات ہیں۔دو تین عشرے قبل90ءکی دہائی میں پرتشدد صورتحال کے باعث تقریباً دو اڑھائی لاکھ سے زائد ہندو مقبوضہ کشمیر چھوڑ کر بھارت منتقل ہوگئے تھے اس عرصہ میں تمام ہندوخاندان بھارت میں رچ بس چکے ہیں لیکن نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مقبوضہ کشمیر پربھارتی قبضے کی جڑیں مزید گہری اورمضبوط بنانے کی ٹھانی ہے۔ کشمیر کی حیثیت بدلے دو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر ابھی تک کشمیری ہندو پنڈت بھی کشمیر میں آکر آباد نہ ہو سکے۔ ایک سال قبل وہ اتنے جذباتی ہو رہے تھے کہ جیسے وہ وادی کشمیر کے دروازے تک پہنچ چکے ہوں۔ بس کھڑکی سے انھیں اپنے خوابوں کا کشمیر نظر بھی آنے لگا تھا۔ مگر ابھی تک ان کے یہاں قیام پذیر نہ ہونے میں بہت سے عوامل راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ وہ ایسا محسوس کررہے ہیں جیسے ان کا ساتھ کوئی دھوکہ ہوا ہو۔ان کا کہنا تھا کہ وہ صدیوں سے کشمیر میں رہ رہے ہیں اور یہ کشمیر ان کا گھر ہے جبکہ مقامی حریت پسند مسلمان انھیں اپنے لیے خطرہ قرار دیتے آ رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں بھارتی حکومت ان پنڈتوں کے ذریعے آزادی کی تحریک کو کچلنا چاہتی تھی۔ وادی میں انتخابی حلقوںکی حد بندی میں ایک سازش کے تحت ردوبدل کر کے وادی کشمیر کے مسلم اکثریتی شناخت کو تبدیل کرنا ہے۔مسلم اکشریتی حلقوں کو تقسیم کیا جائے گا اور نئی حلقہ بندی میں ہندو آبادی کو شامل کیا جائیگا اور ان کی اکثریت ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی اور جن علاقوں میں ہندو اکثریت نہیں ہوگی وہاں نئے ووٹر بنا کر نئی بستیاں بنائی جائیں گی۔ اس نئی سازش کے تحت مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریتی علاقوں کو کانٹ چھانٹ کر ان کی حیثیت کو تبدیل کرنے کا عمل سرفہرست ہے۔ بھارت کے اس مذموم منصوبے کی کشمیری عوام کی طرف سے شدید مذمت اور مزاحمت کا سلسلہ پہلے سے جاری ہے۔ بھارت کے اس طرزعمل سے وادی کشمیر میں ہندو اور مسلم کشمیریوں کے درمیان قائم روایتی بھائی چارے کی فضا ختم ہوسکتی ہے۔ کشمیری کسی بھی قیمت پر اپنی اکثریت اور ثقافت کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ سابق بھارتی فوجیوں کیلئے پہلی کالونی کی تعمیر کے لئے بڈگام میں25ایکڑ اراضی کی نشاندہی کر لی گئی، ایک سینئر کشمیری حکومتی عہدیدار نے بتایا سابق فوجیوں اور انکے خاندانوں کو آباد کرنے کے لئے یہاں پہلی کا لونی بنا رہے ہیں۔بیورو کریٹک پراسیس مکمل کرنے کے بعد ٹرانسفر کا عمل شروع ہو گا۔وادی میں انتخابی حلقوںکی حد بندی میں ایک سازش کے تحت ردوبدل کر کے وادی کشمیر کے مسلم اکثریتی شناخت کو تبدیل کرنا ہے۔مسلم اکشریتی حلقوں کو تقسیم کیا جائے گا اور نئی حلقہ بندی میں ہندو آبادی کو شامل کیا جائیگا اور ان کی اکثریت ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی اور جن علاقوں میں ہندو اکثریت نہیں ہوگی وہاں نئے ووٹر بنا کر نئی بستیاں بنائی جائیں گی۔ اس نئی سازش کے تحت مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریتی علاقوں کو کانٹ چھانٹ کر ان کی حیثیت کو تبدیل کرنے کا عمل سرفہرست ہے۔ بھارت کے اس مذموم منصوبے کی کشمیری عوام کی طرف سے شدید مذمت اور مزاحمت کا سلسلہ پہلے سے جاری ہے۔ بھارت کے اس طرزعمل سے وادی کشمیر میں ہندو اور مسلم کشمیریوں کے درمیان قائم روایتی بھائی چارے کی فضا ختم ہوسکتی ہے۔ کشمیری کسی بھی قیمت پر اپنی اکثریت اور ثقافت کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔